”رہے گی بزم ادب سوگوار برسوں تک“

Jan 08, 2014

خالد یزدانی
سال گزشتہ میں علم و ادب کی کئی شخصیات داغ مفارقت دے گئیں۔ ابھی خالد احمد جیسے شاعر ادیب اور کالم نگار اور سید عابد علی عابد کی بیٹی اردو کی معروف شاعرہ شبنم شکیل سے ادبی دنیا اداس تھی کہ اردو پنجابی اور انگریزی کے شاعر و ادیب پروفیسر الطاف حسین جو چاہت تخلص کرتے تھے اس جہان فانی سے چلے گئے اور علمی و ادبی دنیا میں اپنی یادیں چھوڑ گئے۔ ہم زندگی میں جن گوہر نایاب کی قدر نہیں کرتے۔ ان کے جانے کے بعد ان کی کمی محسوس کرتے ہیں۔ پروفیسر الطاف حسین چاہت بھی ایسی ہی ہردلعزیز شخصیت تھے۔ انگریزی ادب کے استاد تھے اور گورنمنٹ دیال سنگھ کالج میں صدر شعبہ ریٹائر ہونے کے بعد ”دی نیشن“ سے ری رائٹ ایڈیٹر بھی وابستہ رہے۔
الطاف حسین چاہت شاعر مشرق علامہ اقبال کے بھی پرستار تھے اور زندگی کے آخری سالوں میں اقبالیات پر پی ایچ ڈی کا مقالہ بھی لکھ رہے تھے جو تکمیل کے آخری مراحل میں تھا مگر بیماری نے مہلت نہ دی۔ الطاف چاہت جتنے اچھے انگریزی ادب کے استاد تھے اتنے ہی اردو افسانے لکھنے میں مہارت رکھتے تھے۔ مرحوم کی تصانیف میں افسانوں کے مجموعے آگ اور تتلی، دھوپ کب نکلے گی قابل ذکر ہیں۔ انگریزی میں ان نظموں کا مجموعہ بھی شائع ہوا جبکہ ان کے پنجابی افسانوں اور ڈراموں کی کتابیں بھی زیر اشاعت تھیں جبکہ ان کے پنجابی افسانوں اور ڈراموں کی کتابیں بھی زیر اشاعت تھیں ان کی شخصیت کا ایک پہلو اور بھی تھا کہ علم و ادب کے ساتھ سکاﺅٹنگ سے بھی وابستگی رہی اور 54 سال تک اس سے وابستہ رہے۔ سکاﺅٹنگ میں پریزیڈنٹ گولڈ میڈل بھی حاصل کیا تھا جبکہ آل پاکستان گلڈ آف اولڈ سکاﺅٹس کے جنرل سیکرٹری بھی رہے۔ ورلڈ جمہوری آف سکاﺅٹ میں پاکستانی دستے کی قیادت کا اعزاز بھی انہیں حاصل تھا۔
الطاف حسین چاہت کی تحریروں نظم و نثر میں ان کے جذبات و احساسات کی جھلک ملتی ہے۔ آج وہ اس دنیا میں نہیں رہے۔ اب ان کی یادیں ان کی تحریروں میں علم و ادب کے ایوانوں میں ہمیشہ روشن رہیں گی کہ ایسی منکسر المزاج شخصیت کی کمی ان کے دوستوں شاگردوں اور اہل خانہ کو ہمیشہ محسوس ہو گی
رہے گی بزم و ادب سوگوار برسوں تک
کہ ان سے لوگ دوبارہ ملا نہیں کرتے

مزیدخبریں