حضرت خباب بن الارت رضی اللہ عنہ (۶)

امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی مسند میں حضرت خباب رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے حضرت عبداللہ کے ساتھ پیش آنے والا دلخراش واقعہ اورآپ کی روایت کردہ ایک حدیث مبارکہ نقل فرمائی ہے۔ ایوب بن حمید روایت کرتے ہیں کہ قبیلہ عبدالقیس کا ایک شخص پہلے خوارج کے ساتھ تھا، پھر تائب ہوکر ان سے جداہوگیا ۔ اس کا بیان ہے کہ خارجیوں کا ایک گروہ ایک بستی میں داخل ہوا، حضرت عبداللہ ان کی اس اچانک یلغار سے گھبرا کر اپنی چادر گھسٹتے ہوئے گھر سے باہر نکل آئے، خوارج نے ان سے کہا ،آپ مت گھبرائیے ، انہوںنے فرمایا : بخدا ! تم نے تو مجھے ڈرا ہی دیا، خوارج نے پوچھا کہ آپ صحابی رسول حضرت خباب رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے عبداللہ ہیں ، انہوںنے کہا : ہاں ! خوارج نے کہا : آپ اپنے والد کی روایت کردہ کوئی حدیث ہمیں سناسکتے ہیں، انہوںنے فرمایا ہاں میںنے اپنے والد محترم سے یہ حدیث پاک سنی ہے کہ حضور مخبرصادق صلی اللہ علیہ وسلم نے فتنوں کے دور کا تذکرہ کرتے ہوئے ارشادفرمایا کہ’’ اس زمانے میں بیٹھنے والا کھڑے ہونے والے سے، کھڑا ہونے والا چلنے والے سے ، اورچلنے والا دوڑنے والے سے بہتر ہوگا، اگر تم اس زمانے کو پائو، تو اللہ کا ’’مقتول بندہ ‘‘بن جانا، اللہ کا قاتل بندہ نہ بننا، خوارج نے پوچھا کیا آپ نے واقعی اپنے والد سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہی حدیث سنی ہے۔ انہوںنے فرمایا : بے شک !(لیکن اس حدیث سے ہدایت پانے کی بجائے) وہ آپ کو پکڑ کر نہر کے کنارے لے گئے اوروہاں لے جاکر آپ کو شہید کردیا، ان کا خون اس طرح بہہ رہا تھا ، جیسے جوتے کا وہ تسمہ جو اس سے جدا نہ ہوا ہو، پھر انہوںنے آپ کی حاملہ کنیز کا پیٹ چاک کرکے اس کے بچے کو نکالا اوراسے بھی ذبح کرڈالا‘‘۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ اوردوسرے تمام صحابہ کرام حضرت خباب رضی اللہ عنہ کی بے حد تعظیم وتکریم کیا کرتے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں آپ ان سے ملنے کے لیے تشریف لے جاتے تو وہ آپ کو اپنی جائے نشست پر اپنے ساتھ بٹھایا کرتے ۔ ایک بار حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انھیں اپنے ساتھ سوار کیا اورلوگوں سے مخاطب ہوکر فرمایا : خباب کے علاوہ صرف ایک شخص اورہے جو ان کے ساتھ ہم رکاب ہوسکتا ہے۔ حضرت خباب نے پوچھا : امیر المومنین وہ کون ہے؟ آپ نے فرمایا : بلال بن رباح (رضی اللہ عنہ) انہوںنے عرض کی ، امیر المومنین (اس معاملے میں)بلال کا استحقاق میرے برابر کیوں ہوسکتا ہے۔ مشرکین میں ان کے بہت سے مددگار بھی تھے ۔ جن کے ذریعے سے اللہ انھیں بچالیتا تھا، لیکن میرا تو کوئی بھی پرسان حال نہ تھا، پھر انہوںنے اپنے مصائب کی دلدوز تفصیل بیان کی تو تمام حاضرین پر گریہ طاری ہوگیا۔

ای پیپر دی نیشن