”مَوت بھی ”کوکلا چھپاکی“ کھیلتی ہے!

جب ہمارے کسی رشتہ دار دوست یا کسی ایسی شخصیت کا انتقال ہوتا ہے جِس کا ہماری زندگی میں بہت زیادہ دخل رہا ہو تو ذہن میں تمام آسودگانِ خاک کی فلم سی چلنے لگتی ہے۔ 1987ءمیں جناب بھٹو کے شہر لاڑکانہ سے سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس کی حیثیت سے ریٹائر ہونے والے گُجرات کے 87 سالہ چودھری غلام حیدر اقبال تین روز قبل جاں بحق ہوئے تو مجھے دوسرے کئی احباب کے ساتھ ساتھ اسلام آباد کے انسپکٹر جنرل پولیس ملک محمد نواز خان مرحوم بہت یاد آئے۔ دسمبر 1991 میں سینی گال کے دارالحکومت ”داکار“ میں اسلامی سربراہی کانفرنس تھی۔ مَیں ”نوائے وقت“ کے کالم نویس کی حیثیت سے وزیرِاعظم نواز شریف کی میڈیا ٹیم میں شامل تھا۔ اسلام آباد سے داکار جاتے ہُوئے ہم سب ایک رات اور آدھے دِن کے لئے یونان کے دارالحکومت ”ایتھنز“ میں ٹھہرے وہاں ”جنگ“ کے سینئر ایڈیٹر جناب ارشاد احمد حقانی مرحوم میرے "Room Mate" تھے۔ وزیرِاعظم لابی میں وفد اور میڈیا ٹیم کے ارکان کے ساتھ تصویریں کھچوا رہے تھے۔ اُن دنوں ملک محمد نواز خان وزیرِاعظم کے چیف سکیورٹی آفیسر تھے۔
 مَیں نے وزارتِ اطلاعات و نشریات کے فوٹو گرافر محمد محسن سے کہا کہ آپ ملک محمد نواز صاحب کے ساتھ میری ایک "Exclusive" تصویر کھینچ دیں۔ وزیرِاعظم نے میری یہ بات سُن لی اور مجھ سے پوچھا ”اثر چوہان صاحب! ملک محمد نواز صاحب سے آپ کا کوئی خاص تعلق ہے؟“ مَیں نے عرض کِیا کہ جی ہاں! پولیس سروس جائن کرنے سے پہلے 1956ءسے 1957ءتک ملک صاحب گورنمنٹ کالج سرگودھا میں میرے انگریزی کے اُستاد رہے ہیں۔ وزیرِاعظم نے کہا ”ملک محمد نواز صاحب میرے بھی محترم بزرگ ہیں۔ آپ اُن کے اور اپنے ساتھ مجھے بھی "Exclusive" تصویر کھنچوانے کی اجازت دیں“۔ پھر سرکاری پروٹوکول کی خلاف ورزی کرتے ہُوئے محمد محسن نے تصویر کھینچی۔ اُس میں ملک محمد نواز درمیان میں اور وزیرِاعظم نواز شریف دائیں طرف اور مَیں اُن کے بائیں طرف کھڑا تھا۔ملک محمد نواز خان اپنی پولیس سروس اور جن دوسرے محکموں کی سروس میں رہے۔ میرا اُن سے مسلسل رابطہ رہا۔ وہ ایک دیانتدار اور دبنگ پولیس آفیسر تھے اور محکمہ پولیس کے "God Father" کہلاتے تھے۔
26 ستمبر 2009ءکو میری بیٹی عاصمہ کا ولیمہ تھا۔ ملک محمد نواز صاحب کو میرے داماد معظم ریاض کے والد چودھری محمد ریاض اختر نے مدعُو کِیا تھا۔ چودھری صاحب نے میرا ملک صاحب سے تعارف کرانے کی کوشش کی تو ملک صاحب نے انہیں اپنی بات مکمل نہیں کرنے دی اور کہا ”اثر چوہان میرے سارے شاگرداں وِچّوں سب توں بہادر شاگرد اے تُسیں ایہدے نال میرا تعارف نہ کراﺅ!“ دس دن بعد مجھے ملک صاحب کا ٹیلی فون آیا اور بولے”اثر چوہان مَیں تیتھوں بوہت شرمندہ ہاں مَینوں تے کل پتہ چلّیا اے پئی معظم ریاض نال تیری دھی دا ویاہ ہویا اے“ پھر وہ اپنی شرمندگی دُور کرنے کے لئے اپنی بیگم صاحبہ کو ساتھ لے کر میرے گھر تشریف لائے اور انہوں نے میری بیٹی اور داماد کو قیمتی تحائف دئیے۔ ملک صاحب نے مجھے اپنی کتاب کا مسّودہ دکھایا اور کہا کہ ”مَیں چاہتا ہُوں کہ کتاب چھپنے سے پہلے تُم اِسے پڑھ لو“۔ مَیں نے کہا میں کل لندن جا رہا ہوں واپسی پر پڑھوں گا“ ابھی میں لندن میں ہی تھا کہ 8 جون 2012ءکو فرشتہ اجل نے ملک صاحب کی رُوح قبض کر لی۔ مَیں نیو یارک میں تھا کہ لاہور میں مجھ سے چھوٹا اور سب بھائیوں میں واحد ”اللہ لوک“ جاوید اقبال چوہان 26 اگست 2008ءکو انتقال کر گیا اور گذشتہ سال جب لندن میں تھا جب میری خوش دامن بیگم امیر بیگ کا یکم دسمبر 2013ءکو لاہور میں انتقال ہُوا۔ 1947ءمیں سکھوں کی ریاست پٹیالہ میں اُن کے خاندان کے 15 افراد شہید ہُوئے تھے۔ وہ اکثر کہا کرتی تھیں کہ سِکھوں نے ہمارے لوگوں کو اِس لئے قتل کیا کہ وہ مسلمان تھے لیکن طالبان کیا سمجھ کر مسلمانوں کو قتل کر رہے ہیں؟“
چودھری غلام حیدر اقبالؒ مرحوم نے ملک محمد نواز خان مرحوم کے ماتحت سِندھ میں کئی جگہ ڈیوٹی انجام دی۔ پھر دونوں میں دوستی اور گھریلو تعلقات قائم ہو گئے۔ چودھری صاحب کا دِینی اور دُنیوی امور پر مطالعہ بہت وسیع تھا۔ انہیں فارسی، اردو اور پنجابی کے ہزاروں اشعار یاد تھے۔ جنہیں وہ اپنی گفتگو میں موقع محل کی حیثیت سے استعمال بھی کرتے تھے۔ کلامِ اقبالؒ کے تو وہ حافظ ہی تھے۔ احباب انہیں ”عاشقِ اقبال“ کہنے لگے پھر ”اقبال“ اُن کے نام کا حِصّہ بنا گیا۔ چودھری غلام حیدر کے والد چودھری امام دین تحریکِ پاکستان کے کارکن تھے۔ 23 مارچ 1940ءکے لاہور میں آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں شریک تھے۔ مہاجرین کی آباد کاری میں انہوں نے اہم کردار ادا کیا۔ چودھری غلام حیدر مرحوم کے ایک بھائی چودھری محمد اقبال زمیندار ہیں۔ دوسرے چودھری اصغر علی فیاض ریٹائرڈ کرنل اور چودھری محمد ریاض اختر بلڈر تین بیٹے ہیں وقار حیدر کرنل ہیںاور ذوالفقار حیدر اور جواد حیدر ماہرینِ تعلیمات ہیں۔ پنجابی کے پہلے شاعر بابا فرید شکر گنجؒ نے کہا ہے کہ
”جِند ووہٹی مرن وَر لے جا سی پرنائِ“
یعنی جان دُلہن ہے اور ملک اُلموت دُلہا وہ اُسے بیاہ کر لے جاتا ہے۔ چودھری غلام حیدر اقبالؒ سے میری گہری دوستی تھی۔ بہت ہی زندہ دِل اور شفیق انسان تھے۔ مَیں نے اُن سے بہت کچھ سیکھا۔ پاکستان سے محبت اُن کی گھٹی میں پڑی تھی، اُن کی علمی وراثت میں سب سے زیادہ حِصّہ اُن کی صاحبزادی عزیزہ شیریں حیدر اور اُن کے شوہر (پھوپھی زاد) میجر جنرل مختار احمد نے حاصل کیا۔ شیریں حیدر کئی کتابوں کی مصنفہ اور اسلام آباد کے ایک معیاری تعلیمی ادارے کی ہیڈ مسٹرس ہیں۔ چوھدری غلام حیدر اقبال کے انتقال پر مجھے ایتھنز میں جناب ارشاد احمد حقانی مرحوم کی رفاقت "Acropolis" کی سیر اور یونانی فلاسفر ”سقراط“ کی بھی یاد آئی جنہیں اُن کی حق پرستی کی وجہ سے عمائدین یونان نے زہر کا پیالہ پینے کی سزا دی تھی۔ سقراط نے جیل سے بھاگنے کی اپنے شاگردوں کی تجویز یہ کہہ کر مسترد کر دی تھی کہ مَیں بھاگ کر کہاں جاﺅں گا؟ کیا دنیا میں کوئی ایسی جگہ ہے جہاں موت نہ آتی ہو؟“
قارئینِ کرام! آپ نے بھی لڑکپن میں ”کوکلا چھپاکی“ کھیل کھیلا یا دیکھا ہو گا جس میں لڑکے ایک دائرہ بنا کر بیٹھ جاتے ہیں اور ایک لڑکا کوکلا (لمبے کپڑے کا بل دیا ہوا کوڑا) چھُپا کر اردگرد دوڑتا ہے اور کسی نہ کسی لڑکے کے پیچھے اُسے چھُپا دیتا ہے اور اگر اُس کے واپس آنے تک وہ لڑکا جِس کے پیچھے کوکلا چھپایا ہو۔ مع کوکلا کے بھاگ نہ جائے تو وہ کھیل سے آﺅٹ ہو جاتا ہے۔ اِس طرح کھلاڑی آﺅٹ ہوتے جاتے ہیں اور دائرہ تنگ ہوتا جاتا ہے۔ جب میرا کوئی رشتہ دار دوست یا بزرگ عالمِ جاودانی کے سفر پر روانہ ہوتا ہے تو مجھے محسوس ہوتا ہے کہ ”موت بھی ہم سب کے ساتھ ”کوکلا چھپاکی“ کھیلتی ہے۔

ای پیپر دی نیشن