حلقہ ارباب ذوق لاہور ایک جمہوری ادبی اور غیر سیاسی ادارہ ہے جو کہ کئی عشروں سے اپنا کردار ادا کررہا ہے۔ ہم نے اس ادبی ادارے کا ذکر کرتے ہوئے جمہوری حیثیت کو اس لئے اولیت دی ہے کہ اس ادارے کے ہر سال باقاعدہ الیکشن ہوتے ہیں اور ادبی لوگ اپنے منتخب نمائندوں کو پورے سال کیلئے ادبی کاموں کیلئے راہنما تصور کرتے ہیں اور پھر سارا سال اپنے ادبی کاموں میں لگ جاتے ہیں۔ حلقہ ارباب ذوق کے سالانہ انتخابات بھی پاک ٹی ہائوس میں منعقد ہوتے ہیں۔ اگرچہ جگہ کی کمی کے باعث کبھی کبھار کسی دوسرے مقام کا انتخاب کر لیا جاتا ہے مگر پاک ٹی ہائوس میں الیکشنوں کی شان ہی اور ہے۔ کہ آٹھ نو بجے رات کو پاک ٹی ہائوس کی بالائی بالکونی کا در وا ہوتا ہے اور الیکشن کمشنر نتائج کا اعلان کرتا ہے۔ تو نیچے کھڑے ہوئے لوگ تالیاں بجا کر نتائج کو خوش آمدید کہتے ہیں اور پھر روائتی انداز میں مٹھائیاں بانٹیں جاتی ہیں۔ حلقہ ارباب ذوق لاہور میں تنقیدی نشستوں میں اپنی تخلیقات پیش کرنا سند حاصل کرنے کے مترادف ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام موثر ادیب اس ’’سعادت‘‘ کو حاصل کرنا ضروری خیال کرتے ہیں۔ تمام بڑے بڑے ادیب یہاں پر جب اپنی تخلیقات برائے تنقید پیش کرتے ہیں تو پھر انکی تخلیق ایک ’’پبلک پراپرٹی‘‘ ہی تصور کی جاتی ہے۔ اور ہر کسی کو اس پر بات کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔ صاحب تخلیق خاموشی سے تنقید سنتا ہے اور اس کو بولنے یا جواب دینے کی اجازت نہیں ہوتی۔ لاہور سے یا لاہور سے باہر ادب تخلیق کرنیوالے اس ادارے میں آنا اور اس سے منسلک ہونا اپنے لئے یا اپنے ادبی مقام کو بلندی کی طرف لے جانے کیلئے ضروری خیال کرتے ہیں مگر ووٹ ڈالنے کی اجازت صرف اور صرف لاہور میں رہنے والے ادیبوں کو حاصل ہوتی ہے۔ اس ادارے کی رکنیت حاصل کرنا بھی ایک ادبی مسئلہ ہے کہ اس کیلئے امیدوار رکنیت کو اپنی تخلیقات ایک سے زائد مرتبہ پیش کرنا ہوتی ہیں۔ شاید اسی کڑی شرط کی پابندی نے ابھی تک اسکے ممبران کی تعداد کو ایک خاص حد سے بڑھنے سے روکا ہوا ہے کہ اپنی لکھی ہوئی چیز پر تنقید سننا اور خاموشی سے برداشت کرنا کوئی معمولی کام نہیں ۔
اس ادارے کی یہ حیثیت اسلئے بھی وقت کے تقاضوں کا ساتھ دے رہی ہے کہ ہر نسل کے لوگ اور جدید افکار کو قلم کے ذریعے موضوع بنانے والے اور ادب تخلیق کرنیوالے لوگ ہی اس ادارے کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں۔ اگرچہ اس ادارے کا قیام قیام پاکستان سے قبل ہی ہو چکا تھا مگر آج تک اسکے ادیب اسکی حیثیت کو مستحکم کرنے میں مصروف ہیں۔ مجلس عاملہ کی گزشتہ کارروائی میں سیکرٹری حلقہ نے پورے نو مہینے کے اجلاسوں کی تفصیل پیش کی اور بقایا سال کے اجلاسوں کی منظوری حاصل کی۔ اس تفصیل سے پتہ چلا کہ ان اجلاسوں میں جہاں سینئر لوگوں نے ان اجلاسوں کی صدارت کی اور ان میں شرکت کی وہاں جونیئر ادیبوں نے کثیر تعداد میں اپنی تخلیقات پیش کیں۔ ان اجلاسوں میں گزشتہ عشروں کی نمائندگی بجا طور پر ہوئی اور مختلف زمانوں سے تعلق رکھنے والوں نے مل بیٹھ کر نئے اور پرانے ادب پر بات کی اور خیالات شیئر کئے۔
یہاں پر ڈاکٹر خواجہ زکریا‘ ڈاکٹر خورشید رضوی‘ اکرام اللہ‘ حسن عسکری کاظمی‘ شمیم حنفی (بھارت) اور مسعود اشعر جیسے روشن ستارے بھی موجود تھے۔ اور حسین مجروح‘ مشتاق صوفی‘ سعادت سعید‘ غلام حسین ساجد‘ ایوب خاور‘ اشرف جاوید جیسے روشن دماغ ادیب بھی تھے اور ڈاکٹر ضیاء الحسن ‘ نیلم احمد بشیر‘ نوید صادق‘ دانش عزیز‘ ڈاکٹر ابرار احمد‘ آمنہ مفتی‘ ندیم بھابھہ جیسے درمیانی نسلوں کے ادیب بھی تھے۔ شازیہ مفتی‘ عبیرہ احمد‘ آدم شیر‘ محمد عباس جیسے نئے لکھنے والوں نے بھی اپنے خیالات عالیہ پیش کئے اور گزشتہ نسلوں کے نمائندوں کے خیالات و افکار سے بھی آگاہی حاصل کی۔ حلقہ ارباب ذوق اس وقت جدید افکار خیالات کی باقاعدہ زد میں نظر آتا ہے کیونکہ یہاں پر بات کرنے والوں میں ڈاکٹر امجد طفیل‘ ڈاکٹر نیئر عباس ناصر‘ ڈاکٹر ناصر بلوچ‘ زاہد حسین‘ محمد جواد‘ علی اصغر عباس‘ جواز جعفری‘ شفیق احمد خاں‘ روبیعہ جیلانی‘ جاوید آفتاب جیسے سینکڑوں لوگ اپنے نئے اور تخلیقی ذہن کیساتھ سوچتے اور بات کرتے ہیں۔ حلقہ کی موجودہ سیکرٹری اختر جدید شاعر ہیں اور جوائنٹ سیکرٹری بابر ریاض ایک نئے اور اور خوبصورت افسانہ نگارہیں۔ انہوں نے ہر قسم کی گروپنگ سے بالاتر ہو کر پروگرام ترتیب دیئے اور اپنے سے پہلے لوگوں کی اچھی باتوں کو جاری کیا اور انتظامیہ پر انتخاب جیتنے کے بعد بھی سب کو ساتھ رکھنے کی پالیسی پر عمل کیا۔
یوں تو حلقہ کی تاریخ موقر ناموں سے بھری پڑی ہے مگر بعض لوگوں نے کچھ اس انداز سے عام کیا کہ آج بھی حلقے کا نام ذہن میں آتے ہی ان کا نام بھی فوراً ذہن میں آتا ہے۔ اس حوالے سے میرا جی آگے چلیں تو شہزاد احمد، منو بھائی، سعادت سعید اصغر ندیم سید کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر الجلیل اور عافر شہزاد جیسے ادیبوں کے نام ذہن میں آتے ہیں ایسے کئی جوبا ہیں جنہوں نے اپنے اپنے عہد میں ادب کے اس منصب جلیلہ پر کام کیا اور خوب کیا حال ہی میںغلام حسین ساجد بھی اس سلسلے کی ایک کڑی کے طور پر سامنے آئے۔ حلقہ ارباب ذوق لاہور ادب میں اپنے قیام کے بعد سے لیکر اب تک جدید ادبی رحجانات کو ادب کا حصہ بنانے کے حوالے سے ہمیشہ زندہ رہے گا کہ ہر ادبی گروہ یا گروپ اسکے ضرورت بنارہا اور حلقہ سب کی ضرورت بنا رہا۔ سبھی اس میں شریک ہوئے اور تمام اختلافات کو پس پشت رکھتے ہوئے یہاں مل بیٹھ کر بات کرتے دوسرے کی بات سنتے اور اختلاف بھی اپنے سلیقے کے ساتھ کرتے کہ باہمی آویزش کی حدیں ادب کی حد میں رہیں۔ ادب کی حدیں ہی کسی معاشرے میں خیر و شر کی حدیں متعین کرتی ہیں اور ادبی پیش رفت سے ہی معاشروں میں دیگر حدوں کی پیمائش کی جاتی ہے۔ یہ اصول تاریخی حوالے سے سماج کا حصہ ہے اورہم کو بھی اس سماج کی حدوں میں رہنا ہے جس کا ادب ہمارے اندر کی صورتحال کو واضح کرتا رہے اپنی تمام تر اچھائیوں اور برائیوں سمیت!!