اسلام آباد(وقائع نگار) پیپلز پارٹی نے اپنے رکن قومی اسمبلی اور فریال تالپور کے خاوند منور تالپور کے خلاف قومی احتساب بیورو کی کارروائی کے خلاف گزشتہ روز قومی اسمبلی میں احتجاج کیا جبکہ منور تالپور نے کرپشن ثابت ہوجانے پر قومی اسمبلی کی رکنیت سے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا اور کہا انہیں نیب پر نہیں اس ایوان پر اعتماد ہے قومی اسمبلی کی کمیٹی بنائی جائے جو ان پر عائد الزامات کی تحقیقات کرے۔ نقطہ اعتراض پر بات کے دوران پی پی پی کے منور تالپور نیب میں اپنے خلاف کرپشن کے ریفرنس کی منظوری پر قومی اسمبلی میں پھٹ پڑے اور کہا ہم بھاگنے والے نہیں، کوئی کرپشن نہیں کی، اس ایوان کی کمیٹی بنا دیں مگر ذلیل نہ کریں کیا کرپشن صرف ہم نے کی ہے؟ کیا ڈیفنس میں رہنے والوں نے کرپشن نہیں کی؟، جو بڑے بڑے بنگلوں میں رہتے ہیں۔ زرداری کو تنگ کیا جا رہا ہے، میں یہاں موجود ہوں بھاگا نہیں جس نے پکڑنا ہے پکڑ لے، میں اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ بیرون ملک گیا تو کہا گیا فریال تالپور فرار ہوگئی ہم واپس آگئے اور یہاں ہی موجود ہیں نیب احتساب نہیں کر رہا انتقام لے رہا ہے اس ایوان کا احتساب قبول ہے نیب کا نہیں، میں کوئی وزیر، وزیر اعظم یا وزیراعلی نہیں رہا جو مجھ پر کرپشن کے الزامات لگائے جا رہے ہیں۔ مزید برآں پختونوں اور بلوچوں کو شناختی کارڈز نہ بنا کر دینے کے خلاف اپوزیشن کی تمام جماعتوں نے قومی اسمبلی میں شدید احتجاج اور ہنگامے کے بعد اجلاس کی کارروائی سے واک آﺅٹ کردےا۔ اپوزےشن کی ہنگامہ آرائی کے باعث ایوان مچھلی منڈی بنا رہا جبکہ حکومتی رکن شیخ روحیل اصغر اور جے یو آئی ف کے مولانا امیر زمان میں ہاتھا پائی ہوتے ہوتے رہ گئی دونوں نے ایک دوسرے کو سنگےن نتائج کی دھمکیاں دیں ڈپٹی سپیکر نے اپوزیشن کی بات نہ سنی تو انہوں نے کورم کی نشاندہی کرکے کور م توڑ دیا جس کی وجہ سے کچھ دیر کے لئے قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی رہا۔ اےوان زےرےں کے اجلاس مےں اس وقت ہنگامہ آرائی شروع ہوئی جب پختون خواہ ملی عوامی پارٹی کے عبد القہار واردان سمیت بلوچستان اور خیبر پی کے سے تعلق رکھنے والے کئی ارکان اپنی نشستوں سے کھڑے ہوگئے اور کہا بلوچستان کے لوگوں کے شناختی کارڈ روکنے سے متعلق وزیر مملکت برائے داخلہ بلیغ الرحمن کا جواب حقائق پر مبنی نہیں، انہوں نے غلط جواب دیا ہے انہیں بات کرنے کی اجازت دی جائے مگر ڈپٹی سپیکر مرتضٰی جاوےد عباسی نے انہیں بولنے کی اجازت نہ دی جس پر اپوزیشن کے دیگر ارکان بھی اپنی نشستوں پر کھڑے ہوگئے اور کہا پختونوں اور بلوچوں کے کارڈز دانستہ طورپر روکے جا رہے ہیں، اپوزیشن کے شوروغوغے میں اےوان مےں کانوں پڑی آواز سنائی نہ دے رہی تھی ڈپٹی سپیکر نے جب انہیں بات کرنے کی اجازت نہ دی تو اپوزیشن کی تمام جماعتوں نے احتجاجاً اسمبلی سے واک آوٹ کردےا جبکہ پی ٹی آئی کی شیریں مزاری نے کورم کی نشاندہی کر دی ڈپٹی سپیکر نے گنتی کرائی تو کورم پورا نہ نکلا جس پر ڈپٹی سپیکر نے اجلاس کورم پورا ہونے تک ملتوی کر دیا اسی دوران حکومتی رکن شیخ روحیل اصغر اور جے یو آئی(ف)کے مولانا امیر زمان میں جھڑپ اور تلخ کلامی بھی ہوئی دونوں کے درمیان ہاتھا پائی ہوتے ہوتے رہ گئی اور حکومتی وزراءاور ارکان نے دونوں میں بیچ بچا کرا دیا دونوں نے ایک دوسرے کو نمٹ لینے کی دھمکیاں دیں۔ مولانا امیر زمان شیخ روحیل اصغر کی طرف بڑھے تو وفاقی وزیر زاہد حامد اور دیگر ارکان نے روک لیا۔ مولانا امیر زمان نے کہا سوال کرنا ہمارا حق ہے اس سے انہیں روکا نہیں جا سکتا یہ کسی کے باپ کی اسمبلی نہیں، اس پر شیخ روحیل اصغر نے کہا آپ اس طرح کے الفاظ استعمال نہ کریں، آپ نے جو بات کرنی ہے ڈپٹی سپیکر سے کریں، ورنہ جواب دینا میں بھی جانتا ہوں ہر چھوٹی بات پر احتجاج شرو ع کر دیتے ہیں۔ کئی سوالوں کے جواب نہ دینے پر اپوزیشن ارکان نے احتجاج بھی کیا نعیمہ کشور کی ڈپٹی سپیکر سے جھڑپ بھی ہوئی کورم کی نشاندہی پر وفاقی وزیر عبدالقادر بلوچ برہم ہوگئے اور کہا اپوزیشن جان بوجھ کر کورم کی نشاندہی کر تی ہے جو درست نہیں، شیریں مزاری نے کہا عبدالقادر بلوچ اپنے الفاظ واپس لیں، حکومت کورم پورا نہیں کرسکتی تو ایوان کی کاروائی نہیں چل سکتی، عبدالقادر بلوچ نے کہا میں اپنے الفاظ کسی صورت واپس نہیں لوں گا، پی ٹی آئی کو قومی اسمبلی میں اپنا پارلیمانی لیڈر تبدیل کر لےنا چاہیے، شاہ محمود قریشی نے کہا یہ فیصلہ ہم نے کرنا ہے وفاقی وزیر نے نہیں کرنا، حکومت کی اکثریت نہ ہونے کے باعث سینٹ صیح طریقے سے چل رہا ہے سینٹ کے درست طریقے سے چلنے کی وجہ چیئرمین سینیٹ کا جمہوری رویہ ہے، ڈپٹی سپیکر نے کہا آپ ایک چیز بتائیں جو یہاں غیر جمہوری ہو رہی ہو بعد ازاں انہوں نے شناختی کارڈ روکنے کا معاملہ متعلقہ کمیٹی کو بھجوا دیا۔ این این آئی کے مطابق پی ٹی آئی ارکان نے سپیکر پر بھی جانبداری کا الزام لگا دیا تاہم ڈپٹی سپیکر نے یہ الزام مسترد کرتے ہوئے کہا سپیکر کو محتسب مت کہا جائے اور سپیکر پر الزامات نہ لگائے جائیں میں جب بھی آ کر بیٹھتا ہوں شیریں مزاری قواعد کے خلاف بولنا شروع کردیتی ہیں ایوان کی کارروائی قانون اور قواعد کے مطابق چلائی جا سکتی ہے۔تحریک انصاف نے سعودی عرب اور ایران کے درمیان کشیدگی کے معاملے پر پاکستان کے دورے پر آئے سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر سے قومی اسمبلی کی خارجہ امور کمیٹی کو بریفنگ دینے کی درخواست کر دی۔ یہ عالمی معاملہ بن گیا ہے۔ حکومت جان بوجھ کر اس معاملے پر ایوان کو اعتماد میں نہیں لینا چاہتی۔ پاکستان بیت المال ترمیمی بل 2015ءکے حوالے سے کابینہ کمیٹی کی رپورٹ قومی اسمبلی میں پیش کر دی گئی جبکہ 19 رکنی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق بنانے سے متعلق تحریک بھی منظور کر لی گئی۔