میں اس حماقت کے بارے میں کیا لکھوں

قطعی ذاتی وجوہات کی بناء پر پنچاب کے شہر لاہور کے ایک قدیمی محلے اور گلیوں میں پیدا ہوکر عمر کے آخری حصے میں پہنچ جانے کے باوجود کشمیر کی تاریخ اور ثقافت سے میرا رشتہ بہت گہرا اور تقریباََ جذباتی رہاہے ۔ صحافت نے اس تعلق کو مزید گہرابنادیا۔
1984ء میں اندراگاندھی کے قتل کے بعد عام انتخاب ہوئے تو وہاں کے انتخابی عمل کو برسرِ زمین دیکھتے ہوئے رپورٹنگ کرنے کے اسباب فراہم ہوگئے۔ ان دنوں اسلام آباد کے انگریزی روزنامہ The Muslimکا ایک جونیئررپورٹر ہوا کرتا تھا۔ جرائم، صحت اور ثقافتی سرگرمیاں میری Beatتھیں۔ میرے مدیر، مشاہد حسین سید کو مگر یقین تھا کہ میرے اندر سیاست اور خارجہ امور کو جاننے کی تڑپ دیگر شعبوں سے کہیں زیادہ پائی جاتی ہے۔
اقوام متحدہ کی ایک ذیلی تنظیم نے بچوں کی صحت کے موضوع پر جنوبی ایشیاء کے رپورٹروں کے لئے نومبر 1984ء میں ایک تربیتی ورکشاپ کے لئے The Muslimکو اپنا نمائندہ بھیجنے کی دعوت دے ڈالی۔ یہ ورکشاپ نئی دہلی کے ایک ادارے میں منعقد ہونا تھی ا ور اس میں شرکت کے لئے مشاہد صاحب نے میرا نام بھیج دیا۔
وہاں سے باقاعدہ دعوت آگئی تو اسلام آباد میں مقیم بھارتی سفیر ویزا کے اجراء میں رکاوٹیں کھڑی کرنا شروع ہوگئے۔ دعوت چونکہ اقوام متحدہ کے ایک ذیلی ادارے کی طرف سے آئی تھی اس لئے کڑی شرائط کے ساتھ بالآخر مجھے دس دن کا ویز دینے پر مجبور ہوگئے۔ دلی پہنچنے کے دوسرے روز ہی اگرچہ میں نے کلدیپ نیئر جیسے بزرگوں کی مدد سے اپنے قیام کی مدت مزید 6ہفتوں تک بڑھوالی۔
1984ء کے بعد بھارت کے محض بار ہا پھیرے لگاکر خبریں بھیجتے ہوئے بھارتی سیاست پر تبصرہ آرائی کے لئے میرا شمار بھی نام نہاد ’’سینئر تجزیہ کاروں‘‘ میں ہونے لگا اور 2005ء تک یہ سلسلہ جاری رہا۔
دس سال قبل مگر اچانک میرا پاک-بھارت تعلقات پر رپورٹنگ کرنے سے جی بالکل اُکتاگیا۔ ان دونوں ممالک کے معاملات پنجابی کے ایک محاورے کی گدھی کی مانندگھوم گھما کر ایک ہی برگد کے تلے واپس آجاتے ہیں۔ باسی کڑھی میںاکثر اُبلتے اُبال پر مجھ ایسے قنوطی بلکہ چڑ جاتے ہیں۔ فرانسیسی زبان کا ایک لفظ ہے Deja Vu۔ایک فلمی گیت اس لفظ کی تاثیر خوب بیان کرتا ہے۔ جی وہی گیت جہاں شکوہ ہے کہ ’’یہ تو وہی جگہ ہے گزرے تھے ہم جہاں سے‘‘۔
بہر حال بھارتی سیاست اور اس کی خارجہ پالیسی کے امور سے صحافیانہ تعلق کی بدولت ملے مواقع اور سہولتوں کو میں نے آج کے بھارتی قبضے میں جکڑے کشمیر کی سیاست کو سمجھنے کے لئے بھی اپنے تئیں بھرپور انداز میں استعمال کیا ہے۔ حریت پسند رہ نمائوں کے ساتھ ہی ساتھ ’’بھارت نواز‘‘ سیاسی کرداروں سے بھی طویل ملاقاتیں رہیں۔ ان میں سے چند ایک کے ساتھ تو اب تعلقات دائمی اور قطعی ذاتی نوعیت والے ہوچکے ہیں۔ انٹرنیٹ کی سہولتیں اس تعلق کو برقرار رکھنے میں سب سے اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
وادیٔ کشمیر کے موجودہ ماحول اور سوچ پر لکھنے سے لیکن میں شعوری طورپر اجتناب برتتا ہوں۔ وجوہات میرے اجتناب کی بہت ٹھوس ہیں۔ اگرچہ بشارت پیر جیسے لکھاری Curfewed Nightsجیسا کوئی ناول لکھ ڈالیں یا حیدر جیسی کوئی فلم بن جائے تو کچھ لکھنا مجبوری بن جاتا ہے۔دل میں اُبلتے خیالات کے اظہار سے مفر ناممکن سا محسوس ہوتا ہے۔
اب 2016ء کے آغاز کے ساتھ ہی پٹھان کوٹ کے بھارتی فضائی اڈے پر ہوئے حملے کے بعد ایک خاص پہلو اجاگر ہوا ہے۔ اس کے بارے میں اگر خاموش رہا تو ضمیر ملامت کرے گا۔
بھارتی میڈیا میں تواتر کے ساتھ دعویٰ کیا جارہاہے کہ پٹھان کوٹ پر حملہ کرنے والے یہ اعلان کرتے رہے کہ وہ بھارتی حکومت کی طرف سے پھانسی چڑھائے ایک کشمیری-افضل گورو-کی موت کا بدلہ لینے آئے ہیں۔
پاکستانی میڈیا میں زیادہ توجہ صرف پٹھان کوٹ پر مرکوز رہی ہے۔ بہت کم لوگوں نے اس حقیقت کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا کہ پٹھان کوٹ کے ساتھ ہی ساتھ ایک حملہ افغانستان کے شمال میں واقع ایک مشہور شہر، مزارشریف، میں قائم بھارتی قونصل خانے پر بھی ہوا تھا۔ حملہ آور قونصل خانے تک پہنچ نہ پائے تو اس کے قریب ایک دو منزلہ عمارت میں محصور ہوگئے۔اس عمارت کو کلیئر کرنے کے لئے افغان حکام کو 18گھنٹے تک آپریشن جاری رکھنا پڑا۔ مزار شریف میں درآنے والوں نے بھی اخباری اطلاعات کے مطابق دعویٰ یہ کیا کہ وہ افضل گورو کا بدلہ لینے آئے ہیں۔
اخباری اطلاعات کا بغور جائزہ لیں تو صورت کچھ یوں بنتی ہے کہ کشمیری حریت پسندوں کے کسی گروہ نے بیک وقت پنجاب میں پاک-بھارت سرحد سے صرف 25کلومیٹر دور اور وہاں سے کہیں زیادہ فاصلے پر افغانستان کے تقریباََ شمالی کونے میں موجود مزار شریف کے ایک مقام پر ’’بیک وقت‘‘ افضل گورو کی موت کا بدلہ لینے کے لئے ’’فدائی حملے‘‘ کئے۔
جذبات کی رو میں بہہ کر ہم میں سے چند افراد کشمیری حریت پسندوں کی ایسی Reachکو سراہنے پر آمادہ ہوسکتے ہیں۔
سید علی گیلانی مگر پریشان ہیں۔ کشمیر کے اس بزرگ رہ نما کی سیاسی فکر سے اختلاف کیا جاسکتا ہے۔ کئی افراد کو وہ "Fundo"بھی نظر آتے ہوں گے۔ایک بات مگر طے ہے کہ گیلانی صاحب انتہائی اولولعزمی کے ساتھ کشمیری عوام کی حق خودارادیت کے حصول ہی کے لئے نہیں بلکہ ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ کے عہد کے ساتھ کئی دہائیوں سے مسلسل جدوجہد کررہے ہیں۔ اقبال کے اس متوالے سید علی گیلانی نے اپنی غربت اور بے سروسامانی کی ماری نوجوانی کے کئی سال لاہور کی مسجد وزیر خان کے احاطے میں گزارے ہیں۔ وہ شاہ محمد غوث کے مزار کے قریب واقع عربی اور فارسی سکھانے والے ادارے کے ایک طالب علم تھے اور رات کو سونے کے لئے اس غریب الوطن کے پاس کوئی اور ٹھکانہ ہی نہیں ہواکرتا تھا۔
سید علی گیلانی جیسے بے لچک مگر جہاندیدہ سیاستدان کو پٹھان کوٹ اور مزار شریف میں ہوئے واقعات کا افضل گورو کی پھانسی سے جوڑنا بہت تنگ کررہا ہے۔ ان سے زیادہ کوئی شخص سمجھ ہی نہیں سکتا کہ مزارشریف اور پٹھان کوٹ کے درمیان ایکCommon Thread ثابت کردیا جائے تو آزادیٔ کشمیر کی تحریک کو ’’داعش‘‘ جیسا دکھاکر نام نہاد عالمی برادری کے دلوں میں کیا خدشات ابھارے جاسکتے ہیں۔
کشمیری حریت پسندی سے جڑے چند نام مگر اس پہلو کی طرف توجہ ہی نہ دے پائے۔ دیوانگی یاسادگی کے جانے کس مرحلے میں اپنا نام اور آواز پٹھان کوٹ کو مزار شریف کے ساتھ جوڑ کرافضل گورو کے نام کرنے والے دعویٰ کو Ownکرنے کے لئے پیش کردئیے۔ میں اس حماقت کے بارے میں لکھوں تو کیا لکھوں؟!

ای پیپر دی نیشن