اربوں روپے کے اخراجات بھی لاہور پولیس کو سدھارنہ سکے نجی ٹارچر سیلوں میں اب بھی تشدد کے روایتی طریقے استعمال ہوتے ہیں۔ عرصہ بیت گیا’’ پولیس کا ہے فرض مدد آپ کی‘‘ والا نعرہ بھی اپنی کشش کھو بیٹھا’’ مددگار‘‘ کا نام ملنے کے باوجود پولیس کی طرف سے عوام کی مدد نہ کرنے کا عزم برقرار رہا۔ بے گناہ لوگوں کو یا ملزموں کو پکڑ کر قانون کی نظروں سے چھپا کر نجی ٹارچر سیلوں میں ہفتوں بند رکھنا ان پر تھرڈ ڈگری کا تشدد کرنا عام روایت بن چکا ہے۔کئی کیسوں میں تو ان خفیہ سیلوں میں بند قیدیوں کی بازیابی کیلئے انکی گرفتاری ڈالنے کیلئے بھی لاکھوں روپے رشوت وصول کی جاتی ہے ورنہ لواحقین کو خطرہ ہی رہتا ہے کہ کہیں انہیں جعلی مقابلے میں ’’ پار‘ ‘ نہ کردیاجائے۔
رہی بات وزیراعلیٰ پنجاب کی طرف سے تھانہ کلچر میں تبدیلی اور شریف لوگوں کی تھانے میں عزت کرنے کی تو یہ سب خواب و خیال کی حد تک تو درست ہے۔ حقیقت میں تھانے آج بھی پہلے کی طرح بد ترین اذیت گاہوں کی شکل میں موجود ہیں۔ عمارتیں بدلنے سے روئیے نہیں بدلتے رویوں میں تبدیلی انسانی سوچ کی تبدیلی سے ممکن ہوتی ہے۔بد قسمتی سے ہمارے ہاں جوش سے معذرت کے ساتھ…؎
موت کے وقت کی یٰسین بنا رکھا ہے
’’ تھانے ‘‘ کو آپ نے ’’تذلیل‘‘ بنا رکھا ہے
والی صورتحال جابجا نظر آتی ہے۔شہری ہویا دیہی تھانیدار، تھانیدار اور پولیس اہلکار کسی صورت بھی اپنا رویہ بدلنے کیلئے تیار نہیں۔ اسلئے حکومت جو اربوں روپے پولیس کی اصلاح پر خرچ کر رہی یہ عوام کی فلاح وبہبود پر خرچ کرے کیونکہ پولیس تنخواہ کے علاوہ بھی رزق کمانے کے ایک سو ایک طریقے جانتی ہے ۔اگر پولیس والوں کو تنخواہیں نہ بھی ملیں انکی زندگی رہن سہن میں کوئی فرق نہیں آئے گا۔ذرا ان کے گھر بار اور طرز رہائش پر نظر ڈالیں تحقیقات کرائیں بہت سے گوشے بے نقاب ہوجائیں گے ۔ آزمائش شرط ہے۔
٭…٭…٭…٭
بیٹوں نے دوسری شادی کے خواہشمند باپ کے ٹکڑے کردئیے۔بہت عرصہ ہوا ایک شعر کئی رکشوں اور بسوں پر لکھا دیکھا اور آج بھی کہیں نہ کہیں کئی تبدیلیوں کے ساتھ لکھا ہوا ملتا ہے مگر مطلب وہی ہے شعر کچھ ایسے ہے…؎
ہر پھول کی قسمت میں کہاں ناز عروسی
کچھ پھول توکھلتے ہیں مزاروں کیلئے بھی
اب یہ حقیقت کوٹ رادھا کشن میں سامنے آئی ہے جہاں ایک عمر رسیدہ باپ نے اپنی خاموش زندگی میں بے خواب راتوں میں رنگ بھرنے کیلئے ایک مرتبہ پھر سرپر سہرا سجانے کی خواہش کی تو اس کے ظالم بیٹوں نے خواہش پورا کرنے کی بجائے باپ کی زندگی کا چراغ ہی گل کردیا۔ایک باپ کئی بچوں کے سروں پر سہرا سجاتا ہے مگر کئی بچے ایک باپ کے سر پہ دوسری بار سہرا دیکھنے کی خواہش پر نجانے کیوں آپے سے باہر ہوگئے۔ابھی تو صرف بات چیت چل رہی تھی منگنی کا ذکر ہورہا تھا کہ ظالم بیٹے قاتل بن گئے اور باپ کے ٹکڑے ٹکڑے کردئیے۔اب کہاں حجلۂ عروسی اورکہاں گور غریباں ۔نظام دین کی قسمت میں لگتا ہے صرف ایک بار ہی دولہا بننا لکھا تھا۔افسوس ہے ایسی اولاد پرجو خود اپنی ہر خواہش والدین سے پوری کروا لیتی ہے مگریہ ان کی ایک خواہش بھی پوری نہیں ہونے دیتے …
٭…٭…٭…٭
سبزہ زار سے تیرہ سالہ لڑکی اغوا۔ لاہور میں ایسے اغوا کی وارداتیں اس قدر عام ہوگئی ہیں جس طرح کراچی میں لاشیں گرنا۔ پاکستان کے دونوں بڑے شہروں میں جرائم پیشہ افراد نے جس مضبوطی سے پنجے گاڑھے ہوئے ہیں اس کے جواب میں اب حکومت کوبھی ا ٓہنی شکنجہ کسنا ہوگا اور ان قاتلوں اور اغوا کاروں کو سخت عبرتناک سزادینا ہوگی۔اس پر ہی بس نہیں کرنا بچیوں کے اغوا کے کاروبار میں وہ لو گ بھی برابر کے شریک ہیں جو اس اغوا کی واردات میں اور لڑکیوں کی خریدو فروخت کے مکروہ دھندے میں ملوث ہوتے ہیں۔
یہ مظلوم کم عمر لڑکیاں زبردستی یا اپنی کم عقلی و نادانی سے مجرمانہ ذہنیت رکھنے والوں کے ہتھے چڑھنے کے بعد جس طرح کوچہ وکوچہ کوبہ کو بکتی ہیں وہ انسانیت اور ہمارے معاشرے کے منہ پر ایک طمانچہ ہے اسلئے حکومت پنجاب خاص طورپر بچے اور بچیوں کے اغوا کی وارداتوں کی روک تھام پر پوری توانائی صرف کرے اور اس نیک کام میں اگر پانچ چھ اغوا کار خرکارسرعام پھانسی پر لٹکانے بھی پڑیں تو دریغ نہ کیا جائے۔
٭…٭…٭…٭
امدادی عملے نے 36 گھنٹے بعد نالے میں گرنے والی کرین کے ڈرائیور کی نعش نکال لی۔ انسان کے اندر چھپی انسانیت اگر ختم ہوجائے تو پھر وہ انسان نہیں رہتا جب تک انسانیت کی رمق بھی انسانی زندگی میں باقی ہے اسکے اندر سے خیر کا جذبہ کبھی ختم نہیں ہوسکتا۔لاہور میں گزشتہ دنوں ایک کرین گندے نالے میں گر گئی جسکا ڈرائیور بھی نالے میں ڈوب گیا مسلسل کئی گھنٹے دن رات امدادی کارروائی کرنیوالے عملے کے ارکان نے ہر طرح کی کوشش کی نعش برآمد نہ ہوسکی۔ ہمارے روایتی تساہل پسند معاشرے میں تو چند کوششوں کے بعد ہی ’’ نہیں بابا نہیں‘‘ کا جملہ سننے کو ملتا ہے مگر اس کٹھن کام میں مصروف عملہ مسلسل جدوجہد کے بعد بالآخر نالے کی تہہ سے نعش ڈھونڈ نکالنے میں کامیاب ہوا جس پر انکی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے اس طرح کے لوگ ہمارے معاشرے میں انسانیت کے باقی ہونے کا ثبوت ہیں۔
اسلئے حکومت پنجاب کو چاہئے کہ وہ ان امدادی کارکنوں کو خصوصی انعام دے اگرچہ ان کا یہ کام انعام اور ستائش کے صلے سے بہت بڑا ہے مگر اس طرح باقی لوگوں میں کچھ کرنے کا جذبہ پیدا ہوسکتا ہے۔