پاکستان پیپلز پارٹی، ایوانِ اقتدار میں

ذوالفقار علی بھٹو شہیدکی قیادت میں پاکستان پیپلز پارٹی کی تاسیس اور حیرت انگیز عوامی پذیرائی پاکستانی سیاست میں اپنی مثال آپ ہے-ایوب آمریت کیخلاف عوامی جمہوری جدوجہد کے دوران پارٹی کی قیادت اور عوام اور پارٹی عہدیداران کے ساتھ قیادت کی نظریاتی اور فکری یگانگت اپنے عروج پر تھی- جب پارٹی ایوانِ اقتدار میں داخل ہوئی تب رفتہ رفتہ بھٹو شہید اور اُن کے رفقائے کار کے مابین وہ یگانگت مسلسل کمزور پڑتی چلی گئی - اسلامی سوشلزم اور سائنٹیفک سوشلزم کے علمبردار ایک دوسرے کو اپنا غیر سمجھنے لگے- حکومت کی مجبوریوں کے پیشِ نظر ایسے لوگوں کو بھی پارٹی اور حکومت میں لا بٹھانا پڑا جو سِرے سے سوشلزم ہی کو پاکستان کے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھتے تھے- رفتہ رفتہ نوبت یہاں آ پہنچی کہ پارٹی کے سابقون الاوّلون بھی اپنے قائد کے اشاروں کا درست مفہوم سمجھنے سے قاصر ہو کر رہ گئے- عدم ابلاغ کی اِس خطرناک صورتِ حال کامیرے درج ذیل تجربے اور مشاہدے سے کیا جا سکتا ہے-
نامور دانشور ایازامیر کے والدِ مرحوم جناب امیر خان ایک ایسی نڈر، بہادر اورعوام دوست شخصیت تھے جنھوں نے ضلع چکوال اور آس پاس کے علاقوں میں پاکستان پیپلز پارٹی کو عوامی مقبولیت بخشنے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا-ایک ایسے علاقے میں سرداروں کی سیاسی روایات کو خاک میں ملا کر انھوں نے پرانی سیاست گری کو خوار و زبوںکر کے رکھ دیا تھاجو انگریزوں کے دورِ عروج سے لے کر پیپلز پارٹی کے قیام اور فروغ تک سکّہ رائج الوقت رہی تھی- قومی اسمبلی میں پہنچ کر انھوں نے علاقے کے عوام کی خدمت کا فریضہ اِس شان سے سرانجام دیا تھا کہ لوگوں کے دلوں سے سرداروں کا خوف نکل گیا تھا- ایسے میں جب اُنکے پُراسرار قتل کی خبر عام ہوئی تو علاقے کے غریب عوام میں ایک کہرام مچ گیا-عام لوگوں کی اُنگلیاں سرداروں کی جانب اُٹھنے لگیں- اِس فضا میں جب اُن کی خالی کی ہوئی قومی اسمبلی کی نشست پر الیکشن کا اعلان ہوا تو حُسنِ اتفاق سے میں وزیرِاعلیٰ پنجاب محمد حنیف رامے کے ساتھ خدمات سرانجام دے رہا تھا- قومی اسمبلی کی اِس خالی نشست کو پُر کرنے کی خاطر ٹکٹ کا فیصلہ کرنے کے لیے تین افراد پر مشتمل بورڈ قائم ہوا- یہ تینوں کے تینوں اصحاب پاکستان پیپلز پارٹی کے بنیادی ارکان تھے- وزیرِاعلیٰ پنجاب محمد حنیف رامے مرحوم اِس بورڈ کے صدر تھے اور پارٹی کی صوبائی شاخ کے صدر ملک معراج خالدمرحوم اور خورشید حسن میر مرحوم اِس بورڈ کے اراکین تھے-اِن تینوں مہربان رہنمائوں نے یہ کہہ کر مجھے بھی اِس اجلاس میں شرکت کی سعادت بخشی کہ میں اِس حلقہء انتخاب کا ایک ادنیٰ سا فرد ہوں اور یوں میں عوامی خیالات اور جذبات سے براہِ راست واقفیت رکھتا ہوں-
اِدھر اجلاس شروع ہوا اور اِدھر خورشید حسن میر مرحوم نے بات ختم کر دینے کے انداز میں فرمایا کہ بحث کی کیا ضرورت ہے بھٹو صاحب نے مجھے روانگی کے وقت یہ حکم دے دیا ہے کہ ٹکٹ کے حقدار سردار اشرف ہیں، بس ہمیں اپنے آمرِ مطلق کے اِس فیصلے پر اپنے اپنے دستخط ثبت کرنے ہیں-اِس پر میں نے بتایا کہ اگر اِس حلقہء انتخاب میں کسی بھی سردار یا نواب کو پارٹی ٹکٹ دیا گیا تو عوام کے دلوں میں جس شک نے گھر بنا لیا ہے وہ یقین میں بدل جائیگا- حقیقت کا حال تو اللہ جانتا ہے مگر عوام اِس شہبے میں مبتلا ہیں کہ پُرانے سیاسی خانوادوں نے ہی اپنی سیاسی راہ کا یہ سنگِ گراں ہٹادیا ہے- بہتر یہ ہے کہ بھٹو صاحب کو اِس حقیقت سے آگاہ کر دیا جائے- اِس پر ہر تین حضرات نے ذوالفقار علی بھٹو کی’’ آمرانہ ادائوں ‘‘پر غیض و غضب کا اظہار کیا -اِس پر میں نے جناب محمد حنیف رامے سے گزارش کی کہ وہ اِس علاقے کے ایک عام آدمی کی حیثیت سے میرے تاثرات بھٹو صاحب کے گوش گزار کر دیں- جب حنیف رامے صاحب نے ٹیلی فون پر بھٹو صاحب سے رابطہ کیا تو بھٹو صاحب نے کہا کہ فیصلہ میں نے نہیں آپ تینوں نے کرنا ہے- میں نے تو خورشید حسن میر سے فقط اتنا کہا تھا کہ ’’ٹمن صاحب نے سردار اشرف سے بھی ملوایا تھا- He is a well dressed man. ..... اِس سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ میں نے اُس کی سفارش کی ہے- میں نے تو یہ کہنا چاہا تھا کہ اُس میںتو صرف ایک ہی خوبی ہے کہ وہ خوش پوش ہے- آپ تینوں باہمی مشاورت سے جو مرضی ہے فیصلہ کر لیں-‘‘ اِس پر اِن تینوں شخصیات نے متفقہ طور پر پی آئی اے ملازمین کی ایسوسی ایشن کے سرکردہ لیڈر نذر کیانی کے حق میں فیصلہ دے دیا- اب مشکل یہ آن پڑی تھی کہ اگلی صبح فارم جمع کرانے کی آخری تاریخ تھی مگر جناب نذر کیانی ڈھونڈے سے بھی کہیں دستیاب نہیںہو رہے تھے- اِس پر میں نے روزنامہ جنگ(راولپنڈی) کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر اور اپنے عزیز دوست شورش ملک سے فون پر مدد مانگی تو انھوں نے بتایا کہ جب اسلام آبادسے لاہور روانگی کے وقت خورشید حسن میر نے نذر کیانی کو بتایا کہ ٹکٹ اُن کی بجائے سردار صاحب کو دینے کا حکم ہواہے تو وہ سخت دلبرداشتہ ہوکر منظر سے غائب ہو گئے- میں اُن کا کھوج لگاتا ہوں اور اُنھیں کل صبح 9 بجے تک تمھارے گھر بھجوا دیتا ہوں- یوں اگلے روز ، دفتری اوقات کے دوران نذر کیانی نے اپنے کاغذاتِ نامزدگی داخل کرائے اور انتخاب میں بھاری اکثریت سے کامیاب ہو گئے-
میرے مشفق و مکرم جناب خورشید حسن میر پاکستان پیپلز پارٹی کے اُن چند نظریاتی ارکان میں سے ایک تھے جو پاکستان پیپلز پارٹی کی تاسیس سے بھی پہلے ذوالفقار علی بھٹو شہید کے اشارہ ہائے ابرو کو بخوبی سمجھنے اور اُن پر عمل کرنے کے خوگر تھے- پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد یہ نظریاتی کارکن رفتہ رفتہ دو گروہوں میں بٹ کر رہ گئے تھے- ایک گروہ سائنٹیفک سوشلسٹوں پر مشتمل تھا اور دوسرا گروہ اسلامی سوشلزم کا علمبردار تھا- ہر دو گروہوں سے وابستہ رہنما پارٹی اور حکومت کے اندر باہم متصادم گروہوں کی صورت اختیار کرنے لگے- جب باہمی اشتراکِ عمل مفقود ہو کر رہ گیا تو ہر دو گروہوں کے ساتھ وابستہ افراد پارٹی اور حکومت سے باہر بیٹھے ہوئے عناصر کے اثر میں آنے لگے-یوں اندر کے اختلافات جلسہ ہائے عام میں بھی اظہار پانے لگے- سائنسی سوشلزم کے علمبردار خورشید حسن میر اور اسلامی سوشلزم کا راگ الاپنے والے مولانا کوثر نیازی برسرِعام ایک دوسرے پرطنز و تشنیع کے تیر برسانے لگے- اِس پر خورشید حسن میر پارٹی قیادت سے رُوٹھ بیٹھے اور نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ ایک دن ذوالفقار علی بھٹو نے حنیف رامے صاحب کو فون پر اطلاع دی کہ خورشید حسن میر حکومت اور پارٹی سے مستعفی ہونے کو ہیں- وہ دوپہر کی فلائٹ سے براستہ لاہورکراچی جا رہے ہیں - اُنھیں اپنے ہاں بُلا کر اپنی اور میری طرف سے سمجھائیں کہ وہ ایسا ہر گز نہ کریں- بیگم نصرت بھٹو نے جب، اس باب میں بیگم خورشید حسن میر سے مدد مانگی تو اُنھوں نے اپنی بیگم کو یقین دلایا ہے کہ وہ مستعفی نہیں ہوں گے مگر میری اطلاع یہ ہے کہ وہ مستعفی ہو رہے ہیں - اُنھیں سمجھائیں کہ ایسا ہر گز نہ کریں-
جناب خورشید حسن میر کے ساتھ میری دیرینہ نیاز مندی کے پیشِ نظر مجھے ایئرپورٹ بھیجا گیا کہ میں اُنھیں وزیرِاعلیٰ ہائوس لے آئوں-راستے میں میں نے بھی اِس باب میں لب کُشائی کی مگر اُنھوں نے اِس افواہ کی تردید کی کہ وہ مستعفی ہو رہے ہیں- حنیف صاحب نے جب اُنکے سامنے پارٹی اور حکومت کو کسی صورت میں بھی نہ چھوڑنے کا استدلال پیش کیا تو وہ کہنے لگے کہ خداجانے کیوں میری بیگم سے لیکر میرے دوستوں تک مجھے مستعفی ہونے سے باز رہنے کی تلقین کر رہا ہے، جبکہ میں اِن میں سے ہرایک سے صاف صاف کہہ رہا ہوں کہ نہیں بھائی ! میں ہر گز مستعفی نہیں ہو رہا - اِس پر ہم مطمئن ہو گئے- جب میں میر صاحب کو کراچی کی فلائٹ میں بٹھا کر واپس وزیرِاعلیٰ ہائوس پہنچا اور حنیف رامے نے بھٹو صاحب کو فون پر یہ اطلاع دی کہ میر صاحب نہ تو حکومت سے مستعفی ہو رہے ہیں اور نہ ہی پاکستان پیپلز پارٹی سے- اِس پر بھٹو صاحب نے بتایا کہ فلائٹ کراچی پہنچ چکی ہے اور اِس وقت میر صاحب ایئرپورٹ پر صحافیوں سے گفتگو میں مصروف ہیں- اپنی گفتگو کا آغاز اُنھوں نے اپنے مستعفی ہونے کی خبر سے کیا ہے- یہ سُن کر ہم حیرت زدہ رہ گئے- اِس پر میں آج تک حیرت زدہ ہوں!

فتح محمد ملک ....دنیائے اسلام

ای پیپر دی نیشن