بنگلہ دیش کے دیواستبداد کی جمہوری قبا تارتار

Jan 08, 2014

فتح محمد ملک ....دنیائے اسلام

بنگلہ دیش کے انتخابی ڈھونگ کا خیال کرتا ہوں تو مجھے، بیساختہ، ایک امریکی دانشور کی حالیہ تحریر یاد آ جاتی ہے پاکستان میں امریکہ کے سابق سفیر اور وُڈرَووِلسن انٹرنیشنل سنٹر کے موجودہ نظریہ ساز وِلیم بی میلام نے اپنے مضمون بعنوان The Bangladesh Paradox (مطبوعہ انٹرنیشنل نیویارک ٹائمز، 10دسمبر2013ئ) میں بنگلہ دیش کے مروجہ سیاسی نظام کو برائے نام جمہوریت اور فی الحقیقت یک جماعتی آمریت قرار دیا ہے۔اُنکے خیال میں بنگلہ دیش کا سیاسی نظام جمہوری اوصاف سے محروم ہے۔ یہ ایک رسمی جمہوریت ہے جو حقیقی جمہوریت کے معیار و اقدار سے ناآشنا ہے۔ جناب وِلیم بی میلام نے پیش گوئی کی ہے کہ اگربفرضِ محال موجودہ حکومت یک جماعتی انتخابات کے عمل کو پایۂِ تکمیل تک پہنچا لیتی ہے تب بھی اُسے ازسرِنو انتخابات کرانا پڑیں گے جس کے نتیجے میں حزبِ اختلاف کے مسندِ اقتدار پر فائز ہونے کے امکانات روشن تر ہو جائینگے۔بنگلہ دیشی وزیراعظم کے مشیر گوہر رضوی نے بھی اِس امر کا قوّی امکان ظاہر کیا ہے کہ جلد از جلدنئے سِرے سے انتخابات کا انعقاد ممکن ہے۔ بنگلہ دیش کی حکومت اِس حقیقت افروز تجزیے پر غور و فکر کیلئے وقت نہ نکال سکی اور حزبِ اختلاف کی اِکیس(21)سیاسی جماعتوںکے بائیکاٹ کوخاطر میں نہ لاتے ہوئے انتخابات کے انعقاد پر بضد رہی۔
بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کی رہنما بیگم خالدہ ضیاء نے درونِ خانہ نظربندی کے عالم میں عوام سے ہڑتال کی اپیل کرتے ہوئے اِن انتخابات کو ایک مذاق قرار دیا ہے۔اُن کا کہنا ہے کہ ’’ جمہوریت مر چکی ہے اِس لیے یہ حکومت غیر قانونی ہے۔ ‘‘ بیگم خالدہ ضیاء پیشتر ازیں دو بار وزیراعظم رہ چکی ہیں۔اُنکے اِس مطالبے پر حزبِ اختلاف کی تمام سیاسی پارٹیاں متفق ہیں کہ منصفانہ انتخابات کے انعقاد کی خاطر، تمام سیاسی پارٹیوں کے نمائندوں پر مشتمل ایک غیر جانبدارعبوری حکومت قائم کی جائے جو تین ماہ کے اندر اندر اپنا کام مکمل کر کے اقتدار کامیاب ہونیوالی جماعت کے سپرد کر دے۔’’اِس آئینی تقاضے کو پورا کیے بغیر الیکشن ، الیکشن ہر گز نہیں بلکہ ایک شرمناک سلیکشن ہے۔‘‘ یہ ہیں وہ الفاظ جو بیگم ضیاء نے جمہوریت کو بچانے کیلئے احتجاجی جلوس کے آغاز پر کہے تھے۔حزبِ اختلاف کے احتجاج کی پرواہ نہ کرتے ہوئے وزیراعظم مستعفی ہونے سے انکاری اور اپنے سیاسی مخالفین کو کچلنے کی پالیسی پر قائم رہیں ۔ نتیجہ یہ کہ آج بنگلہ دیش آگ کی لپیٹ میں ہے ،قتل و غارت کا بازار گرم ہے اور رسمی جمہوریت عوام کے حقوق کی پامالی سے عبارت ہے۔ صرف ایک دِن میں ایک سو سے زیادہ پولنگ سٹیشنوں، بیلٹ پیپر سے بھرے ہوئے ڈبوں کے ساتھ ساتھ ایک ریل گاڑی کو بھی نذرِ آتش کر دیا گیا ہے۔ پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق حزبِ اختلاف کے 1200 سرگرم کارکنوں کو گرفتار کر لیا گیاہے اور پچاس ہزار فوجی جوانوں کو قیامِ امن کا فریضہ سونپ دیا گیاہے۔ حزبِ اختلاف اور خصوصاً جماعتِ اسلامی کے حامیوں اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان خوفناک تصادم برپا ہے۔ اِس صورتحال میں امریکہ ، یورپین یونین اور دولتِ مشترکہ نے اپنے مبصرین کو بنگلہ دیش بھیجنے سے انکار کر دیا تھا۔ اب امریکہ اور اقوام متحدہ نے بنگلہ دیش میں ہونیوالے ڈھونگ انتخابات کے نتائج کو مسترد کر دیا ہے لیکن بھارت نے تسلیم کرنے کا اعلان کیا ہے۔
بیگم خالدہ ضیاء کی قیادت میں سرگرمِ عمل بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی مُلک کی مقبول ترین سیاسی جماعت ہے۔ اِس پارٹی کا سب سے بڑا قصور یہ ہے کہ جماعتِ اسلامی بھی اِسکی اتحادی ہے۔ بھارت نواز وزیراعظم شیخ حسینہ واجد نے جماعتِ اسلامی کے انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ اِس پابندی کی رُو سے جماعتِ اسلامی کا کوئی ایک امیدوار بھی الیکشن میں حصہ نہیں لے گا۔قدرتی طور پر جماعتِ اسلامی کے وابستگان بیگم ضیاء کی جماعت BNP ہی کو ووٹ دینگے۔ صرف چند ہفتے پیشتر شہید عبدالقادر مُلّا کو پھانسی کے پھندے پر لٹکایا گیا ہے۔ اِس ظلم و ستم نے اسلام پسندوں کی حکومتِ وقت سے نفرت کو شدید ترکر دیا ہے۔ بھارت سے نفرت بنگلہ دیش کے عام مسلمان کی گُھٹی میں پڑی ہوئی ہے۔ بنگلہ دیش کے قیام کے نتیجے میں شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ 1972میں اقتدار میں آئی تھی۔ بنگلہ دیش کی فوج نے شیخ مجیب الرحمن کو بھارت کی تابعداری ہی کی سزا میں خاندان کے بیشتر افراد کیساتھ قتل کر دیا تھا۔ اُنکے بعد اُنکی بیٹی شیخ حسینہ واجد نے عوامی لیگ کی قیادت سنبھالی مگر جلد ہی جنرل ضیاء الرحمن نے اُن سے اقتدار چھین لیا تھا۔ جنرل ضیاء 1981میں قتل کر دیئے گئے اور یوں اُنکی جگہ جنرل حسین محمد ارشاد اقتدار میں آئے۔ جنرل ارشاد نے 1988میں ایک آئینی ترمیم کے ذریعے اسلام کو بنگلہ دیش کا سرکاری مذہب قرار دے دیا۔ یہ آئینی ترمیم بنگلہ دیش کی قومی اسلامی شناخت کا اثبات ہے۔
بنگلہ دیش کے پہلے وزیراعظم شیخ مجیب الرحمن نے مارچ 1971میں جماعتِ اسلامی پر پابندی عائد کر دی تھی۔ جماعت کے رہنماء پروفیسر غلام اعظم کی قومیت چھین لی گئی تھی۔بعدازاں پروفیسر غلام اعظم پاکستان میں جلاوطنی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور کر دیئے گئے تھے۔جنرل ضیاء نے 1978میں اُنکی قومیت ازسرِنوبحال کر کے اُنہیں بنگلہ دیش آنے کی اجازت دی تھی۔ 1976میں جماعتِ اسلامی پر سے پابندی اُٹھا لی گئی۔ چنانچہ 1979کے انتخابات میں جماعتِ اسلامی نے بھرپور حصہ لیا تھا۔ بیگم خالدہ ضیاء کی نیشنلسٹ پارٹی کے ساتھ جماعتِ اسلامی کا اتحاد ہمیشہ سے قائم چلا آ رہا ہے۔اِسکی سب سے بڑی وجہ ہر دو سیاسی جماعتوں کا بنگلہ دیش کی بھارت سے الگ ، جداگانہ اور منفرد قومی شناخت سے اٹوٹ وابستگی ہے۔
بنگلہ دیش کی اسلام پسند جماعتوں پر جمہوری عمل کی راہیں مسدود کر دینے کی سیاسی حکمتِ عملی انتہائی خطرناک نتائج کی حامل ہے۔جہاں بھی اورجب بھی جمہوری سیاسی عمل کو ناممکن بنا دیا جاتا ہے وہاں تشدد پسندی اور دہشت گردی کی راہیں کُھل جاتی ہیں۔ ہمیں یہ ہر گز نہیں بھولنا چاہیے کہ بنگلہ دیش میں القاعدہ بھی سرگرم ہے۔ 11ستمبر 2001میں اُسامہ بن لادن کے حق اور امریکہ کی مخالفت میں مظاہرے شروع ہوئے تھے ۔ جماعت المجاہدین نے تشدد کی راہ اپنائی تھی۔ 17۔اگست 2005ء کو بنگلہ دیش کے مختلف شہروں میں آدھ گھنٹے کے اندر اندر پانچ سو بم حملے ہوئے تھے۔ حرکۃ الجہاد الاسلامی کا القاعدہ سے گہرا تعلق بتایا جاتا ہے۔ ایسے میں جمہوری سیاسی عمل سے عوام کو مایوس کر کے رکھ دینے کی پالیسی انتہائی خطرناک نتائج کی حامل ہے۔شیخ حسینہ واجد کو یہ حقیقت ہمیشہ پیشِ نظر رکھنی چاہیے کہ جب سیاسی شعبدہ باز جمہوریت کو مذاق بنا کر رکھ دیتے ہیں تب غیر جمہوری قوّتیں بھی اِس جمہوری تماشے کو ختم کر کے رکھ دیتی ہیں۔ اگر ہم مصر کے حالیہ واقعات سے سبق اندوز ہونے کی صلاحیت رکھتے ہوں تو ہمیں اِس نتیجے پر پہنچنے میں ذرا دِقت نہیں ہوتی کہ جب اخوان المسلمون کے صدر مُرسی کی اسلامی جمہوری نظام کی جانب پیش رفت کو بزورِ شمشیر روک دیا جاتا ہے تو اِسکے ردِعمل میں اخوان المسلمون ہی کے ایمن الظواہری کے سے رہنما باطل کے اقتدار کو ختم کرنے کی خاطر دہشت گردی اور تشدد پسندی کی راہ اپنانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

مزیدخبریں