رنگ برنگے لوگ

فوکسڈ لوگ : ایسے لوگوں کو میوزک فنکشن میں لے جائو یا ادبی یا تعزیتی یہ اپنے ایجنڈا پر فوکسڈ رہتے ہیں ۔ اور یہ ایجنڈا کو ئی بھی ہو سکتا ہے ۔سیاسی سے غیر سیاسی تک ۔مگر زیادہ تر ایسے لوگ "سیاسی" ہو تے ہیں ۔ سیاست میں آکر یہ انسانیت کی خدمت کرنا چاہتے ہیں ،یہ اور باتہے کہ انسانیت کا دائرہ انکی اپنی ذات شریف یا اپنے خاندان کے انسانوںتک ہی محدود ہو تا ہے اور باقی انسانوں کو چارے کے طور پر استعمال کرنے کے فن میں مکمل طور پر طاق ہو تے ہیں ۔ یہ لوگ پیتھالوجیکل لائر ( جھوٹ بولنے کی عادت میں بیماری کی حد تک مبتلا ہو تے ہیں )۔ان کا حلقہ احباب بہت وسیع ہو تا ہے اور ان سے ہاتھ ملانے والے کو یہ سوچنا چاہیئے کہ" ہر ہاتھ ملانے والا دوست نہیں ہو تا" مگرجو ان سے ایک دفعہ ہاتھ ملا لیتا ہے اور بات کر لیتا ہے وہ انکی ریشمی باتوں کے جال میں الجھ جاتا ہے ۔ دوسرا انہیں جو مر ضی سمجھتا رہے کو پروا نہیں ہو تی کیونکہ یہ اپنی ذات کے علاوہ اور کسی کے بھی دوست نہیں ہو تے مگر کمال یہ ہے کہ ساری دنیا انہیں اپنا دوست سمجھتی ہے اور یہ اسی بات کا فائدہ اٹھا کر اپنی ہر جائز ناجائز ضرورت پو ری کرتے ہیں ۔ مو قعے کی مناسبت سے الفاظ کا چنائو ان پر ختم ہے کیونکہ بات صرف چنائو اور بولنے تک ہی ہو تی ہے ، وہ جو کہہ رہے ہو تے ہیں ان کا وہ مطلب ہر گز نہیں ہو تا جو سننے والا سن کر سمجھ چکا ہو تا ہے اور انہیں بڑا انسان تسلیم کر کے دل ہی دل میں انکی عظمت کو سات توپوں کی سلامی اور انکے قدموں کو بوسہ دے چکا ہو تا ہے ۔ وہ لوگوں کے کام بھی اسی سوچ کے ساتھ آتے ہیں کہ کل کو یہ کئے ہو ئے کام انکے کسی نہ کسی کام ضرور آئینگے ۔ اور وہ کام انکے بارے میں اچھی اچھی باتیں کرنا ان کیلئے فیس بک کے اچھے اچھے سٹیٹس لگانا اور انکی انسانیت کا جگہ جگہ دم بھرنا بھی ہو سکتے ہیں اور کوئی بڑے مادی کام بھی ۔۔ لیکن کام کر کے کام نکلوا ضرور لیتے ہیں ۔ ساری دنیا انہیں اپنا دوست لیکن دل ہی دل میں یہ سب کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں اور اس ناطے خود کودنیا کی مظلوم ترین مخلوق سمجھتے ہو ئے اپنے جھوٹ سے سب کو بے وقوف بنا کر کام نکلوانے کو اپنا حق سمجھتے ہیں اور یہ سیاسی لوگ صرف روایتی سیاستدان ہی نہیں بلکہ دفتروں میں بیٹھے سرکاری افسریا صحافی یا استاد یا گھر بیٹھی کوئی ساس ، نند ،بہو، داماد یا بہنوئی ۔ کوئی بھی ہوسکتے ہیں ۔ اور اس قسم کے لوگ اتنے فوکسڈ ہو تے ہیں کہ انکے علاوہ کسی کو خبر تک نہیں ہو تی کہ ان کا اصل فوکس کچھ اور ہے اور وہ کہہ کچھ اور رہے ہیں مختصرا ! فوکس ہے کوئی اور ، انہیں سمجھا جاتا ہے کوئی اور ۔۔
مذہبی لوگ : ان میں دو طرح کی قسمیں ہو تی ہیں ۔ ایک تو عام سے لوگ ہو تے ہیں جو مذہبی بھی ہوں تو بس ہوتے ہیں ۔ محفل میں بیٹھے ہوں تو پتہ بھی نہیں چلتا کہ کتنے کو مذہبی ہیں۔ بس اپنے مذہب کو اپنی قمیض کی جیب میں یا دوپٹے میں سنبھال کے چپکے سے بیٹھے رہتے ہیں انکا مذہب ان کا اور رب کے درمیان کا ہی بس معاملہ ہو تا ہے ،وہ اسے نہ دوسروں کو نیچا دکھانے کیلئے استعمال کرتے ہیں نہ خود کو اونچا ظاہر کرنے کیلئے۔ایسے نیک طبیعت لوگ دنیا سے تقریبا ختم ہو جانیوالی سپیشیز ہیں ۔ اور پھر ایک اور خاص قسم کے مذہبی لوگ ہوتے ہیں ، جن کی داڑھی یا حجاب ، نماز ، روزہ ، حج سب کے سب سیلفیاں لئے بغیر ادھورے ہیں ۔ وہ مذہب کے زور پر خود کو دوسروں سے برتر سمجھنے کی عادت میں اس قدر مبتلا ہوتے ہیں کہ انکی نظر میں ایک عام مسلمان یا غیر مسلمان کی وقعت نہیں ہو تی ۔موقع ملے تو وہ انہیں پیروں کے نیچے کچلنے میں ذرا بھی دیر نہ لگائیں ۔ انکے نزدیک جنت کا دروازہ کھلے گا تو بس ان ہی کیلئے انکے نزدیک باقی سب جس راستے پر چل رہے ہیں اسکا انجام دوزخ کے سوا کچھ نہیں،آگ کا یندھن ہیں باقی سب لوگ اور کچھ بھی نہیں کیونکہ قبر میں ہو نیوالے سوالوں کا پر چہ انکے پاس ہی آکر لیک ہوا ہے اس لئے وہ ہی اس امتحان کو پاس کر سکیں گے یا وہ لوگ جو ان کی بات کو سنتے اور انکے پیچھے آنکھیں بند کر کے چلتے ہیں ۔اگر کوئی آنکھ کھول کر چلے تو وہ بھی جہنمی ہی ہے ۔ وہ حضرت عمر ؓ کے پیوند لگے کرتے کی مثالیں بر ینڈیڈ کرتے پہن کر اور حضور پاک ﷺ کی کھانے پینے میں سادگی کی مثالیں لذیذ ترین ڈشز سے پیٹ بھر کر دیتے ہیں۔یہ تو ہو گئے عربی بولنے والے عامل فاضل مولوی ، ایک نئی طرز کے مولوی بھی ہیں ۔ وہ پہلے گا بجا کر یا اداکاری کر کے اپنا آپ منوا لیتے ہیں ۔ لوگ انکے چہرہ شناس ہو جاتے ہیں اور وہ لوگوں کے نبض شناس اور جیسے ہی یہ عمل مکمل ہوتا ہے وہ شوبز کو خدا حافظ کر کے اسی دائرہ اسلام میں پھر سے داخل ہو جاتے ہیں جو انکے بچپن میں ماں باپ اور مولوی انہیں سکھانے کی کوشش کرتے تھے مگر تب نٹ کھٹ ہونے کی وجہ سے وہ باتیں سمجھ نہیں پاتے تھے لیکن شوبز کے در کی برکت سے ان پر خدا کو جاننے کی جستجو سوار ہو تی ہے ، اور جیسے ہی انہیں یہ پتہ چلتا ہے کہ یہ کام ہو گیا ہے ، کایا پلٹ گئی ہے تو وہ یہ بات صیغہ راز میں نہیں رکھتے اورپہلے وقتوں میں پریس کانفرنس بلائی جاتی تھی ، اب تو ایک ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر ڈال دو ، مشہور تو آپ پہلے ہی ہو تے ہیں ، دنوں میں باعزت بھی ہو جاتے ہیں کہ پاکستان وہ مارکیٹ ہے جہاں سب سے مہنگے داموں بغیر مول تول کئے مذہب ہاتھوں ہاتھ بکتا ہے۔ توسمجھدار اورہشیار فنکار جب یہ دیکھتا ہے کہ اسکی لاکھ ہشاریوں کے باوجود نہ پیسہ اتنا آرہا ہے نہ عزت اتنی مل رہی ہے تو وہ مذہب کے برینڈ کو کیش کروانے نکل کھڑا ہو تا ہے کہ امیر اور باعزت ہونے کا اس سے آسان نسخہ کوئی نہیں ہے ۔ (جاری)

ای پیپر دی نیشن