ہم آج تک بہادر آدمی کی صحیح تعریف اور مفہوم سے آشنائی حاصل نہیں کر سکے۔ تاریخ کے آئینے میں جھانکیں تو بے شمار ایسے افراد بھی بہادری کے تمغے سینے پر سجائے دکھائیں دیں گے جو حقیقتاً انتہائی ڈرپوک تھے۔ مثلاً پرویز مشرف کی مثال سب کے سامنے ہے کہ جب وہ اقتدار کے سنگھاسن پر پورے طمطراق سے براجمان تھے تو وہ ہر وقت یہ بات دہراتے رہتے تھے کہ میں کسی سے بھی ڈرتا ورتا نہیں ہوں مگر جب وہ نواز شریف حکومت کے زیر عتاب آئے تو وہ جس طرح ذہنی اور جسمانی طور پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئے اور مختلف بیماریوں کا بہانہ کرکے ملک سے باہر چلے گئے تو پتہ چلا کہ ہر شخص چاہے وہ ملک کی فوج کا سپہ سالار ہی کیوں نہ ہو اداراتی طور پر تو وہ اس وقت لازماً بہادر اور دلیر ہو گا جب اس کے پیچھے طاقت اور اقتدار پوری آب و تاب سے موجود ہے مگر ذاتی جگرے اور حوصلے کا مظاہرہ آزمائش کی گھڑی ہی میں پتہ چلتا ہے اسی طرح کی بہادری کا مظاہرہ ہمارے آج کے حکمران بھی کر چکے ہیں۔ کہ جب وہ مشرف کی قید میں تھے تو وہ دس سال کی سیاست بدری کے عوض ملک چھوڑ کر چلے گئے مگر ہر شخص ذوالفقار علی بھٹو نہیں ہوتا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ ان میں جاگیردارانہ انسانیت تھی مگر اقتدار سے محروم ہو کر انہوں نے بڑی دلیری اور جانبازی سے ضیاءالحق کی قید میں زندگی کے کٹھن دن گزارے اور پھانسی کے پھندے پر جھول گئے دنیا میں ایسے بہادر افراد بھی ملیں گے۔ جنہوں نے اپنی ضد، ہٹ دھرمی، غلط نظریات سوچ و فکر اور خصوصاً تکبر اور رعونت کی وجہ سے اپنے ہاتھوں سے اپنے آپ کو تباہ و برباد کیا مگر جب موت کو گلے لگانے کا وقت آیا تو تقدیر کے لکھے کا بہادری سے سامنا کیا۔ ہٹلر، صدام، قذافی جیسے سینکڑوں حکمران اس دنیا میں موجود ہوں گے جن کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے اپنے ہاتھوں سے نہ صرف اپنے آپ کو بلکہ اپنی قوم اور ملک کو بھی تباہ و برباد کر دیا جو انہیں اپنا ہیرو خیال کرتی تھی جان ایلیا نے شاہد ایسے بہادروں کے متعلق سچ ہی کہا ہو گا۔....
میں بھی بہت عجیب ہوں اتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کر لیا اور ذرا ملال بھی نہیں
تاہم سقراط سے لے کر حضرت امام حسینؓ تک ہزاروں قابل قدر ہستیاں ایسی بھی ہیں جنہوں نے سچائی اعلیٰ اخلاقی اصولوں اور انسانیت کی فلاح اور بہبود کی خاطر ظالم حکمرانوں کے سامنے کلمہ حق بلند کیا اور اعلیٰ ترین نظریات کی خاطر اپنی جان انتہائی بہادری اور دلیری سے جان آفرین کے سپرد کر دی بقول فیض....
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان توآنی جانی ہے اس جان کی کوئی بات نہیں
علاوہ ازیں کچھ جزوی بہادر ایسے بھی ہوتے ہیں جو کسی مخصوص لمحہ میں حالات و واقعات کے جبر کی وجہ سے یا سماجی اور سیاسی دباﺅ یا کسی تیسرے فریق کے اپنے اصل حریف کو سبق سکھانے کیلئے ایسے افراد کو بہادری اور دلیری کا لبادہ اوڑھنا پڑھ جاتا ہے وہ ہمیشہ اپنے سر پرستوں کی موجودگی میں بہادر اور دلیر بنتے ہیں مگر جب ان کے آقا اور حربی ان کے سروں سے سایہ شفقت اٹھا لیتے ہیں تو سب وہ شیر کی کھال اوڑھ کر بار بار دنیا کو بتاتے ہیں کہ ہم باغی ہیں ہم واقعتاً بہادر ہیں۔ ہماری زندگیوں میں عظمت کی ایک ہی رات آئی ہے مگر اب ہمیں ساری زندگی قوم اور عوام اس کا خراج ادا کرتی چلے جائے۔ الطاف حسین، آصف زرداری، جاوید ہاشمی، یوسف رضا گیلانی اور جسٹس (ر) چودھری افتخار اس کی کلاسیکل مثالیں ہیں الطاف حسین صاحب کو ضیاالحق کی سٹیبلشمنٹ نے کراچی میں مذہبی جماعتوں کا سیاسی اثرورسوخ کم کرنے کیلئے مہاجر کارڈ کھیلنے کے لئے آگے کیا۔ مگر جب مہاجروں نے انہیں اپنا سچا رہنما اور آقا تسلیم کیا تو وہ انہی کے قتل عام پر اپنی دہشت کا قلعہ تعمیر کرنے لگ گیا مگر جب سٹیبلشمنٹ نے اپنا ہاتھ اس کے سر پر سے اٹھا لیا تو پھر وہ بہادر آدمی دبک کر تین دہائیوں سے لندن میں جا کر بیٹھ گیا اور مکروفریب کے لبادے میں بہادری کے مظاہرے کرتا گیا اور آج وہ مکافات عمل کا شکار ہو کر راندہ درگاہ ہو چکا ہے۔ آصف علی زرداری جنہیں ہمارے مرشد محترم مجید نظامی نے ”مرد حر“ کے خطاب سے نوازا مگر وہ اس خطاب کی لاج نہ رکھ سکے اور ذاتی صنفت کی سیاست میں اس طرح غرق ہوئے کہ جب چاہتے ہیں اینٹ سے اینٹ بجانے کی بھڑک لگاتے ہیں اور پھر چپکے سے فرار ہو جاتے ہیں اور دوبارہ واپسی پر ریاستی اداروںکے لئے رطللب اللسان ہو جاتے ہیں۔ افتخار چودھری بھی ریاستی اداروں کے بزرجمہروں کے اختلافات کی وجہ سے صدر مشرف کے سامنے بے خیالی میں انکار کا حرف بلند کرکے بہادری کے منصب پر جا فائز ہوئے۔ آ وہ بلٹ پروف کار کے بغیر گھر سے باہر نہیں نکلتے ہیں اور ان کی ساری دلیری اور بہادری کا محور ان کا اپنا بیٹا ڈاکٹر ارسلان نکلا۔ اسی طرح کے بہادر آدمی کی بہادری کا سارا کچھا چٹھا برادر بزرگ ڈاکٹر حسین احمد پراچہ نے کھول کر رکھ دیا ہے۔ انہوں نے واضح کہا کہ بہادر آدمی کو برف کی سلوں پر لٹانے کی کہانیاں سبھی افسانے تھے۔ کاش وہ یہ بھی بتا دیتے کہ بہادر آدمی نے گورنر ہاﺅس سے سمن آباد کی جن دو لڑکیوں کو برآمد کروانے کا دعوی کیا تھا وہ بھی سارا ڈرامہ ہی تھا۔ اگر آج بنگلہ دیش نامنظور تحریک میں بہادر آدمی کے کردار کی بات کریں تو یہ سب کچھ دائیں بازو کے دانشور صحافیوں کی بھٹو کے ساتھ ذاتی اور نظریاتی چپقلش کا شاخسانہ تھا کہ انتہائی قابل صد احترام تاریخ ساز صحافتی شخصیات مجیب الرحمان شامی اور الطاف حسین قریشی کی وجہ سے بہادر آدمی کا سلطان راہی جیسا ہیرو والا کریکٹر سیاست میں متعارف ہو گیا۔ اگر بہادر آدمی بہادر تھا تو وہ مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی کے خلاف البدر، الشمس کے مجاہدوں کے ساتھ شانہ بشانہ جہاد کرتا جب بنگلہ دیش بن گیا اور اسلامی سربراہی کانفرنس میں شیخ مجیب الرحمان دوسرے ملک کے سربراہ کے طور پر اس می شرکت کے لئے پاکستان آئے تو اس کے خلاف نعرہ بازی کے سوائے سستی شہرت کے کیا ہو سکتی ہے؟ کاش وہ جب وزیراعظم نوازشریف کی کابینہ کے وزیر تھے تو کشمیر بنے گا پاکستان اور الحاق پاکستان کے نعرے بھارتی وزیراعظم واجپائی کے سامنے بھی بلند کر دیئے تو شاید ان کی بہادری کے تاثر کو متاثر ہونے سے بچایا جا سکتا تھا جس طرح 1971 کے الیکشن میں بھٹو صاحب کے متعلق کہا جاتا تھا کہ اگر وہ بجلی کے کھمبے کو بھی ٹکٹ دیں گے تو وہ الیکشن جیت جائے گا۔ اسی طرح بہادر آدمی کے دور طالب علمی میں ہر باخبر شخص کو معلوم ہے کہ پنجاب یونیورسٹی میں حتی کہ کراچی یونیورسٹی میں بھی اسلامی جمعیت طلبا کے نامزد کردہ عہدیداران ہر حال میں جیتے تھے بہادر آدمی کے ممدوحین کو معلوم ہونا چاہئے کہ عمران خاں میں لاکھ خامیاں ہوں ان کا موازنہ جاوید ہاشمی اور خواجہ سعد رفیق جیسے بہادر آدمیوں سے کرنا درست نہیں ہو گا۔ ہاں کہا جا سکتا ہے کہ اگر یہ کم از کم اپنے محلے میں شوکت خانم کے مقابل ایک ایک ڈسپنسری ہی بنوا دیں یا ان کو کسی دوسرے ملک میں کوئی پہچانتا بھی ہو تو تب وہ عمران کے مقابل آئیں۔