نیٹو افواج کا عراق سے انخلا شروع

عراقی فوج کو داعش کے خلاف لڑنے کی ٹریننگ دینے والی اتحادی افواج نیٹو کا کہنا ہے کہ انہوں نے ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد اپنے فوجیوں کو عراق سے واپس نکالنا شروع کردیا ہے۔

نیٹو کی جانب سے یہ فیصلہ ایران اور امریکا کے درمیان ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد پیدا ہونے والی کشیدگی کی صورتحال کے پیش نظر کیا گیا ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق نیٹو کے سیکریٹری جنرل جینز اسٹولٹین برگ نے اعلان کیا ہے کہ مقامی فوجی کی تربیت کو عارضی طور پر معطل کردیا گیا ہے۔

نیٹو اہلکاروں کی سیکیورٹی کے لیے ادارے کا کہنا تھا کہ وہ احتیاطی تدابیر پر عمل کریں گے جن میں چند اہلکاروں کو عارضی طور پر عراق کے اندر اور باہر مختلف مقامات پر منتقل کریں گے'۔

حکام کا کہنا تھا کہ 2018 سے تربیتی آپریشنز چلانے والے نیٹو کی عراق میں موجودگی بر قرار رہے گی اور عالمی سطح پر دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے پرعزم ہیں۔

تاہم انہوں نے فوجیوں کی منتقلی کے مقام کے حوالے سے معلومات فراہم کرنے سے انکار کیا۔

خیال رہے کہ چند نیٹو ممالک جن میں کینیڈا، جرمنی اور کروشیا شامل ہیں، نے سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر عراق سے نیٹو افواج کو نکالنے کا پہلے ہی اعلان کررکھا ہے۔

کینیڈا کے اعلیٰ فوجی حکام جنرل جوناتھن وانس نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بیان جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اپنے 500 اہلکاروں کو کویت منتقل کر رہے ہیں۔

جرمنی کی وزارت دفاع اور خارجہ نے جرمن پارلیمنٹ کو مشترکہ خط لکھ کر بتایا کہ 120 میں سے 30 جرمن فوجیوں کو عراق سے نکال کر اردن اور کویت منتقل کیا جائے گا جبکہ دیگر شمالی عراق کے کرد حصے میں رہیں گے۔

خط میں کہا گیا تھا کہ 'جب تربیت کا عمل دوبارہ بحالی کے قابل ہوگا تو فوجی اہلکاروں کو واپس تعینات کردیا جائے گا'۔

کروشیا کی وزارت دفاع کا کہنا تھا کہا کہ انہوں نے اپنے 14 فوجی اہلکاروں میں سے 7 کو کویت منتقل کیا ہے جبکہ دیگر کو گھر بھیج دیا گیا ہے۔

دوسری جانب پینٹاگون نے خطے میں ساڑھے 4 ہزار اضافی امریکی فوجیوں کی تعیناتی کا فیصلہ کیا ہے۔

خیال رہے کہ امریکا کے 50 ہزار سے زائد فوجی اہلکار پہلے ہی عراق میں موجود ہیں۔

واضح رہے کہ ایران نے اپنے انتہائی اہم کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کی امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد 8 جنوری کو عراق میں 2 فوجی اڈوں کو نشانہ بنایا تھا جہاں امریکی اور اتحادی افواج موجود ہیں۔

امریکا نے حملے کے حوالے سے کوئی تفصیلات فراہم نہیں کی تھیں بلکہ ان کا کہنا تھا کہ نقصانات اور ہلاکتوں کا جائزہ لے رہے ہیں۔

دوسری جانب ایران کے سرکاری ٹیلی ویژن نے فوجی اڈوں پر حملے کے نتیجے میں 80 ’امریکی دیشت گرد' ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔

ای پیپر دی نیشن