ٹرمپ کے حامیوں کے کانگریس پر چڑھ دوڑنے سے امریکی جمہوریت کو سخت دھچکا لگا 

اسلام آباد ( جاوید صدیق) امریکہ کی گذشتہ ایک سو سال کی تاریخ میں صدارتی انتخاب میں شکست کھانے والے امیدواروں نے اپنی شکست کو باوقار اندازہ میں تسلیم کیا ہے، ہارنے والے صدارتی امیدوار جیتنے والے کو مبارکباد کا پیغام دیتے رہے۔ یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ امریکہ کے موجودہ صدر ٹرمپ نے اپنے حریف جو بائیڈن کی فتح کو انتخابات کے دوران ہی متنازعہ بنانے کی کوشش کی اور انتخابی نتائج کو عدالتوں میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا۔ انھوں نے نتائج کو عدالتوں میں چیلنج کیا لیکن انھیں کوئی ریلیف نہ ملا حتیٰ کہ وہ سپریم کورٹ بھی گئے، وہاں بھی ان کی دال نہ گلی۔ امریکہ کی تاریخ میں سب سے پہلے 1896 میں ہارنے والے صدارتی امیدوار ولیم جیننگز نے شکست کھانے کے بعد اپنے حریف ولیم میکنلے کو مبارکباد کا پیغام دیا۔ اس پیغام میں ولیم جیننگز نے کہا کہ امریکی عوام کی رائے میرے لئے قانون کا درجہ رکھتی ہے۔ اس وقت سے لے کر اب تک صدارتی انتخابات میں روایت یہی رہی ہے کہ شکست کھانے والا امیدوار اپنی شکست کو فوری طور پر تسلیم کرتا ہے اور مخالف کو مبارکباد دیتا ہے۔ جب کوئی صدر شکست کھاتا ہے تو وہ جیتنے والے اپنے جانشین کیلئے انتخابات کا بھی اہتمام کرتا ہے۔ جیتنے والے امیدوار کی ٹیم وائٹ ہائوس سے رابطے میں رہتی ہے۔ پہلی مرتبہ صدر ٹرمپ نے اپنے مخالف امیدوار کو نہ مبارکباد دی اور نہ شکست تسلیم کی۔ انھوں نے اپنے جوشیلے حامیوں کو واشنگٹن بلایا اور اپنے ٹویٹس کے ذریعے انھیں اکسایا جس کے نتیجے میں وہ امریکی کانگرس پر چڑھ دوڑے۔ امریکی کانگرس کے ارکان جان بچانے کیلئے ادھر ادھر بھاگتے رہے۔ یہ امریکی تاریخ کا ایک بدقسمت واقعہ ہے جس سے امریکی کی جمہوریت کو سخت دھچکا لگا ہے۔ 

ای پیپر دی نیشن