حکومت ملاوٹ کے خاتمہ کے متحرک ، خالص اشیاء ناپید

اشیائے خور دو نوش میں ملاوٹ اس حد تک مسئلہ بن چکی ہے کہ کوئی یہ بات پوری گارنٹی کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کہ وہ بازاروں اور مارکیٹوں میںجو کچھ خوراک کے نام پر خرید کر کھا رہا ہے وہ کس حد تک خالص ہے۔آٹھ بازاروں کے شہر فیصل آباد میں بھی اشیائے خور دنی میں ملاوٹ ہمیشہ سے موجود رہی ہے اور شہر میں قائم کھانے پینے کی اشیاء تیار کرنے والے کارخانوں کو ان اشیاء کی تیاری کرتے دیکھ لیا جائے تو انسان بہت سی مرغوب اشیاء کو کھانے سے توبہ کر لے۔ گزشتہ ماہ چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے اپنے کراچی کے ایک دورہ کے دوران پینے کے پانی میں شامل گٹروں کے گندے پانی کی ملاوٹ کا نوٹس لیتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کو اپنی عدالت میں بلایا اور شہر یوں کی طرف سے انہیں پانی کے جو نمونے فراہم کئے گئے تھے ان میں سے کسی ایک سیمپل کے پانی کے حوالے سے انہیں کہا کہ کراچی جیسے شہر میں شہریوں کو فراہم ہونے والا پانی کسی قسم کی فلٹریشن کے بغیر سپلائی کرنے کا مطلب یہ ہے کہ حکومت خود اپنے شہریوں کو موذی امراض میں مبتلا کر کے موت فراہم کر رہی ہے۔ انہوں نے وزیراعلیٰ سندھ سے استفسار کیا کہ کیا وہ شہریوں کو سپلائی ہونے والا پانی اپنے حلق سے اتار سکتے ہیں اور ان کی طرف سے خاموشی کو دیکھ کر چیف جسٹس نے انہیں پیش کش کی کہ آئو ہم دونوں ایک ایک بوتل پانی اپنے اپنے حلقوں میں اتار کر اندازہ لگانے کی کوشش کریں کہ ہمارے عوام پانی کے نام پرکس قدر زہر آلود شے استعمال کر رہے ہیں‘ وزیراعلیٰ سندھ نے اپنے دفاع میں چیف جسٹس پاکستان کی توجہ پنجاب میں استعمال ہونے والے پانی کی طرف بھی مبذول کرائی اور چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے لاہور میں سپریم کورٹ کی رجسٹری میں کسی مقدمے کی سماعت کے دوران پنجاب میں سرکاری طور پر سپلائی ہونے والے پانی کے نمونے منگوا لئے اور پنجاب کے حکمرانوں کی بھی اس سلسلہ میں اچھی خاصی سرزنش کی اور ساتھ صوبے میں اشیائے خوردنی میں ہونے والی ملاوٹ کا نوٹس لیتے ہوئے چیف سیکرٹری پنجاب کو حکم دیا کہ وہ صوبے میں تیار ہونے اور فروخت ہونے والی اشیائے خوردنی میں ملاوٹ کا جائزہ لینا چاہتے ہیں اور وہ چاہتے ہیںکہ چیف سیکرٹری ان کے ساتھ ساتھ رہیں تاکہ انہیں معلوم ہو جائے کہ ہم اپنے عوام کو اشیائے خوردنی کے نام پر کس کس طرح کا زہر بانٹ رہے ہیں۔انہوں نے دودھ میں مختلف اشیاء کی ملاوٹ کا بطور خاص ذکر کیا اور کہا کہ ہمارے بچوں کو دودھ کے نام پر زیادہ تر ایسے ایسے کیمیکلز کھلائے اور پلائے جا رہے ہیں کہ ان کی صحتوں کا معیار متاثر ہو رہا ہے اور انہیں زندگی بھر کے روگ لگ رہے ہیں۔ چونکہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے اشیائے خوردنی کے حوالہ سے حکومت کو اقدامات لینے کا حکم دیا ہوا ہے لہٰذا پنجاب کے وزیر خوراک ان دنوں صوبے کے مختلف شہروں میں ہونے والی ملاوٹ کو روکنے کیلئے خاصے متحرک ہیں‘ انہوں نے گزشتہ دنوں فیصل آباد میں پنجاب فوڈ اتھارٹی کی ٹیم کے ہمراہ متعدد فوڈ فیکٹریوں اور کارخانوں پر چاپے مارے اور ان چھاپوں کے دوران مرچ بنانے والے کارخانوں‘ سبزیاں پیدا کرنے والے کھیتوں‘ ناقص میٹریل سے ڈبل روٹی بنانے والی فیکٹریوں کو سیل کر کے چیف جسٹس پاکستان کی طرف سے اشیائے خوردنی میں شامل کی جانے والی بیماریوں کے خدشے کا خاتمہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ وزیر خوراک بلال یاسین نے عبداﷲ پور میں واقع بریڈ فیکٹری کے معائنہ کے دوران نوٹس لیا کہ کارخانے کا ماحول انتہائی بدبودار تھا اور اسی ماحول میں ڈبل روٹی تیار کی جا رہی تھی‘ انہوں نے اس کی وجہ جاننے کی کوشش کی تو کارخانہ مضرصحت مواد کو ’’مکھن‘‘ کے طور پر استعمال کر رہا تھا جبکہ فرش گندہ اور چکناہٹ سے لبریز تھا۔ صوبائی وزیر نے نوٹ کیا کہ کارخانے کے ملازمین کا کوئی میڈیکل ٹیسٹ نہیں کروایا گیا تھا کہ آیا وہ کسی مضر بیماری میں تو مبتلا نہیں ہیں اور فیکٹری میں کیڑے مکوڑے تلف کرنے کا بھی کوئی انتظام نہیں تھا‘ کھانے پینے کی اشیاء کی تیاری میں اس قدر لا پرواہی یقینا نا قابل برداشت تھی‘ صوبائی وزیر نے فوڈ اتھارٹی کو ہدایت کی کہ وہ اس فیکٹری میں موجود خام مواد اور 1353کلو تیار ڈبل روٹی قبضہ میں لے۔ بعدازاں انہوں نے زہر آلود پانی اور صنعتی فضلے میں زیر کاشت سبزیوں کو تلف کرایا اور ڈائریکٹر فوڈ اتھارٹی کو ہدایت کی کہ وہ شہر کے ارد گرد کے علاقوں میں زیر کاشت رقبہ جات کا باقاعدہ معائنہ کرتے رہیںاور آلودہ پانی سے اگائی جانے والی سبزیوں کو موقع پر ہی تلف کراتے رہیں‘ چیف جسٹس پاکستان نے دودھ کے ڈبوں میں کینسر کی وجہ بننے والے کیمیکلز کے ذریعے گھر گھر بانٹی جانے والی اموات کا بھی نوٹس لیاتھا‘ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے بین الصوبائی رابطہ امور نے بھی دودھ کی پیداوار بڑھانے کیلئے بھینسوں اور دودھ دینے والے دوسرے جانوروں کو لگائے جانے والے انجکشن سے ملک میں کینسر کی بیماری پھیلنے کا نوٹس لے کر حکومت کو اس سلسلہ میں تادیبی اقدامات کیلئے کہا تھا، یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں ڈبے کے تمام دودھ میں کینسر پیدا کرنے والے کیمیکلز کا استعمال کیا گیا ہوتا ہے اور پاکستان میں تو ایسا خشک دودھ بھی درآمد ہو رہا ہے جو ایسے ممالک سے آ رہا ہے کہ جہاں دودھ دینے والے جانوروں میں کانگو وائرس کی وجہ سے یہ وائرس بھی خشک دودھ میں شامل ہو جاتا ہے‘ ہمارے اکثر لائیو سٹاک فارموں میں بھینسوں سے دودھ کی زیادہ مقدار حاصل کرنے کیلئے ان کو دودھ دینے سے کچھ وقت پہلے ٹیکے لگا دئیے جاتے ہیں جس سے دودھ کی پیداوار تو بڑھ جاتی ہے لیکن دودھ دینے والا جانور بتدریج اپنی فطری صحت میں ایسے ٹیکوں کی وجہ سے متعدد دوسری بیماریوں کے علاوہ کینسر کی بیماری میںلاحق ہو جاتے ہیں اور اس بیماری کے مضر صحت اثرات دودھ میں بھی منتقل ہوجا تے ہیں‘ ہمارے ہاں دودھ سپلائی کرنے والوں میں اکثر ایسی کالی بھیڑیں موجود ہیں‘ وہ فروخت کئے جانے والے دودھ میں سے ملائی نکلوا کر باقی دودھ میں نہ صرف پانی ملاتے ہیں بلکہ اس پانی ملے دودھ کو گہرا اور ملائی والا ظاہر کرنے کے لئے اس میں سنگھاڑے کے آٹے سمیت متعدد ایسی اشیاء کی ملاوٹ کر گزرتے ہیں جس کا استعمال انسان کو متعدد امراض سے دو چار کر دینے کا باعث بنتا ہے‘ ہمارے ہاں چکن سے لذت کام و دہن حاصل کرنے کا بہت زیادہ کلچر ہے جبکہ فارمی چکن کی پیداوار اور بڑھوتری کیلئے جو خوراک استعمال کی جاتی ہے‘ پولٹری کے سائنس دان اس میں ایسے ایسے کیمیکلز شامل کر دیتے ہیں کہ چکن کے گوشت میں سرایت کر جاتے ہیں اور جب یہ چکن کچن میں سے ہو کر انسانی لذت کام و دہن میں استعمال ہو جاتا ہے تو اس کو تناول فرمانے والے افراد کے جسموں میں مختلف بیماریوں کی ابتدا ہو جاتی ہے اور یہی صورتحال فارمی مرغیوں سے حاصل ہونے والے انڈے کی ہے‘ چین نے فارمی چکن اور فارمی انڈوں کی پیداوار اور انسانی خوراک میں ان کے استعمال پر پابندی لگا رکھی ہے۔ ہمارے ہاں چائے کی پتی کے نام سے بھی ایک ملاوٹ زدہ پتی مارکیٹوں میں فروخت ہو تی ہے جس میں مختلف درختوں کے پتوں کو کیمیکلز کے استعمال سے پتی بنایا گیا ہوتا ہے اور جب اس جعلی پتی کی بنی ہوئی چائے پیٹ میں جاتی ہے اس پتی میں استعمال کئے جانے والے پتوں کے اثرات بھی انسانی پیٹوں میں منتقل ہوتے ہیں۔ فیصل آباد میں ماضی میں جعلی بسار اور مصالحہ جات بھی تیار ہو کر مارکیٹ میں فروخت ہوتے رہے ہیں‘ صوبائی وزیر کو ایک چھاپہ شادی گھروں میں تیار ہونے والے کھانوں پر بھی ڈالنا چاہئے‘ یہ کام فوڈ ڈائریکٹوریٹ کو تو ضرور کرنا چاہئے۔ ان شادی گھروں میں مردہ اور بیمار چکن کا گوشت اور اکثر و بیشتر بیمار لائیو سٹاک کا گوشت نہایت مہارت سے لذیز کھانوں کا حصہ بنا دیا جاتا ہے‘ ملاوٹی خوراک میں بچوں کے استعمال کی ٹافیاں اور لیسوں میں فروخت ہونے والا حلوہ اور گٹکا بھی شامل ہے اور ہمارے تمام برانڈ کے مشروبات میں بھی جعلی مشروبات فروخت ہو رہے ہیں جن میں استعمال ہونے والے کیمیکلز میں اکثر و بیشتر مضر صحت چیزیں شامل کر دی جاتی ہیں‘ صوبائی وزیر خوراک کے اس دورہ کا یہ فائدہ تو ضرور ہو گا کہ اب کچھ عرصہ کیلئے بیکریوں پر فروخت ہونے والی اشیاء کا معیار صحت کے اصولوں کے قریب تر ہو جائے گا۔
آٹھ بازاروں کا شہر فیصل آباد بنیادی طور پر مختلف اجناس کے حوالہ نہری نظام کی بدولت زرعی شہر ہے۔ شہر کی قدیمی شناخت فیصل آباد کی زرعی یونیورسٹی جس نے اپنی ابتدا لائل پور زرعی ماڈل سکول سے کی اور زرعی یونیورسٹی نے اہل لائل پور کی نئی نسل میںزرعی شعور پیدا کرنے اور زراعت میں جدت اور انفرادیت پیدا کرنے کیلئے مڈل سکول سے اپنے سفر کا آغاز کیا اور پھر ارتقائی منازل طے کرتے ہوئے مڈل سکول سے ہائی سکول اور پھر زرعی کالج کا درجہ حاصل کیا۔ ایشیا کی چند زرعی یونیورسٹیوں میں زرعی یونیورسٹی کا شمار ہو تا ہے، بد قسمتی سے ایشیاء میں زرعی یونیورسٹی جو کبھی صفحہ اول پر تھی یعنی پہلے نمبر پر تھی قیام پاکستان کے بعد زرعی یونیورسٹی ایک عرصہ تک اس اعزاز پر فائز نہیں، خصوص طور پر سابق صدر ایوب خاں کے گیارہ سالہ اقتدار میں یہ اعزاز بر قرار رہا لیکن پھر ایسے زوال کا شکار ہوئی تو اس کا درجہ کم ہو تا رہا اور کہاں نمبر1اور کہاں زرعی یونیورسٹی خود اعتراف کر تی ہے کہ ایشیا کی زرعی یونیورسٹیوں میں ساتویں اورآٹھواں نمبرپر ہے، جبکہ بھارت کے شہر لدھیانہ کی زرعی یونیورسٹی جس میں اکثرتعداد ان اساتذہ کی تھی۔ انہوں نے تعلیمی اور تحقیقی معیار اس قدر بلند رکھا کہ دنوں میں دنیا کی توجہ اپنی طرف متوجہ کر لی،بیرونی ممالک کے طلباء فیصل آباد زرعی یونیورسٹی کا رخ کرتے تھے ان کا رخ بھارت کی طرف ہوتا ہے‘ زرعی یونیورسٹی کے تعلیمی اور تحقیقی معیار زوال کی چھائوں میں کب سے آئے تو اس کا ایک سادہ اور سیدھا سا جواب ہے کہ جب سے یونیورسٹی میں برادری مافیا نے اپنے پنجے مضبوط کئے اور حکمران اشرافیہ نے یونیورسٹیوں کو اپنے مفادات کا سر چشمہ قرار دیا اور کروڑوں روپے کے فنڈز کی بندر بانٹ شروع ہوئی نام کی یونیورسٹی تو رہی لیکن معروف ادارہ جسے یونیورسٹی کا مقام حاصل ہو تا ہے اس کا فقدان نظر آنے لگا‘ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی زراعت کو جس جدت کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا اس کا دور دور تک نشان نظر نہیں آتا اور یونیورسٹی میں سیاسی مداخلت کے باعث وائس چانسلروں کی تقرریاں ہونے لگیں اور پھراس سلسلے نے میرٹ کا جنازہ نکال کر رکھ دیا اور جو وائس چانسلر اپنا چا ر پانچ سالہ ٹنور مکمل کر لیتا اس کے بعد سیاسی مداخلت کے نتیجہ میں پھر ایکسٹنشن لیتا اور پھر دوبارہ یونیورسٹی ’’سلطنت‘‘ کا سلطان بن جاتا جس کے نتیجہ میں جس کی باری آنے والی ہوتی وہ وائس چانسلر کے منصب کو حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوتا اور اس طرح یہ سلسلہ جاری و ساری رہا اور ہے‘ تعلیمی اداروں میں سیاسی مداخلت نے تعلیمی اداروں کا ’’جنازہ‘‘ نکال کر رکھ دیا اور یہی حصول تعلیمی اداروں کے زوال کا باعث بنتا رہا ہے‘ اقربا پروری‘ برادری ازم کا راج پہلے کی طرح آج بھی تعلیمی اداروں میں رائج ہے‘ اقربا پروری اور برادری ازم نے قابلیت کا جنازہ نکال کر رکھ دیا‘ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں زراعت نے وہ ترقی نہیں کی جو ایک زرعی ملک ہونے کے ناطے کرنی چاہیے تھی‘ کوئی ہمیں اس سوال کا جواب دینے کی جرات رکھتا ہے‘ جن لوگوں نے مختلف شعبہ جات میں پی ایچ ڈی کی انہوں نے وطن عزیز کو کیا دیا ماسوائے قومی خزانہ پر پی ایچ ڈی ہونے کے حوالہ سے بوجھ بنے اور زیادہ سے زیادہ مالی مفادات حاصل کئے‘ محکمہ لائیو سٹاک بھی اپنی افسران کا محکمہ نے جنہوں نے کسی نہ کسی زرعی یونیورسٹی ڈگری حاصل کی ہو تی ہے‘ آجکل فیصل آباد سابق ڈی سی نسیم صادق لائیو سٹاک کے سیکرٹری ہیں‘ وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف کے پسندیدہ افسروں میں شامل ہو تے ہیں‘ یہی وجہ ہے کہ محکمہ لائیو سٹاک کے تحت نئی سے نئی سکیم جاری کرتے چلے آ رہے اور کروڑوں روپے کے فنڈز اپنی سکیمز کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں عوام کو علم نہیں ہوتا کہ محکمہ لائیو سٹاک نے کروڑوں روپے کی فنڈنگ کی جو سکیم شروع کی اس کے قوم کو کیا فوائد حاصل ہوئے‘ مثال کے طور پر گزشتہ دنوں محکمہ لائیو سٹاک میں عوام میں ’’مرغیاتی‘‘ کا شوق پیدا کرنے کیلئے ایک مرغ تین مرغیوں دیہی عوام میںتقسیم کرنے کی سکیم شروع کی اور کہا گیا کہ لاکھوں مرغیاں اور مرغ تقسیم کئے گئے‘غریب دیہی عوا م میں تقسیم کئے جائیں گے تاکہ وہ اپنی آمدن میں اضافہ کریں اور بے روزگاری میں بھی کبھی ہو‘ ہوا کیا کہ غریبوں کے فا م پر جو مرغ اور مرغیاں تقسیم کی گئیں اس سے مرغبانی میں اضافہ ہونے کی بجائے با اثر افراد فائدہ اٹھا رہے ہیں ‘ فیصل آباد میں ڈائریکٹر لائیو سٹاک ڈاکٹر محمد انور ملک کی صدارت میں فیصل آباد ڈویژن کے محکمہ لائیو سٹاک کے ایڈیشنل ڈائریکٹر کا اجلاس ہوا۔ اس اجلاس میں فیصل آباد لائیو سٹاک کے ایڈیشنل ڈائریکٹر ڈاکٹر صالح گل‘ ڈاکٹر جہانگیر چنیوٹ‘ ڈاکٹر محمد سلیم ٹوبہ ٹیک سنگھ‘ ڈاکٹر خالد محمود جھنگ اور دیگر افسران نے شرکت کی اور سیکرٹری لائیو سٹاک نسیم صادق کی ہدایت پر جو مال شماری کی مہم شروع ہوئی پاکستان میں مردم شماری کے بعد مال شماری ہو رہی ہے‘ ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد نواز ملک نے ہدایت جاری کی کہ مال شماری کرتے وقت اور جانوروں کی رجسٹریشن کرنے میں کسی قسم کی کمی نہیں رہنی چاہیے ، خصوصی طور پر گائے اور بھینس کے حوالہ سے کہا کہ انہیں منہ کھر کی ویکسین کا عمل جلد مکمل کیا جائے، جب موسم رت تبدیل ہوتی ہے جانوروں میں منہ کھر کی بیماری تیزی سے پھیلتی ہے اور اس بیماری کا اگر بر وقت علاج نہ کیا جائے تو جانوروں کی اموات بھی ہو سکتی ہیں اور بعض اطلاعات کے مطابق اس بیماری سے درجنوں جانوروں کی اموات ہو چکی ہیں‘ اصل بات یہ ہے کہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ مال شماری کا مقصد مویشی پال حضرات کو ان کی دہلیز پر علاج معالجہ کی سہولت فراہم کرنا ہے۔ فیصل آباد میں کسی زمانہ میں ڈسٹرکٹ بورڈ کا مویشیوں کا شفا خانہ ہوا کر تا تھا جسے ڈسٹرکٹ بورڈنے کوڑیوں کے بھائو فروخت کر دیا تھا‘ بدقسمتی سے فیصل آباد پنجاب کا دوسرا بڑا زرعی مرکز ہونے کے باوجود یہاں کوئی مویشی ہسپتال نہیں ہے‘ ہاں چونکہ اس وقت پولٹری کی صنعت ایک اہم صنعت قرار دی جا تی ہے اور ٹیکسٹائل کے بعد پولٹری کی صنعت دوسرے نمبر پہ ہے اور عوام کو گوشت فراہم کرنے کی ذمہ داری پولٹری کی صنعت ہی پوری کر رہی ہے اور اس شعبہ میں پرائیویٹ سیکرٹری اہم خدمات سر انجام دے رہا ہے اور اس کی ادویات اور ویکسین بھی تیار کی جا رہی ہے یہی وجہ ہے کہ اشرافیہ نے بھی اس شعبہ پر اپنی اجارہ داری قائم کرنے کی غرض سے پولٹری فارمنگ پر بھی اپنی اجارہ داری قائم کر لی ہے پہلے جو درمیانہ درجہ کے افراد پولٹری فارمنگ کرتے تھے ان بڑی مچھلیوں نے چھوٹی مچھلیوں کو نگل لیا ہے‘ یہ بات غور طلب ہے کہ کہ پولٹری فارمنگ میں برائلر مرغی کے علاوہ ابھی تک کوئی اور قسم منظر عام پر نہیں آئی جبکہ یہ فریضہ زرعی یونیورسٹی کے شعبہ ریسرچ کا کام ہے ترقی یافتہ ممالک میں بوائلر مرغی کی نئی سے نئی نسل منظر عام پر آ تی رہتی ہے ایک زمانہ میں مصری مرغی مارکیٹ میں لائی گئی اس مصری مرغی نے بیک وقت گوشت کی فراہمی کے ساتھ انڈے کی کمی نہیں ہونے دی لیکن منافع خور مافیا نے ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت مصری نسل کی مرغی کے وجود کو ہی عدم وجود کا شکار کر دیا اور محکمہ لائیو سٹاک نے اس کا کوئی نوٹس نہیں لیا بلکہ ایک افسوسناک پہلو یہ ہے کہ مرغیوں کی خوراک تیار کرنے والوں نے فیڈ کی تیاری کا جو فارمولا طے کیا اس فارمولا پر کوئی ادارہ مرغیوں کی فیڈ تیار نہیں کرتا اور جو مدت مرغیوں کی تیار کیلئے طے شدہ شیڈول کے مطابق فیڈ تیار کرنے کی بجائے اس میں سٹرئیداد کا اس قدر استعمال شروع کر دیا جس سے مرغی ایک ہی ماہ میں تیار ہو جا تی ہے لیکن اس کے گوشت کی کوالٹی ہی نہیں گری بلکہ سٹررئیداد کے استعمال کی وجہ اب مرغی کا گوشت بھی انسانی صحت کیلئے ناقص ہو گیا۔ عالمی شعبہ خوراک نے حکومت کی توجہ متعدد بار اس طرف مبذول کرائی ہے نہ حکومت نہ محکمہ صحت اور نہ محکمہ لائیو سٹاک ٹس سے مس ہوا ہے اور لوگ گوشت کے نام پر زہر کھانے پر مجبور ہیں‘ محکمہ لائیو سٹاک نے جو نئی مویشی پال سکیم جاری کی ہے اس سکیم کے تحت دو لاکھ بیس ہزار مال مویشی پال گھرانوں میں 3820 جھوٹیاں اور بیڑیاں تقسیم کی جا رہیں، دراصل یہ سکیم افرنگی عہد کی گھوڑی پال سکیم کا متبادل ہے اس زمانہ میں اس سکیم کے تحت فوج کو گھوڑے فراہم کئے جاتے تھے اور گھوڑی پال سکیم کے تحت زرعی اراضی بھی فراہم کی جا تی تھیں اب چونکہ زمانہ تبدیل ہو چکا ہے لہٰذا جس تیزی کے ساتھ جانوروں کی کمی ہو رہی ہے اس کمی کو دور کرنے کی غرض سے مویشی پال سکیم بڑ ی خوش کن اور حوصلہ افزا ہے‘ بشرط اگر اس سکیم کی روح کے مطابق عمل کیا جائے اور جو جذبہ اس سکیم کے پس پردہ کارفرما ہے اسے سامنے رکھا جائے کیونکہ ہم اس وقت جس آشوبی بحران اور عہد آشوب کے دور سے گزر رہے ہیں، ایک لوٹ پڑی ہے، بھرپور کوشش ہوتی ہے کہ لوٹ کا مال کہیں سے بھی ہاتھ لگے اسے لوٹ لیا جائے، لہٰذا اگر اس سکیم کو بھی لوٹ سکیم بنا کر میرٹ کی بجائے اپنے آدمیوں میں ہی کروڑوں کے مویشی تقسیم ہوں گے اور ہو رہے ہیں۔ لہذا محکمہ لائیو سٹاک قبل ہی کٹا پال اور کٹا بچائو سکیمز چل رہی ہیں اس کے نتائج کیا برآمد ہوئے کوئی نہیں جانتا ہے اور نہ ہی محکمہ لائیو سٹاک کے پاس ایسے اعداد و شمار موجود ہیں جو اس کی کارکردگی کا ثبوت فراہم کریں؟۔ پہلے مویشیوں کے شفاخانے ہوتے تھے‘ محکمہ لائیو سٹاک کے پاس فنڈ کی کمی نہیں لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنے دعوی کو سچ کی کسوٹی پر اتارنے کیلئے ضلع میں جہاں مویشیوں کا شفاخانہ نہیں ہے یا بند کر دیا گیا ہے تو محکمہ لائیو سٹاک ایک شفاخانہ بنائے تاکہ لوگ اپنے بیمار جانوروں کا علاج معالجہ کرا سکیں‘ نسیم صادق کو اس پہلو پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے اور خدمت کارڈ خدمت سر انجام دینے والوں کو ہی جاری کئے جائیں کہیں ایسا نہ ہو کہ بااثر افراد اپنے مزارعین کے نام پر خدمت کارڈ حاصل کریں اور خدمت اپنی کریں کٹے بھی ہضم کر جائیں‘ کٹا کا گوشت تو دیسی بکرے کے گوشت کو بھی پرے مارتا ہے!!

ای پیپر دی نیشن