گلگت (آن لائن) ’’چار گھنٹے کا فاصلہ طے کرنے میں 44 سال لگ گئے‘‘1971ء کی جنگ میں بچھڑے باپ بیٹا2016ء میں مل گئے، ابراہیم کو لینے ایئرپورٹ پر تقریباً50 افراد آئے ، موقع پر موجود لوگوں کی آنکھیں بھی نم ہوگئیں۔برطانوی خبررساں ادارے کے مطابق ابراہیم ثانی کافی کوششوں کے بعد تین ماہ کا ویزا لے کر والد سے ملنے پاکستان آئے ہیں،جو سفر محض چار گھنٹوں میں کیا جا سکتا تھا اسے مکمل کرنے میں شمالی علاقے لداخ کے ایک بیٹے کو 44 سال لگ گئے۔ 1971 کی جنگ نے ابراہیم ثانی کو جب وہ محض چھ سال کے تھے اپنے والد سے الگ کر دیا تھا،ان کے والد عبدالغفور پاکستانی علاقے گلگت میں مزدوری کے لیے آئے تھے کہ جنگ کی وجہ سے بنائی گئی سرحد کی وجہ سے واپس اپنے گاؤں نہ لوٹ سکے۔ان باپ بیٹے کی ملاقات چند روز قبل بالآخر سکردو کے ہوائی اڈے پر ہوئی۔اس موقع پر ہوائی اڈے پر موجود گلگت کے صحافی نے بتایا کہ چالیس پچاس لوگ ابراہیم کو لینے آئے تھے۔ ایئرپورٹ پر موجود دیگر مسافر بھی اس ملاقات کو دیکھ کر رو پڑے۔ بی بی سی اردو سے ٹیلیفون پر گلگت کے ضلع گانچھے سے بات کرتے ہوئے ابراہیم ثانی نے بتایا 1971ء کی جنگ کے بعد سے ’میں، میری بڑی بہن اور ماں سرحد پار رہ گئے۔ عبدالغفور نے بیوی کی موت کے بعد یہاں دوسری شادی کر لی اور دکانداری کر کے گزارا کیا۔ وہ ریڈیو سٹیشن میں بھی مترجم کا کام کرتے رہے ہیں۔بیٹے سے ملاقات کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ’اللہ تعالی کا شکر گزار ہوں کہ ایک جسم کے دو ٹکڑے آپس میں دوبارہ مل گئے۔ ابراہیم ثانی کافی کوششوں کے بعد تین ماہ کا ویزا لے کر پاکستان آئے ہیں۔ 80 سالہ عبدالغفور بھی ماضی کی تلخ یادوں کو کرید کر بتاتے ہیں کہ اس وقت وہ روزگار کے سلسلے میں سکردو آئے تھے لیکن پھر سنا کہ جنگ ہوگئی ہے۔’ایک دو گاؤں پر انڈیا نے قبضہ کر لیا تو میں یہاں مجبوراً پھنس گیا۔ دو ہزار میں جب اس خطے میں ٹیلیفون آیا تو اس پر بچوں سے بات ہونے لگی لیکن ملاقات آج ہو رہی ہے ۔