چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے عدالتی نظام میں اصلاحات لانے کا اعلان کیا۔ چیف جسٹس نے کہا ہے عدلیہ میں آئندہ ہفتے سے اصلاحات شروع ہو جائے گا لیکن پھر کوئی نہ کہے کہ ہم مداخلت اور تجاوز کر رہے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں سی ڈی اے قوانین میں عدم مطابقت سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا بتایا جائے نظام عدل میں اصلاحات لانا کس کا کام ہے‘ آج تک پارلیمنٹ نے نظام عدل میں اصلاحات کیلئے کتنے قوانین بنائے۔ انہوں نے کہاکہ اب ہم نظام عدل میں اصلاحات لے کر آئیں گے‘ پھر کوئی یہ نہ کہے کہ سپریم کورٹ عدالتی دائرہ اختیار سے تجاوز کر رہی ہے۔ سپریم کورٹ میں سی ڈی اے قوانین میں عدم مطابقت سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے سماعت کی۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ سی ڈی اے قوانین میں عدم مطابقت ہے، بہت سے معاملات میں قواعد و ضوابط تک نہیں بنائے گئے، بتائیں یہ سارے معاملات ٹھیک کرنے میں کتنا وقت لگے گا؟ طارق فضل چوہدری نے عدالت سے استدعا کی کہ معاملات ٹھیک کرنے کیلئے تین ماہ کی مہلت دے دیں، اس پر چیف جسٹس نے وزیر مملکت کیڈ کو ہدایت کی کہ تین نہیں دو ماہ میں سارا کام مکمل کریں، دن رات مخلص انداز میں کام کریں۔چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا عدلیہ میں بھی ایک ہفتے میں اصلاحات آنا شروع ہوجائیں گی، ویسے اصلاحات لانا ہمارا کام نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے وزیر کیڈ سے استفسار کیا کہ پوری دنیا میں قانون سازی کس کی ذمہ داری ہوتی ہے؟ اس پر طارق فضل چوہدری نے جواب دیا کہ قانون سازی پارلیمنٹ کا کام ہوتا ہے، انہوں نے مزید کہا کہ پارلیمنٹ نے کیا اصلاحات متعارف کرائی ہیں؟ سپریم کورٹ نے وزارت کیڈ کوسی ڈی اے قوانین میں یکسانیت سے متعلق قانون سازی کیلئے دو ماہ کی مہلت دے دی۔ کیس کی سماعت دو ماہ تک ملتوی کر دی گئی۔سپریم کورٹ نے ملک بھر میں احتساب عدالتوں میں خالی آسامیوں پر ججز کی تقرری کرنے کا حکم دے دیا جبکہ دوران سماعت جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے ہیں کہ ہم نے بھی حساب کتاب کیا ہے کسی کو فائدہ دینے کے لیے جان بوجھ کر تقرری میں تاخیر کی جارہی ہے۔سپریم کورٹ میں پراسیکیوٹرجنرل نیب کی تقرری کے معاملے پر سماعت جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے کی۔عدالت نے وکلاء کے دلائل سننے کے بعد ملک بھر کی احتساب عدالت میں ججز کی خالی آسامیوں پر تقریروں کا حکم دیتے ہوئے سیکریٹری قانون سے 2 ہفتوں میں رپورٹ طلب کرلی تاہم پراسیکیوٹر جنرل نیب کی تعیناتی پر اٹارنی جنرل نے ایک ہفتے کی مہلت مانگ لی، دوران سماعت اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ پراسیکیوٹر جنرل نیب کی تقرری ایک ہفتے میں ہوجائے گی، احتساب عدالت کی خالی آسامی کے لیے نامزدگیاں نہیں بھجوائیں، نامزدگیوں پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ سے رابطہ کروں گا، احتساب عدالت اسلام آباد میں جج کی تقرری بھی 10 روز میں ہوگی، دوران سماعت جسٹس گلزار احمد نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ کوئی منصوبہ بندی نہ ہونا ہی ہمارے ملک کی بدقسمتی ہے۔ پراسیکیوٹر جنرل نیب کی تقرری میں تاخیر کا ذمہ دار کون ہے؟ ہم نے بھی حساب کتاب کیا ہے، کسی کو فائدہ دینے کے لیے جان کر تقرری میں تاخیر کی جا رہی ہے۔ جج کی ریٹائرمنٹ سے 2 ماہ پہلے تقرری کا عمل شروع ہونا چاہیئے۔ ایک جج ریٹائر ہو تو دوسرا اگلے دن عدالت کو سنبھال لے۔ سپریم کورٹ نے کوئٹہ میں وکیلوں پر کیے گئے حملے میں قتل عام پر لیے گئے ازخود نوٹس کو نمٹا دیا، دوران سماعت جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ہزارہ والے بھی اتنے ہی پاکستانی ہیں جتنے ہم ہیں، ہزارہ قبائل کی سکیورٹی ریاست کی ذمہ داری ہے جبکہ جسٹس دوست محمد خان نے سوال اٹھایا کہ تفتان سے چلنے والے اسلحے کے ٹرک کو جب حیدر آباد میں پکڑا جائے تو راستے میں آنے والی چیک پوسٹوں پر کیا ہوتا ہے، اداروں کو جواب دہ بنایا جائے انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت دہشتگردی ختم کرنے میں سنجیدہ نہیں لگتی شہریوں کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے۔ ازخود نوٹس کی سماعت جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس دوست محمد خان اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل پر مشتمل تین رکنی بنچ نے کی ، دوران سماعت کوئٹہ کمیشن رپورٹ پر عملدرآمد نہ ہونے پر عدالت نے برہمی کا اظہار کیا جبکہ جسٹس دوست محمد نے کہا کہ صوبائی حکومت دہشتگردی ختم کرنے میں سنجیدہ نہیں لگتی، ہائی کورٹ نے 2012 میں فرانزک لیب کے قیام کی ہدایت کی تھی، قانون سازوں کو آئین بھی پڑھا دیں، شہریوں کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ سپریم کورٹ کے ایک جج نے سانحہ کوئٹہ کے ملزمان کو ٹریس کیا، ہر سانحہ پر تحقیقات کیلئے سپریم کورٹ جج فراہم نہیں کر سکتی، تحقیقات پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کام ہے ،جسٹس دوست محمد نے کہا کہ فرانزک لیب کیلئے مختص کروڑوں روپے ہضم ہوگئے، کمیشن سفارشات پر عملدرآمد نہ ہونا بھی جرم ہے، سترہ سال سے دھماکے ہو رہے، صوبائی حکومت سوئی رہی، ہر بجٹ میں پانچ ملین بھی لگاتے تو فرانزک لیب تیار ہوچکی ہوتی، عدالت نے اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل کی کارکردگی ہر بھی سوالیہ نشان لگا دیا۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ آپ کو رپورٹ پڑھنا نہیں آ رہی تو عملدرآمد کیا ہوگا ،اٹارنی جنرل نے کہا کہ کوئٹہ کمیشن رپورٹ میں سابق وزیر داخلہ کے حوالے سے ذاتی ریمارکس دیے گئے، عدالت رپورٹ سے ریمارکس حذف کرے جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ کمیشن رپورٹ عدالت کا فیصلہ نہیں ہے، آپ کے نقطے کا جائزہ لیں گے ، بلوچستان بار کے وکیل نے کہا کہ چوہدری نثار نے کالعدم تنظیم کے سربراہ سے ملاقات کیوں کی؟ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ اس معاملے میں نہیں جائیں گے، جسٹس دوست محمد خان نے کہا کہ آج کل مارکیٹ میں ایک چورن بہت تیزی سے بک رہا ہے ،ہزارہ قبائل کی جانب سے نسل کشی پر جوڈیشل تحقیقات کی استدعا کی گئی جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ حکومت ہزارہ برادری کے مسائل پر توجہ دے، جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ ہزارہ والے بھی اتنے ہی پاکستانی ہیں جتنے ہم ہیں، ہزارہ قبائل کی سکیورٹی ریاست کی ذمہ داری ہے۔درخواست گزار لیاقت ہزارہ نے کہا کہ وزیر اعلیٰ سے ملاقات میں خواتین نے مسائل سے آگاہ کیا، وزیراعلی بلوچستان نے شٹ اپ کال دی اور نوازشریف کے نعرے لگواتے ہوئے میٹنگ ختم کردی دوران سماعت جسٹس دوست محمد نے خدشہ ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ کرم ایجنسی اور پارہ چنار میں دہشتگردی کا خدشہ ہے، فرقہ واریت کیلئے ایسی کارروائیاں کی جائیں گی، ایجنڈے کے تحت ہزارہ والوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، ہمیں پہلے اپنا بارڈر محفوظ بنانا ہوگا۔