گزشتہ چند برسوں سے سندھ کے دانشوروں سے گفت وشنید رہی جس کے نتیجے میں گزشتہ ماہ انڈس ویژن کے منعقدہ سیمینار، کراچی میں راقم کو خطاب کرنے کی دعوت دی گئی۔ علالت اور علاج معالجہ کے پروسیجرز میں مصروفیت کی بناء پر معذرت کرلی مگر سندھی میں تحریر کردہ مسودہ خطاب، سیکرٹری انڈس ویژن، ڈاکٹر محبوب شیخ کو ارسال کیا کہ اس طرح میری رائے انڈس وژن کے شرکاء تک پہنچ سکے گی۔ 22 دسمبر 2018ء کو ڈاکٹر محبوب صاحب نے انڈس ویژن کی مذکورہ مجلس میں دانشوروں کی رائے کو اکٹھا کرکے ایڈٹ کرکے کتاب میں چھاپ دی تھی اس کی چند کاپیاں ارسال کیں اور یہ نوید سنائی کہ انڈس ویژن کے دانشور انجینئر میر مظہر ٹالپور لاہور پہنچ رہے ہیں اور وہ روبرو دریائے سندھ کی پانیوں کے متعلق سندھ کے عوام اور دانشوروں اور رہنمائوں کے تحفظات سے آگاہ کریں گے۔ میں نے محترم انجینئر سلیمان خان، چیئرمین ’’سندھ طاس واٹر کونسل‘‘ کی وساطت سے لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری میں کالاباغ ڈیم کمیٹی کے چیئرمین عبدالباسط، سابق صدر ایل سی سی آئی کے زیراہتمام 29دسمبر 2018ء کو سیمینار کا اہتمام کیا۔ اس سیمینار میں دیگر شرکاء کے علاوہ ماحولیات کی پارلیمانی سیکرٹری محترمہ رخسانہ نوید ایم این اے نے بھی شرکت کی۔ انجینئر میر مظہر ٹالپور نے ملٹی میڈیا کے ذریعے شرکاء کو سندھ کے تحفظات سے واضح دلیلوں کے ساتھ آگاہ کیا۔ تقریباً چار گھنٹوں کی اس نشست میں ٹالپور صاحب کی پریزنٹشن کے بعد عبدالباسط چیئرمین کالا باغ ڈیم کمیٹی نے سندھ کے تحفظات کے جواب میں اپنی رائے اور دلیلیں دیں۔ انجینئر سلیمان خان نے سندھ کے تحفظات دور کرتے ہوئے حقائق سے پردہ اٹھایا اور ٹالپور صاحب کو مطمئن کرنے کی کوشش کی جبکہ راقم نے بھی اہم تحفظات پر گفتگو کی۔
کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے متعلق سندھ کے عوام کے تحفظات انتہائی جائز ہیں۔ انہیں دور کئے بغیر سندھ کا اتفاق رائے حاصل کرنا ممکن نہیں۔ واٹر اپورشمنٹ اکارڈ 1991ء کے مطابق سندھ کا موجودہ پانی کا کوٹہ 43.53 MAF ہے اور یہ کوٹہ کالا باغ ڈیم تعمیر ہونے کے بعد بڑھ کر 48.76MAF ہونا ہے۔ سندھ کیلئے دریائوں کے پانیوں کا مقررہ کوٹہ سندھ ایریگیشن ڈیپارٹمنٹ کی ریکوزشن پر چشمہ بیراج سے نیچے بہائو پر پیمائش کرکے رواں کیا جاتاہے جبکہ چشمہ بیراج سے نیچے بہائو پر صوبہ پنجاب کے کوٹہ کا پانی بھی رواں کیا جاتا ہے۔ یہ مشترکہ پانی پنجند بیراج تک رواں رہتا ہے اور راستے میں بیراجوں سے صوبہ پنجاب اپنے حصے کا پانی استعمال کرتا ہے۔ چشمہ بیراج سے پنجند بیراج تک دریائوں کی پانیوں پر پنجاب ایریگیشن کے محکمہ کو مکمل اختیار حاصل ہے۔ ایسی صورت میں سندھ کے حصے کے پانی میں پنجاب ایریگیشن محکمہ پنجاب کی انہار میں رواں رکھنے کا اختیار رکھتا ہے۔ جس کے سامنے صوبہ سندھ بے بس ہے۔ سندھ کے دانشوروں کا مطالبہ ہے کہ ’’سائیں اساں کھے پانی بنے تے کھپے‘‘۔ یعنی ہمیں مقررہ کوٹہ کا پانی اس مقام پر چاہئے جہاں پر دریائے سندھ صوبہ سندھ کی حدود میں داخل ہوتا ہے۔ دیکھا جائے تو سندھ کے دانشوروں اور عوام کا جائز مطالبہ ہے اس لئے ضروری ہے کہ سندھ کی حدود کے اندر پیمائش کا نظام بنایاجائے تاکہ عوام اور ایریگیشن محکمہ کے ا نجینئر خود مانیٹر کرکے مطمئن رہیں اور پنجاب کے ساتھ پانی کے معاملہ میں غلط فہمی اور چپقلش ختم ہوجائے۔ سندھ کے ماہرین ہیڈرالوجی کے انجینئر اپنے مطالبہ کے حق میں دوسرے دلائل میں کہتے ہیں۔
’’چشمہ بیراج سے نیچے بہائو میں دریا ئے سندھ کبھی اپنے کناروں تک محدود ہوتا ہے تو کبھی کچے کے اوپر پھیل جاتا ہے۔ راستے میں بیراجوں کی بدولت پانی کے بہائو کی رفتار میں کمی واقع ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے زیادہ پانی زیر زمین چلاجاتا ہے۔ دریا کے پانی کی روانی کی رفتار میں کمی اور پانی کی سطح کے پھیلائو کی وجہ سے پانی کا بھاپ بن کر فضا میں محلول ہونے کا عمل بھی زیادہ ہوتا ہے۔ دریا کے بہائو میں مذکورہ نقصانات سے جو پانی کی کمی واقع ہوتی ہے تو وہ بھی سندھ کے کوٹہ کے کھاتے میں ڈال دی جاتی ہے۔ پنجاب اپنے کوٹہ کا پورا پانی بھی استعمال کرے تب بھی سندھ کے کوٹہ میںکمی رہے گی۔ پانی کے فلو لاسز سندھ کو برداشت کرنے پڑتے ہیںاور اس طرح کی پانی کی کمی سے سندھ کی زراعت کو شدید نقصان پہنچتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مذکورہ بالا نقصانات کے علاوہ اگر کالا باغ ڈیم تعمیر ہوتا ہے اوراس سے انہار نکالی جاتی ہیں تو دریائے سندھ کی روانی میں کمی آجائیگی اورسندھ کا نقصان ہوگا۔ اسلئے بھی ضروری ہے کہ سندھ کی حدود کے اندر سندھ کے کوٹہ کے پانی کی پیمائش ہونا چاہئے۔
دوسرا اہم مطالبہ ہے کہ کوٹری بیراج سے نیچے بہائو پر بین الاقوامی ماہرین کی رپورٹ کے مطابق سالانہ مجموعی 8.5 ملین ایکڑ فٹ پانی یعنی روزانہ تقریباً 2330 AF ایکڑ فٹ پانی رواں رکھا جائے تاکہ سمندرکا پانی دریا کے اندر نہ آئے۔ اس مطالبہ پر طویل بحث ہوئی اور راقم نے دلیلوں اور مثالوں اور تاریخی حقائق کی بناء پر کہا کہ جب سات دریا بغیر کسی رکاوٹ کے رواں رہتے تھے تو اس زمانے میں تمام فالتو پانی سمندر میں جاتا تھا تب بھی سمندر کو ساحلی زمین بردگی سے روکا نہیں جا سکا۔ ساحلی شہر موڑو کی ماڑی اورگھارو کھاڑی کی شمالی حد پر و اقع دیبل بندر سمندر برد ہوچکے۔ یہ معمولی پانی سمندر میں ضائع کرنے سے ساحل کی بردگی رک نہیں سکے گی۔ لوئر ریپیٹرن میں سمندر اور اس کی مچھلیاں اور ڈولفن نہیں ہیں۔ فقط زمین پر بسنے والے انسان چرند اور پرند ہیں۔ لہٰذا اس پانی کو سمندر میں ضائع ہونے کی بجائے اسے استعمال کیاجائے۔ دریائے سندھ پر آباد بستی ’’کھارو چھان‘‘ سے اوپر بہائو پر دریائے سندھ کے دوپاٹ بن جاتے ہیں۔ وہاں سے اوپر بہائو پر زمین پتھریلی ہے اور دریا کے پیندہ RIVER BED کی سطح سمندر کی سطح سے سات میٹر بلند ہے۔ اسی مقام پر بیراج یا سپل وے بنایا جائے جس کی بلندی کم از کم تیرہ میٹر ہو۔ دریا کے بند اور پشتے دونوں کناروں پر مضبوط اور بلند کئے جائیں تو کوٹری کے مقام پر تین یا چار میٹر پانی بلند ہوگا۔ ایسی صورت میں تین سو ٹن وزن کا سامان اٹھانے والے بارجز کراچی سے کوٹڑی تک تجارتی سامان کی آمد و رفت کرسکتے ہیں۔ مذکورہ بیراج یااسپل وے میں ریور لاک کانظام ہونا لازم ہے تاکہ کشتیاں اور بارجز دریائے سندھ میںداخل ہوسکیں۔ ساتھ میں مچھلیوں کی دریا کے اوپر بہائو میں ہجرت کرکے آنے کیلئے بھی الگ دروازہ رکھا جائے۔ دنیا میں اس کی مثالیں موجود ہیں۔ یہ نظام جنوبی کوریا اور برطانیہ کے دریائوں میں سمندر میں چھوڑنے کے مقامات پر موجود ہیں۔ جو پانی سمندر میں پھینک کر ضائع کرنے کی سفارش کی گئی ہے وہ پانی مذکورہ کھاروچھان کے قریب بنے انجینئرنگ اسٹرکچر یعنی اسپل وے یا بیراج کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد دریائے سندھ میں رک جائے اور دریائے سندھ جس کا پاٹ دو بندوں کے درمیان تقریباً 10 کلو میٹر ہے تو ایک بڑا جھیل اور تازہ پانی کا ذخیرہ بن جائے گا۔ اس پانی سے ضلع سجاول اور ضلع ٹھٹھہ کی زرعی پانی کی کمی پوری ہوگی، ساحلی پٹی کی زمین پر باغبانی یعنی آئل پام، زیتون، پپیتا اور دیگر پھلوں کے باغات اور سبزیوں کی کاشت کیلئے پانی مہیا کیا جائیگا۔ چرند و پرند کیلئے وافر پانی ہوگا۔ سندھ کے عوام کیلئے دریا کی جھیل میں پلّا مچھلی کی فراوانی ہوگی۔ دریا کے دونوں کناروں میں میلوں تک زیرزمین پانی میٹھا ہوگا اور زمین دائمی طور پر ذرخیز رہے گی۔ کوٹری، حیدرآباد، جامشورو، ٹھٹھہ اور کراچی کی انسانی آبادی اور صنعت کیلئے تازہ صحت بخش پانی کی فراوانی ہوگی۔
جہاں تک ساحلی پٹی کی زمین کی سمندر بردگی کا معاملہ ہے تو جیسا کہ کلفٹن کراچی میں پتھرکے پشتے اور بند بنے ہوئے ہیں اس طرح ساحلی پٹی پر پتھروں کے رکاوٹی بند بنائے جائیں تاکہ High tile کے دوران سمندری لہریں زمین کو نقصان نہ پہنچا سکیں۔ اس کیلئے خام مال یعنی پتھر، ٹھٹھہ، جنگشاہی اور تھانو بولا خان کی پہاڑی ٹیکریوں اور پہاڑوں میں وافر موجود ہے۔ جہاں تک سمندر کا پانی زیر زمین چلا جاتا ہے تو اس کے سدباب کیلئے ساحل کے قریب سیم نالہ بنایا جائے جس کو LBOD کے ساتھ جوڑ دیا جائے۔
سندھ کے حصے کی پانی پیمائش کا نظام سندھ کی حدود کے اندر کرنے کا بندوبست ہونے کے بعد اور کھارو چھان کے قریب بیراج یا اسپل وے تعمیر کرنے اور دریا کے دونوں کناروں کے پشتے بلند اور مضبوط کرنے اور ساحل کو پتھروں سے مضبوط کرنے کے بعد سندھ کے عوام اور دانشوروں اور رہنمائوں کے تحفظات دور ہوجائیں گے۔ خفیف اختلافات مل بیٹھ کر حل کئے جاسکتے ہیں اور کالا باغ ڈیم کی تعمیر بلا تاخیر شروع ہو سکتی ہے۔
سندھ کے دانشوروں کے ساتھ مکالمہ جاری رکھنے کیلئے چند دنوں بعد انجینئر محمد سلیمان خان، چیئرمین ’’سندھ طاس واٹر کونسل‘‘ اپنی ٹیم کے ساتھ سندھ کے دورے پر روانہ ہو رہے ہیں جو سندھ کے عوام، رہنمائوں اور دانشوروں سے رابطے بڑھائیں گے اور اتفاق رائے کیلئے سوچ ہموار کریں گے تاکہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر کیلئے رکاوٹیں دور ہو سکیں۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ دانشوروں کی حب الوطنی اور مشترکہ کاوشیں رنگ لائیں۔ پانی سے متعلق بین الصوبائی جھگڑے رفع ہو جائیں اور پاکستان مستقل طور پر خوشحال رہے۔ آمین
کالا باغ ڈیم۔ سندھ کے تحفظات اور سدباب
Jan 08, 2019