اسلام آباد (جاوید صدیق) پاکستان میں ایران کے سفیر مہدی ہنر دوست نے کہا ہے 2017 ء میں اسلامی ملکوں کو درپیش مسائل کی کیا وجوہ ہیں ان کے بارے میں تمام مسلمان ممالک کی لیڈرشپ کو مل کر سوچنا ہو گا۔ ایرانی سفیر نے کہا ان کے خیال میں 2017 ء اسلامی ملکوں کا سب سے بڑا مسئلہ اسلامی ملکوں کے درمیان بڑھتے ہوئے اختلافات ہیں۔ وقت نیوز کے پروگرام ایمبیسی روڈ میں انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے اس سوال پر کہ اسلامی ممالک کے مسائل داخلی نوعیت میں ہیں ان کی وجہ خارجیہ مداخلت ہے تو ایرانی سفیر نے کہا کہ مسلمان ملکوں کے مسائل کی داخلی اور خارجی دونوں وجوہ ہیں۔ ایرانی سفیر نے کہا کہ اس کی کیا وجہ ہے کہ اسلامی دنیا کے لوگ پریشانیوں اور المیوں کا شکار ہیں۔ جیسا کہ باقی ملک امن اور خوشحالی کی زندگی گزار رہے ہیں اور مسلمان ملکوں پر ہنس رہے ہیں۔ انہوں نے کہا 2017 ء میں صبح سے شام تک اسلامی دنیا کے بارے میں بری خبریں ہی آتی رہی ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا حالیہ فیصلہ جس میں انہوں نے مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دیا ہے۔ اس بارے میں سوچا جانا چاہئے کہ امریکی صدر نے یہ فیصلہ اس وقت کیوں کیا اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اسلامی ملکوں کے باہمی تعلقات کشیدہ ہیں۔ ایران نے ہمیشہ تمام اسلامی ملکوں کے مسائل کے حل کیلئے بات چیت کی پیشکش کی ہے لیکن اس کا مثبت جواب نہیں دیا۔ اس سوال پر اسلامی ملکوں میں اتحاد کی خواہش کے باوجود اتحاد قائم نہیں ہو سکا۔ تو ایرانی سفیر نے کہا کہ امریکہ اسلامی ملکوں میں ایرانی فوبیا پیدا کر رہا ہے اور تعلقات کو بہتر نہیں ہونے دیتا۔ ایران کی خواہش ہے کہ تمام مسلمان ممالک ایک ہوں اور اﷲ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں۔ لیکن امریکہ امن قائم نہیں ہونے دیتاوہ اسلامی ملکوں کو اسلحہ فروخت کر کے انہیں ایک دوسرے کے خلاف اکساتا ہے۔ پاکستان میں فلسطین کے سفیر ولید ابو علی نے (جو ان دنوں فلسطین میں ہیں) وطن واپس جانے سے پہلے 2017 ء کے بارے میں اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا 2017 ء اسلامی ملکوں کے لئے دکھ اور درد کا سال تھا۔ کئی اسلامی ملکوں جس میں شام‘ عراق‘ افغانستان یمن شامل ہیں حالات خراب رہے۔ خون خرابہ جاری رہا۔ 2017 ء میں امریکی صدر نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا غیرمنصفانہ فیصلہ کیا۔ فلسطینی سفیر نے کہا امریکی صدر کے اس فیصلے کی بڑی وجہ یہ تھی اسلامی ممالک داخلی مسائل اور چیلنجوں کا شکار تھے۔ امریکہ نے 2017 ء کو مناسب وقت تصور کر کے یہ فیصلہ کیا۔ فلسطینی سفیر سے پوچھا گیا 2018 ء کو وہ اسلامی دنیا کے لئے کیسا سال دیکھ رہے ہیں تو انہوں نے توقع ظاہر کی مسلمان ملک 2018 ء میں اپنے اختلافات ختم کرنے کی کوشش کریں گے اور مسلمانوں کو درپیش مسائل کے حل کے لئے مشترکہ لائحہ عمل اختیار کریں گے۔