ثناءاللہ زہری کا رابطہ‘ عدم اعتماد سازش ‘ سینٹ الیکشن رکوانے کے لئے سب کیا جا رہا ہے: نوازشریف

کوئٹہ +لاہور (بیورو رپورٹ+ خبرنگار+ ایجنسیاں) بلوچستان اسمبلی کا اہم اجلاس کل سپیکر راحیلہ حمید خان درانی کی صدارت میں سہ پہر چار بجے ہوگا جس میں وزیراعلی بلوچستان نواب ثناءاللہ خان زہری کیخلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی جائے گی۔ اسمبلی اجلاس کے لئے سیکورٹی سمیت دیگر امورکے خصوصی انتظامات کئے گئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق اجلاس میں کسی بھی مسلح یا غےر متعلقہ افراد کو اسمبلی کے احاطے میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ بلوچستان میں سیاسی بحران شدت اختیار کر گیا ہے اور صوبے کی سیاست میں یہ سوال گردش کر رہا ہے کہ وزیراعلی ثناءاللہ زہری اپنی کرسی بچا پائیں گے یا نہیں۔ اس سلسلے میں مسلم لیگ (ن) کے سربراہ اور سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے بلوچستان کے وزیراعلی ثناءاللہ زہری کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام بنانے کےلئے وزیراعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی، پارٹی کے سینئر ساتھیوں خصوصاً بلوچستان میں سیاسی اثر و رسوخ رکھنے والے مسلم لیگیوں کو اپنا کردار ادا کرنے کی ہدایات جاری کر دیں۔ باخبر ذرائع کے مطابق میاں نواز شریف نے ہدایات جاری کی ہیں کہ تحریک عدم اعتماد ناکام بنانے کےلئے بھرپور کوشش کی جائے۔ ان ذرائع کے مطابق نواز شریف کا کہنا ہے کہ تحریک عدم اعتماد ثناءاللہ زہری کے خلاف سازش نہیں بلکہ یہ سازش درحقیقت جمہوریت کے خلاف ہے۔ یہ سازش جمہوریت ناکام بنانے کیلئے دیوار میں سے پہلی اینٹ نکالنے کے مترادف ہے۔ اس سلسلے میں وزیراعلیٰ بلوچستان ثناءاللہ زہری نے سابق وزیراعظم نواز شریف سے ٹیلی فونک رابطہ کیا اور انہیں بلوچستان کی موجودہ سیاسی صورتحال کے حوالے سے آگاہ کیا۔ ذرائع کے مطابق ثناءاللہ زہری نے تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانے کے لئے نوازشریف سے مدد طلب کی ہے۔ نواز شریف نے وزیراعلیٰ بلوچستان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کو جمہوری نظام کے خلاف سازش قرار دیا اور کہا کہ یہ سب کچھ سینٹ کے الیکشن کو رکوانے کے لئے کیا جارہا ہے۔ نواز شریف نے اس عزم کا اظہار کیا کہ کسی بھی غیر جمہوری رویئے کو قبول نہیں کیا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق ثناءاللہ زہری نے نواز شریف سے کہا ہے کہ تحریک عدم اعتماد کا معاملہ حل ہونا چاہئے، تحریک عدم اعتماد سے آئندہ الیکشن میں نقصان ہوسکتا ہے۔ دوسری جانب وزیراعلیٰ نواب ثناءاللہ زہری سے رہنما مسلم لیگ ن یعقوب ناصر نے ملاقات کی ہے۔ ملاقات میں ملکی سیاسی صورتحال، تحریک عدم اعتماد اور دیگر امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ سردار یعقوب کا کہنا تھا کہ چند مفاد پرستوں کے پارٹی سے بغاوت کا کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ مسلم لیگ ن کے اکثریتی ارکان اسمبلی وزیراعلیٰ کے ساتھ ہیں۔ نواز شریف نے وزیراعلی کو کہا کہ میں نے وزیراعظم شاہد خاقان کو ہدایت کردی ہے وہ اس معاملے کو دیکھ رہے ہیں۔ بلوچستان میں یہ سب سینٹ الیکشن رکوانے کے لئے کیا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے بعض قوتیں سازشوں میں مصروف ہیں۔ بلوچستان میں سیاسی عدم استحکام جمہوریت کے خلاف سازش ہے۔ کسی غیر جمہوری رویے کو قبول نہیں کریں گے۔ عوامی مینڈیٹ ہماری اولین ترجیح ہے۔ وزیراعلی بلوچستان سے نیشنل پارٹی کے صوبائی وزرا سردار اسلم بزنجو، نواب محمد خان شاہوانی، رحمت صالح بلوچ اور رکن صوبائی اسمبلی یاسمین لہڑی نے بھی ملاقات کی جبکہ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے رہنما و صوبائی وزیر نواب ایاز خان جوگیزئی بھی وزیراعلی سے ملے۔ اس موقع پر اس بات کا اعادہ کیاگیا کہ کسی غیر جمہوری عمل کا حصہ نہیں بنیں گے اور نہ ہی ذاتی مفاد کو جمہوری عمل پر ترجیح دیں گے۔ بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن وجمعیت علماءاسلام کے پارلیمانی لیڈر مولانا عبدالواسع نے کہا جمعیت علماءاسلام کا تحریک عدم اعتماد کی حمایت کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے۔ تحریک عدم اعتماد سے جمہوریت کو کوئی نقصان نہیں ہو گا۔ تحریک عدم اعتماد ایک جمہوری اور قومی حق ہے اور جمعیت علماءاسلام جمہوریت کے خلاف نہیں ہے۔ جمہوریت کا تقاضا ہے کہ حکومت جو غلط کام کرے اپوزیشن ان کو روکنے کے لئے اقدامات اٹھائے موجودہ حکومت انتہائی کرپٹ ہے۔ تحریک عدم اعتماد ثناءاللہ زہری کی شخصیت نہیں بلکہ حکومت کے خلاف ہے۔ قوم پرستوں نے اقتدار میں آکر صوبے کو کھنڈرات میں تبدیل کر دیا اور متعصبانہ رویہ اختیار کر کے اپوزیشن کو انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنایا اصل میں تحریک عدم اعتماد حاصل بزنجو اور پشتونخوامیپ کے خلاف ہے۔ پشتونخواملی عوامی پارٹی کے چےئرمےن محمود خان اچکزئی نے کہا ہے کہ اس وقت ہماری سرزمےن خون آلود ہے، ملک مےں جمہورےت، وفاقی پارلےمانی جمہوری نظام کے بغےر کوئی چارہ کار نہےں، وزےر اعلیٰ کےخلاف عدم اعتماد کی تحرےک کو جمہوری انداز مےں ناکام بناےا جائےگا، نواز شرےف اور ثناءاللہ زہری کے ساتھ ہےں۔ ان خےالات کا اظہار انہوں نے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کےا۔ علاوہ ازیں بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن جماعتوں کے ارکان کو صالح بھوتانی نے عشائیہ دیا جس میں اختر مینگل سمیت 23 باغی ارکان نے شرکت کی۔ 2 خواتین ارکان کے شوہروں نے ان کی نمائندگی کی۔ اس موقع پر اپوزیشن ارکان کا اجلاس بھی ہوا جس میں ثناءاللہ زہری کیخلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب کرانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اجلاس میں جے یو آئی (ف)، اے این پی اور بی این پی (مینگل) سمیت 23 باغی ارکان اسمبلی نے شرکت کی۔ اجلاس میں اے این پی کی نمائندگی نوابزادہ لشکری رئیسانی نے کی۔ جبکہ حکومت بچانے کیلئے وفاقی وزراءبھی بلوچستان پہنچ گئے ہیں۔ وفاقی وزیر دفاع خرم دستگیر نے گزشتہ روز وزیراعلی بلوچستان ثناءاللہ زہری سے ملاقات کی۔ اس موقع پر وزیر سیفران عبدالقادر بلوچ اور صوبائی مشیر عبیداللہ بھی موجود تھے۔ خرم دستگیر نے وفاقی حکومت اور ن لیگ کی جانب سے وزیراعلی کو مکمل حمایت کا یقین دلایا۔ چیئرمین پشتونخواہ میپ محمود خان اچکزئی نے وزیراعلی بلوچستان ثناءاللہ زہری سے ملاقات کی۔ بلوچستان کی مجموعی سیاسی صورتحال اور تحریک عدم اعتماد پر بات چیت کی گئی۔ دوسری طرف جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے وزیراعظم سے وزیراعلیٰ بلوچستان کا عہدہ مانگ لیا۔ مولانا فضل الرحمن نے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سے اپنی حالیہ ملاقات میں تجویز دی ہے کہ وزیراعلیٰ بلوچستان کا عہدہ ان کی پارٹی کو دیا جانا چاہیے۔ بلوچستان میں ہونیوالی پیش رفت سے متعلق ذرائع کے حوالے سے نجی ٹی وی نے دعویٰ کیا ہے کہ مولانا فضل الرحمن نے وزیراعظم عباسی کو یقین دہانی کرائی ہے بلوچستان اسمبلی برقرار رہے گی اور مسلم لیگ (ن) کو سینٹ کے آئندہ الیکشن میں بلوچستان سے نشستوں کا اس کا حصہ دیا جائے گا۔ واضح رہے کہ وزیراعلیٰ میر ثناءاللہ زہری کیخلاف تحریک عدم اعتماد کے ساتھ ہی بلوچستان کی سیاست میں اچانک گرما گرمی آئی ہے۔ مولانا فضل الرحمان نے شاہد خاقان عباسی کو بلوچستان میں اپنی صفیں درست کرنے کا مشورہ دے دیا، کہتے ہیں مسلم لیگ نون نے بلوچستان میں ہمیں خود اپوزیشن میں دھکیلا، ساڑھے 4 سال تک نون لیگ کو جے یو آئی یاد نہیں۔ دوسری جانب، وزیر اعلیٰ بلوچستان کے ترجمان جان اچکزئی نے کہا ہے کہ نون لیگ کی قیادت پر منظم طریقے سے حملہ کیا گیا، لیگی ارکان کی جانب سے تحریک عدم اعتماد کی حمایت غیرآئینی اقدام ہو گا۔ سابق ڈپٹی سپیکر قدوس بزنجو کی تحریک عدم اعتماد پر مسلم لیگ ق سمیت 14 اراکین اسمبلی کے دستخط ہیں جبکہ وزیر اعلیٰ بلوچستان کے معاون خصوصی پرنس احمد علی سمیت متعدد ارکان ثناءاللہ زہری کا ساتھ چھوڑ چکے ہیں۔ ڈپٹی چیئرمین سینٹ عبدالغفور حیدری کی کوئٹہ آمد آج متوقع ہے۔ ذرائع کے مطابق وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناءاللہ زہری کے خلاف تحریک عدم اعتماد کل اسمبلی اجلاس میں پیش کی جائے گی جبکہ رائے شماری 13 جنوری کو ہو گی۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ نواب ثناءاللہ زہری نے حکومت بچانے کے لئے جے یو آئی کو وزارتوں کی پیشکش کی ہے تاہم حکومتی اتحادی اس سے انکاری ہیں۔ ثناءاللہ زہری کے مخالفین کہتے ہیں کہ اب بلوچستان سے بھی ”کیوں نکال“ا کی آوازیں آئیں گی۔ ذرائع کے مطابق باغیوں کو تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لئے مزید5 ارکان کی حمایت کی ضرورت ہے۔ وزیر داخلہ احسن اقبال نے کہا ہے کہ چند مقتدر قوتیں سینٹ الیکشن سے پہلے اس سسٹم کو لپیٹنا چاہتی ہیں اور اس وقت ملک میں تصادم اور محاذ آرائی کی کوششوں کے واضح اشارے مل رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ہمیں تصادم اور دھرنے نہیں دینے چاہئے بلکہ آپس میں اتحاد کا مظاہرہ کرنا ہوگاکیونکہ بدقسمتی سے اس وقت ملک کو اندرونی سمیت بیرونی چینلجز کا سامنا ہے اور ہم داخلی معاملات میں غلط سمت میں جا رہے ہیں گزشتہ روز میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ملک کی داخلی صورتحال کو دیکھتے ہوئے میں خطرہ محسوس کر رہا ہوں انہوں نے کہا کہ میں پیر حمید سیالوی اور پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ دونوں اپنے فیصلوں پر نظر ثانی کریں کیونکہ یہ وقت دھرنوں کا نہیں ہے بلکہ اس وقت ہمیں عالمی دنیا کو پیغام دینا چاہئے کہ ہم سب ایک ہیں۔ وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے سربراہ اختر جان مینگل سے ٹیلیفونک رابطہ کیا اور وزیراعلیٰ بلوچستان کے خلاف عدم اعتماد تحریک کے حوالے سے تعاون کی درخواست کی۔ مزید برآں وزیر دفاع خرم دستگیر نے کہا ہے کہ وزیراعلی کو بچانے نہیں آیا ہم جمہوری بندوبست بچارہے ہیں ملک میں جمہوریت قائم رہے گی۔ یہ بات انہوں اتوار کو مسلم لیگ (ن) کے سینئر نائب صدر سینیٹر سردار یعقوب خان ناصر کی رہائش گاہ پر انکی ہمشیرہ اور وزیراعلی کے مشیر برائے انڈسٹریز سردار در محمد خان ناصر کی والدہ کی وفات پر فاتحہ خوانی کے بعد صحافیوں سے غیر رسمی بات چیت کرتے ہوئے کہی۔ دریں اثنا ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ ق لیگ کے صوبائی وزیر ریونیو و ٹرانسپورٹ جعفر مندوخیل نے بھی وزارت سے استعفیٰ دے دیا اور اس حوالے سے سپیکر بلوچستان اسمبلی کو آگاہ کر دیا گیا ہے۔ ناراض ارکان نے دعویٰ کیا ہے کہ ابھی مزیداستعفےٰ آئیں گے جبکہ شاہد خاقان عباسی نے بھی وزیراعلی بلوچستان ثناءاللہ زہری کو ٹیلی فون کیا ہے اور انہیں مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔ جمعیت علماءاسلام کے صوبائی ترجمان سید جانان آغانے کہا ہے کہ تحریک عدم اتحادکے حوالے سے میڈیا ذمہ داری کا احساس کرے، وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے مولانا فضل الرحمن سے ملاقات کی اور ان سے تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانے کیلئے مدد کی اپیل کی جس پر قائد جمعیت نے انہیں اصولی موقف سے آگاہ کیا لیکن مولانا فضل الرحمن نے وزیراعظم سے بلوچستان کی وزارت اعلیٰ کا مطالبہ نہیں کیا اس حوالے سے خبریں بے بنیاد ہیں۔وزیراعظم شاہد خاقان نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) جموریت اور جمہوری تسلسل پر یقین رکھتی ہے۔ حکومت غیر جمہوری قوتوں کی سازشوں کا مقابلہ کر رہی ہے۔ بلوچستان میں بھی جمہوریت مخالف سازش کو ناکامی کا سامنا ہوگا۔ وزیراعلیٰ بلوچستان نے صوبے کی تازہ ترین صورتحال سے وزیراعظم کو آگاہ کیا۔ترجمان وزیراعلیٰ بلوچستان نے کہا ہے کہ ثناءاللہ زہری کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے والوں کے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے مخالفین کا دعویٰ ہے کہ ان کے پاس 40 اراکین اسمبلی موجود ہیں لیکن 20 اراکین کو بھی ساتھ نہ ملا سکے عدم اعتماد کی تحریک بری طرح ناکام ہوگی۔

ای پیپر دی نیشن