پیرس (رائٹر+ اے ایف پی+ نیٹ نیوز) گستاخانہ خاکے شائع کرنے والے مزاحیہ ہفت روزہ میگزین ’’چارلی ایبڈو‘‘ کے دفتر میں نقاب پوش مسلح افراد کی فائرنگ سے میگزین کے چیف ایڈیٹر، 4کارٹونسٹوں سمیت 10صحافی اور دو پولیس اہلکاروں سمیت 12افراد ہلاک اور 20زخمی ہو گئے۔ اطلاعات کے مطابق یہ افراد کلاشنکوفوں اور راکٹ لانچرز سے مسلح تھے۔ پولیس ذرائع کے مطابق حملہ آور میگزین کے دفتر کے اندر گھس آئے اور فائرنگ شروع کر دی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے گستاخی کا بدلہ لے لیا ہے۔ اس واقعے کی ریکارڈ کی گئی ویڈیو کے مطابق قریبی عمارت کی چھت پر کھڑا ایک شخص اللہ اکبر کے نعرے لگا رہا تھا۔ بی بی سی کے مطابق فائرنگ کے بعد ایک گاڑی میں فرار ہونے سے پہلے ان افراد کا پولیس کے ساتھ فائرنگ کا تبادلہ بھی ہوا۔ فرانسیسی ذرائع ابلاغ کے مطابق موقع پر موجود لوگوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے میگزین کے دفتر پر کلاشنکوف کی فائرنگ کی مسلسل آوازیں سنیں۔ پیرس کی پولیس نے شہر اور نواحی علاقوں میں حملہ آوروں کی تلاش کے لئے بہت بڑی کارروائی کا آغاز کر دیا ہے۔ فرانس ٹو نیوز چینل نے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ رسالے کے دفتر پر مسلح حملہ اس وقت ہوا جب عملہ ہفتہ وار ادارتی میٹنگ کر رہا تھا۔ یاد رہے کہ یہ میگزین ماضی میں بھی مختلف سیاسی اور حالات حاضرہ کی خبروں پر طنزیہ تبصروں کی وجہ سے متنازعہ رہا ہے۔ اس مرتبہ رسالے کی جانب سے کی جانے والی آخری ٹویٹ دولت اسلامیہ کے رہنما ابوبکر البغدادی کے بارے میں تھی۔ فرانس کے صدر فرانسو اولانند نے جائے وقوعہ پر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہاکہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ غیرمعمولی طرز عمل ہے۔ ہمیں اس وجہ سے دھمکایا گیا ہے کیونکہ ہمارا ملک آزادی پسندوں کا ملک ہے۔ انہوں نے قومی اتحاد کی ضرورت پر زور دیا۔ امریکہ نے رسالے پر ہونے والے حملے کی مذمت کی، یورپی یونین کے صدر ژاں کلود یونکر نے کہا ہے کہ انہیں اس فعل پر صدمہ ہوا۔ اے ایف پی کے مطابق زخمیوں میں سے 5کی حالت نازک ہے۔ فرانس کے ایک نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے ایک عینی شاہد کا کہنا تھا کہ ’سیاہ نقاب پہنے ہوئے دو حملہ آور عمارت میں داخل ہوئے‘۔ وہ کلاشنکوفوں سے مسلح تھے اور چند ہی منٹ بعد شدید فائرنگ کی آوازیں سنی گئیں۔ اس کے بعد ہم نے حملہ آوروں کو وہاں سے فرار ہوتے دیکھا۔ پولیس کے اہلکار کا کہنا تھا کہ ’یہ قتل عام ہے‘۔ پولیس نے ذرائع ابلاغ کو خبردار کیا ہے کہ وہ ہوشیار رہیں اور حملے کے بعد پولیس کی جانب سے دی جانے والی حفاظتی ہدایات پر عمل کریں۔ واضح رہے کہ نومبر 2011ء میں بھی اپنے صفحہ اول پر گستاخانہ خاکہ شائع کرنے پر اس دفتر کی عمارت پر آتشگیر بموں سے حملہ ہو چکا ہے۔ فائرنگ کے واقعہ کے بعد فرانس کے صدر نے کابینہ کا ہنگامی اجلاس بلا لیا ہے۔ دریں اثناء پیرس میں یہودیوں کی عبادت گاہ کے قریب کار بم کا دھماکہ ہوا، پیرس میں ایک دن میں دہشت گردی کا یہ دوسرا واقعہ ہے۔ دریں اثناء سپین کے شہر میڈرڈ میں میڈیا کے ادارے کو ایک پیکٹ موصول ہونے پر عمارت خالی کرا لی گئی۔ وائٹ ہائوس کے ترجمان جوش ارنسٹ نے کہا ہے کہ ہم اس واقعہ کی شدید مذمت اور مرنے والوں کے اہلخانہ سے اظہار تعزیت کرتے ہیں۔ برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے کہاکہ برطانیہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ کھڑا ہے۔ ہم آزادی اظہار اور جمہوریت کے حامی ہیں۔ روسی صدر پیوٹن نے کہا کہ ہم ہر طرح کی دہشت گردی کی مذمت کرتے ہیں۔ جرمن چانسلر میرکل نے کہا کہ مجھے اس حملے پر شدید صدمہ ہوا ہے۔ فرانسیسی وزیر داخلہ نے کہا ہے کہ حملہ آوروں کی تعداد 3 تھی۔ دوسری جانب ڈنمارک کے میڈیا گروپ جے پی پولیٹیکنز کے اخبار جیلنڈز پوسٹن کے حفاظتی انتظامات بھی سخت کردیئے ہیں۔ اس اخبار نے بھی گستاخانہ خاکے شائع کئے تھے۔ امریکی صدر اوباما نے کہا کہ ہمارا فرانسیسی حکام سے رابطہ ہے اور ہم نے ان افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لئے اپنی انتظامیہ کو آپ سے تعاون کی ہدایت کردی ہے۔ ترکی نے کہا ہے کہ وہ ہر طرح کی دہشت گردی کا مخالف ہے مگر یورپ کو بھی بڑھتے ہوئے اسلامو فوبیا اور نسل پرستی پر قابو پانا چاہئے۔ ترک وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ اسلام امن کا مذہب ہے، اسلام کو دہشت گردی سے نہ جوڑا جائے۔ عرب لیگ کے سربراہ نبیل العربی نے حملہ کی مذمت کی ہے۔ جامعہ الازھر نے کہا ہے کہ اسلام ہر قسم کے تشدد کی مذمت کرتا ہے۔ یورپی یونین کے صدر ژان نکوویونکر نے حملہ کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس پر صدمہ ہوا ہے۔ سعودی عرب نے کہا ہے کہ وہ اس واقعہ کی مذمت کرتا ہے جو صحیح اسلامی روح کے منافی ہے۔ شام میں دولت اسلامیہ (داعش) سے تعلق رکھنے والے ابومصعب نے حملے کو سراہتے ہوئے کہا کہ اسلام کے شیروں نے بدلہ لے لیا ہے۔برطانوی ملکہ الزبتھ امریکی وزیر خارجہ جان کیری اور پوپ فرانسس نے بھی حملہ کی مذمت کی ہے۔ پیرس میں 5 ہزار اور لیون میں دس ہزار افراد نے اس حملہ کیخلاف احتجاجی ریلی میں شرکت کی۔