اسلام آباد (ایجنسیاں+ نوائے وقت رپورٹ) عمران فاروق قتل کیس کے ملزموں خالد شمیم اور محسن علی نے اعتراف جرم کر لیا ہے۔ تیسرے ملزم معظم علی نے اعتراف جرم سے انکار کر دیا۔ ذرائع کے مطابق خالد شمیم نے مجسٹریٹ کیپٹن ریٹائرڈ شعیب کے سامنے اعترافی بیان دیا خالد شمیم نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ میرا ایم کیو ایم سے تعلق ہے مجھے عمران فاروق کے قتل کی ہدایات لندن سے ایم کیو ایم رہنما محمد انور نے دیں میں نے محمد انور کے کہنے پر عمران فاروق کے قتل کی ہدایات آگے دی تھی مجسٹریٹ نے ملزم خالد شمیم سے سوال کیا کہ آپ پر کوئی دباﺅ تو نہیں جس پر ملزم خالد شمیم نے جواب دیا کہ نہیں کوئی دباﺅ نہیں ہے بیان کمپیوٹر پر ٹائپ کرنے کے بجائے ہاتھ سے تحریر کیا گیا بیان مکمل ہونے کے بعد ملزم کو تمام تحریر پڑھ کر سنائی گئی اور ملزم خالد شمیم کے دستخط اور انگوٹھا لگوایا گیا۔ نجی ٹی وی کے مطابق خالد شمیم نے اعترافی بیان میں کہا کہ لندن سے اہم شخصیت نے عمران فاروق کے قتل کی منصوبہ بندی کا کہا اہم شخصیت نے ہی قتل کی منصوبہ بندی کیلئے رقم فراہم کی اہم شخصیت عمران فاروق کو راستے سے ہٹانا چاہتی تھی قتل کی منصوبہ بندی کی ذمہ داری کاشف، معظم علی اور محسن علی کو سونپی گئی کاشف نے محسن کو مہاجر سٹوڈنٹ آرگنائزیشن ونگ سے لیا گیا محمد انور سے براہ راست بات ہوتی رہی عمران فاروق ایم کیو ایم قیادت کیلئے خطرہ سمجھے جا رہے تھے قتل کی منصوبہ بندی پاکستان میں کی گئی منصوبے پر عملدرآمد کیلئے لندن سے رقم مہیا کی گئی۔ قتل کے دوسرے اہم ملزم محسن علی نے اعترافی بیان میں کہا ہے کہ قتل کی منصوبہ بندی لندن کی ایک یونیورسٹی کے ہاسٹل میں کی عمران فاروق کو 16 ستمبر 2010ءکو قتل کیا عمران فاروق کے راستوں کی نگرانی اور معمولات کو دیکھ کر منصوبہ بنایا میں نے عمران فاروق کو دبوچا کاشف خان کامران نے چھریوں کے وار کئے عمران فاروق کی موت یقینی بنانے کیلئے کاشف نے ان کے سر پر اینٹیں بھی ماریں عمران فاروق میرے ہاتھوں میں تڑپتے اور چیختے رہے ایک شخص کو قتل کرنے کیلئے لندن جانے کا حکم ملا معلوم نہیں تھا کسے قتل کرنے لندن جانا ہے قتل کے وقت عمران فاروق نے مزاحمت کی جس سے میں زخمی ہو گیا تھا معظم علی نے سہولت کارکا کردار ادا کیا۔ ملزموں کے بیان کیس کے چالان کا حصہ بنائے جائیں گے۔ بیان ریکارڈ کرنے کے موقع پر جے آئی ٹی کے ارکان بھی موجود تھے خالد شمیم نے 3 گھنٹے محسن علی نے ڈیڑھ گھنٹے میں بیان ریکارڈ کرایا۔ جبکہ تیسرے مرکزی ملزم معظم علی نے اعتراف جرم سے انکار کر دیا ہے۔ اس کا کہنا ہے وہ اس کیس میں کسی طرح بھی ملوث نہیں، اس لئے وہ اعتراف جرم نہیں کرے گا۔ واضح رہے کہ 5 دسمبر کو ایف آئی اے کے محکمہ انسداد دہشت گردی کے ڈائریکٹر انعام غنی کی مدعیت میں عمران فاروق کے قتل کا مقدمہ درج کیا گیا تھا جس میں معظم علی خان، خالد شمیم اور اور سید محسن علی کے علاوہ ایم کیو ایم قائد الطاف حسین، محمد انور اور افتخار حسین کو بھی ملزم قرار دیا گیا ہے۔ ملزموں کو بعدازاں انسداد دہشتگردی عدالت میں پیش کیا گیا عدالت ان کا 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ دیتے ہوئے اڈیالہ جیل بھیجنے کا حکم دیا ہے عدالت نے حکم دیا کہ ملزموں کو 21 جنوری کو دوبارہ پیش کیا جائے ملزموں کو رینجرز کی نگرانی میں اڈیال جیل منتقل کر دیا گیا۔ ملزموں نے اقبالی بیان پر دستخط بھی کر دیئے۔دوسری جانب ایم کیو ایم نے عمران فاروق قتل کیس کے حوالے سے ای میل میں کہا ہے کہ زیر حراست افراد کے مبینہ اعتراف کی اطلاعات سے آگاہ ہیں۔ ان افراد نے مبینہ طور پر قتل کے احکامات کیلئے ایم کیو ایم کی شخصیات کے نام لئے ہیں ایم کیو ایم کے کسی کارکن کا عمران فاروق کی موت سے تعلق نہیں۔ دوست اور ساتھی کی موت پر غمزدہ ہیں عمران فاروق کئی سال سے ہمارے دیرینہ دوست تھے۔ برطانیہ کی میٹروپولیٹن پولیس کو ہر تعاون فراہم کرنے کیلئے تیار ہیں۔
اعتراف
متحدہ سے تعلق ہے‘ محمد انور نے عمران فاروق کے قتل کی ہدایت دی : خالد شمیم‘ میں نے دبوچا کاشف نے چھری سے وار کئے : محسن علی
Jan 08, 2016