امریکہ کے بانی رہنما انسانی حقوق اور اخلاقیات کو بہت اہمیت دیتے تھے۔ وہ ایٹمی اور کیمیائی ہتھیاروں کے خلاف تھے اور دنیا میں امن اور سلامتی قائم کرنے کے علمبردار تھے۔ رفتہ رفتہ امریکہ طاقت کے نشے میں اور پوری دنیا پر حکمرانی کرنے کے شوق میں ہتھیاروں کی برتری حاصل کرنے کے جنون میں مبتلا ہوگیا۔ امریکہ نے 2002 ء میں ایک خفیہ گرینڈ سٹریٹجی تیار کی جس کا انکشاف معروف مؤرخ آرم اسٹرانگ نے اپنے ایک آرٹیکل میں ان الفاظ میں کیا۔"گرینڈ سٹریٹجی اپنی انتہائی شکل اختیار کرے گی۔ اگرچہ امریکہ کی نئی سکیورٹی حکمت عملی کا منصوبہ یہ ہے کہ امریکہ دنیا پر حکمرانی کرے۔ خفیہ مقصد ایک طاقت کی بالادستی ہے اور یہ بالادستی کی کہانی ہے۔ گرینڈ سٹریٹجی امریکہ کو مشورہ دیتی ہے کہ وہ اپنی مکمل گرفت قائم رکھے اور اپنے ایسے مخالفین کا راستہ روکے جو اس کو عالمی سطح پر چیلنج کر سکیں۔ یہ رپورٹ دوستوں اور دشمنوں دونوں پر تسلط کا مشورہ دیتی ہے۔ یہ نہیں کہتی کہ امریکہ زیادہ طاقتور یا طاقت ور ترین ہو بلکہ مکمل طاقتور بننے کا سبق دیتی ہے"امریکہ نے اسی حکمت عملی کے تحت عراق افغانستان اور مشرق وسطیٰ کے مختلف ممالک پر حملے کئے اور ان کو عدم استحکام کا شکار کر دیا۔ طاقت کے زعم میں اس نے اقوام متحدہ کو بھی نظر انداز کر دیا۔ امریکہ کی تاریخ کے بدترین حکمران صدر ٹرمپ نے ایران کے مقبول جرنیل قاسم سلیمانی کو ڈرون حملے سے شہید کر کے پوری دنیا کے امن کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ ایران نے امریکہ کے اس بلاجواز حملے کو سنگین غلطی قرار دیتے ہوئے اس کا بدلہ لینے کا اعلان کردیا ہے۔ ایرانی شہر قم پر سرخ رنگ کا پرچم لہرا دیا گیا ہے جو اس بات کی علامت ہے کہ ایران حالت جنگ میں ہے۔ اس افسوسناک اور قابل مذمت حملے کے بعد امریکہ میں صدر ٹرمپ کی مخالفت میں مزید اضافہ ہوگیا ہے جبکہ ان کو پہلے ہی مواخذے کی تحریک کا سامنا ہے۔ انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ ایک بڑی طاقت کا صدر اپنی مرضی اور منشا سے ایسے فیصلے کر رہا ہے جو امریکہ کے مستقبل کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔ اگر امریکہ نے نائن الیون کے المناک واقعہ سے سبق سیکھا ہوتا تو وہ اپنی عالمی حکمت عملی میں تبدیلی لاتا مگر حقیقت یہ ہے کہ امریکہ کے صدر ٹرمپ انتہا پسندی اور دہشت گردی کو فروغ دینے کا سبب بن رہے ہیں۔ عراق اور افغانستان میں طویل ناکام جنگ لڑنے کے باوجود امریکی صدر نے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ امریکہ کے معتبر اخبار واشنگٹن پوسٹ میں افغانستان کے متعلق خفیہ پیپرز شائع ہو چکے ہیں جن میں انکشاف کیا گیا کہ صدر بش سے لے کر صدر اوباما اور صدر ٹرمپ تک امریکی عوام سے یہ جھوٹ بولتے رہے کہ امریکہ افغانستان میں جنگ جیت رہا ہے۔ خفیہ پیپرز کے مطابق وہ افغانستان میں جنگ ہار رہا تھا۔
پاکستان کے جاہ پرست آمر جرنیل اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے پرائی جنگیں لڑتے رہے جن کی وجہ سے سے پاکستان کو ناقابل تلافی جانی و مالی نقصان برداشت کرنا پڑا۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے سپہ سالار کا منصب سنبھالنے کے بعد معروضی حالات اور پاکستان کے مستقبل کے تقاضوں کا درست ادراک کرتے ہوئے ایک نیا ڈاکٹرائن تشکیل دیا جسے باجوہ ڈاکٹرائن کا نام دیا گیا۔ اس ڈاکٹرائن کے مطابق ریاست نے فیصلہ کیا کہ پاکستان آئندہ کبھی کسی پرائی جنگ میں شامل نہیں ہوگا اور نہ ہی وہ کسی جنگ کا حصہ بنے گا بلکہ کہ پاکستان کے اندر اور پاکستان کے باہر عالمی امن کے قیام کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھے گا۔ دہشت گردی کے خلاف طویل جنگ کے پس منظر میں عالمی لیڈروں نے باجوہ ڈاکٹرائن کو تسلیم کیا جس کے خدوخال قومی مفاد اور سلامتی کے تقاضوں کے مطابق تشکیل دئیے گئے۔ جنرل قاسم سلیمانی پر حملہ کے بعد امریکہ کے وزیر خارجہ پومپیو نے پاکستان کے سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ سے ٹیلی فون پر گفتگو کی جس کے بعد پورے پاکستان کے سوشل میڈیا پر مختلف قسم کی افواہیں پھیلنے لگیں جن کے بعد ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے جچے تلے بیان میں وضاحت کی کہ پاکستان کا موقف بڑا واضح اور دوٹوک ہے کہ ہم اپنی سرزمین کو کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے نہ ہی کسی جنگ میں شریک ہوں گے، البتہ عالمی امن کی کوششوں میں پاکستان اپنا کردار ادا کرتا رہے گا۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے امریکی وزیر خارجہ کو باور کرایا کہ افغانستان میں امن کے قیام کی کوششیں آخری مراحل میں داخل ہو چکی ہیں۔ ان حالات میں پاکستان کو کشیدگی سے الگ تھلگ رہنا چاہئے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کے وضاحتی بیان کے بعد پاکستان کے عوام کو یقین ہوگیا کہ پاکستان باجوہ ڈاکٹرائن پر ثابت قدمی کے ساتھ کاربند رہے گا۔
پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی سینٹ میں پالیسی بیان دیتے ہوئے اس عزم کو دہرایا ہے کہ پاکستان کسی جنگ کا حصہ نہیں بنے گا اور نہ ہی اپنی سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال ہونے کی اجازت دے گا۔ امریکی صدر ٹرمپ کے جنون کی وجہ سے مشرق وسطیٰ کی صورتحال تشویشناک ہوتی جارہی ہے۔ دنیا کے بڑے ملکوں نے کشید گی کو ختم کرنے کے لیے کوششوں کا آغاز کر دیا ہے۔ بڑے ممالک تیل کی سپلائی کی وجہ سے مشرق وسطیٰ میں کسی قسم کی جنگ کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ ایران ایک خوددار اور باغیرت قوم ہے۔ وہ مناسب وقت پر امریکی صدر کی مہم جوئی کا بدلہ ضرور لے گی تاکہ آئندہ امریکہ کو اس نوعیت کی مہم جوئی کی جرأت نہ ہو۔ ایران نے عراق کے خلاف دس سال جنگ لڑی تھی اور حوصلہ نہیں ہارا تھا۔ عالم اسلام کے تمام ملکوں کا یہ فریضہ ہے کہ وہ امریکہ کی دہشت گردی کا راستہ روکنے کے لئے ملی غیرت کا مظاہرہ کریں اور امریکہ کے سہولت کار نہ بنیں۔ اگر وہ امن کے لیے متحد ہوجائیں تو امریکہ مشرق وسطیٰ میں کسی قسم کی جارحیت کی جرات نہیں کر سکے گا۔ جب تک مسلمان ممالک تقسیم ہیں۔ امریکہ ان کی کمزوری سے فائدہ اٹھاتا رہے گا اور ایران کے بعد کسی اور مسلمان ملک کی باری بھی آسکتی ہے۔ امریکہ کے اپنے مفاد میں ہے کہ وہ اب دنیا کی تھانے داری کا خواب چھوڑ دے اور جیو اور جینے دو کی پالیسی پر عمل کرے۔ چین کی قیادت نے دلیری اور جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے امریکہ کو انتباہ کیا ہے کہ وہ طاقت کا استعمال نہ کرے۔ پاکستان کے عوام کو بھی اب بے حسی سے باہر نکل آنا چاہیے۔ ان کو آنے والی نسلوں کے لیے پاکستان کی سلامتی میں دلچسپی لینی چاہئے اور اس عزم کا برملا اور توانا اظہار کرنا چاہیے کہ پاکستان کے عوام اب کسی صورت حکومت اور پاک فوج کو پرائی جنگ کا حصہ بننے کی اجازت نہیں دیں گے۔ عوام کی بے حسی پاکستان کی سلامتی اور آزادی کے لیے سکیورٹی رسک بنتی جا رہی ہے۔ ان کو اپنے ملک کے دفاع اور سلامتی کے لیے سرگرم کردار ادا کرنا ہوگا اور اپنی رائے کا کھل کر اظہار کرنا ہوگا تاکہ ریاست کے اداروں پر عوام کا دباؤ برقرار رہے اور باجوہ ڈاکٹرائن کسی صورت تبدیل نہ کیا جاسکے۔
٭…٭…٭