اسلام آباد (صباح نےوز) سپریم کورٹ نے سی ڈی اے ملازمین کی غیر قانونی ترقی کے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران سی ڈی اے قانون اور قواعد کی موجودگی میں یونین کے مطالبے پر ترقی دینے پر ادارے سے جواب طلب کرلیا جبکہ سماعت کے دوران چیف جسٹس ناصرالملک نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ سی ڈی اے ملازمین کے بچے سرگاری گاڑیاں استعمال کرتے ہیں، ملازمین میں پلاٹ بانٹے جاتے ہیں۔چیف جسٹس ناصرالملک کی سربراہی میں جسٹس گلزار احمد اور جسٹس مشیر عالم پر مشتمل عدالت عظمی کے تین رکنی بنچ نے وفاقی ترقیاتی ادارے (سی ڈی اے ) کے ملازمین کو غیر قانونی طورپر ترقی دینے کے مقدمے کی سماعت کی۔ سی ڈی اے یونین کے وکیل نعیم بخاری نے عدالت کوبتایاکہ ادارے کے پاس سالانہ چار ارب کا بجٹ ہے اور ملازمین کی ترقی یونین اور انتظامیہ کے مابین معاہدے کے تحت دی گئی ہے اور یہ غیر قانونی نہیں۔ جسٹس گلزار احمد نے کہاکہ سی ڈی اے قانون اور قواعد کی موجودگی میں معاہدے کے تحت ملازمین کو ترقی کیسے دی جاسکتی ہے؟۔ باقاعدہ طریقہ کار کے تحت ترقی کیوں نہیں دی جاتی؟ یونین کیسے ترقی دینے کیلئے کہہ سکتی ہے؟۔ چیف جسٹس نے کہاکہ لیبر کورٹ پہلے ہی سی ڈی اے ملازمین کی تنخواہوں پر فیصلہ دے چکی ہے پھر یونین کے کہنے پر ملازمین کو ترقی کیوں دی گئی؟۔ چیف جسٹس نے کہاکہ سی ڈی اے انڈسٹری نہیں کہ منافع پر کام کرے۔ معاملہ گریڈ ایک سے سولہ کے ملازمین کا نہیں، ان ملازمین کی تنخواہیں عوام کے پیسوں سے دی جاتی ہیں۔عدالت نے فریقین سے سی ڈی اے قانون اور قواعد کی موجودگی میں یونین کے مطالبے پر ترقی دینے پر جواب طلب کرلیا۔ عدالت نے سماعت فروری کے دوسرے ہفتے تک ملتوی کردی ہے۔
سی ڈی اے/چیئرمین