کفنائے ہوئے لوگ 

کبوتر اور کبوتری نے اپنے بچوں کو محفوظ رکھنے کیلئے گدھ اور سانپ سے دوستی کی اور شکاری کو مار بھگایا اور شکاری کے جال میں قید کبوتر دانا کبوتر کی بات مان کر جال سمیت اڑ گئے۔ لیکن زندگی کی کہانی بڑی پیچ دار ہے۔یہاں سانپ سے زیادہ زہر شکاری میں ہے۔اس کے ہاتھ ایسی ٹارچ ہے جس سے وہ لمحوں میں ماضی سے حال کا جال بن سکتا ہے۔جس میں کبوتر ، طوطا ،مینا ،فاختہ ،چڑیا سے لے کر درندے بھی قید رکھتا ہے۔اور ہمارے پاس وہ دانا کبوتر بھی نہیں جو ہمیں جال سمیت پرواز پہ مائل کرے۔ہم نے سب کہانیاں پڑھ رکھی ہیں لیکن سوچ کی پرواز جال کے دھاگوں میں الجھی ہے۔اور ہم دانہ سمجھ کر پتھروں سے جال بھاری کیے جا رہے ہیں۔مذہب کی شناخت نے ہمارے دماغ " لال پیلے " کر دیے ہیں اور جال میں قید پرندے قصائی بن چکے ہیں۔
 سانحہ ، حادثہ، واقعہ ہر بار نئے انداز سے نقب لگتی ہے ،راہزن کبھی مخبر اور کبھی امین بن کر انسانیت کو قربان کرتے ہیں۔کربلا کی یاد میں کتنے ہی گھروں میں کربلا برپا کی جاتی ہے جس کے اثرات آنے والی نسلوں تک پہنچائے جاتے ہیں۔نوحہ گر ماتم مناتے ہیں اور ایک نئے سانحہ کی بنیاد رکھتے ہیں۔ جو چاہے مذہب کا لبادہ اوڑھ کر صوفی بن جائے۔جو چاہے عالم بن جائے۔ایسا زہد جنم لے رہا ہے جس کے لیے پارسائی کی شرط بے معانی ہے۔ہمیں مذہب سے سروکار بھی نہیں۔ ایمان کم زور ہو تو کوئی بات نہیں۔اخلاق سرے سے معدوم ہو تو بھی چلے گا۔انسانیت کی رمق بھی نہ ہو تو بھی قابل قبول ہے۔ لیکن مذہب کا ہتھیار اٹھانا ضروری ہے۔دوسروں پہ اپنی پارسائی کا ڈھونگ اس انداز سے طاری کرنا کہ وہ سمٹ کر رائی بن جائے۔ اب مذہب کے نام پہ صرف سیاست ہوتی ہے اور ہو رہی ہے۔ادبی سیاست ، تعلیمی سیاست ، گروہی سیاست ، فرقہ بندی اور نسل پرستی کی سیاست۔ہر گروہ جنگل کے اصول پر اپنی بقا کے لیے سرگرم ہے۔وہ شیر نہیں لیکن ڈبنگ سے شیر کی طرح دھاڑتا ہے اور اندھے معتقدین روشن خیالی کو کفر سمجھتے ہیں۔اجتہاد کو بدعت اور سوچ کے نئے زاویوں کو بے حیائی کا نام دے کر چڑھ دوڑتے ہیں۔یہ لڑائی کبھی جنس کی بنیاد پر لڑی جاتی ہے۔یہاں دانش ور حیا دار اور بے حیا عورتوں کی تخصیص کے لیے نت نئے فارمولے وضع کرتے ہیں۔کہیں "میرا جسم میری مرضی" کو لبرل لباس پہنا کر جوتیاں برسائی جاتی ہیں اور کہیں میرا عقیدہ میری مرضی کو خون میں نہلایا جاتا ہے۔ لیکن مرنے والوں کا لہو اتنا ارزاں کیسے ہوا۔اس پر ان کا فارمولا ابھی راستے میں ہے۔ ہر جگہ مسلک کی ٹافیاں بانٹی جا رہی ہیں اور یہ بھی تاکید ہے کہ اس کا ریپر نہیں کھولنا۔ اس کے بھرشٹ ہونے کا خطرہ بے خطر ایسی آگ میں کود جانے کا اشارہ دیتا ہے جو ہر طرف پھیلائی جا سکتی ہے۔مسلک ، فرقہ اور گروہ میں ہم نے جانوروں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔سیاست سیاست کے کھیل میں دانش ور گدھ کو خوب صورت لبادہ پہنا کر شاہین ثابت کرنے پہ تلے ہیں۔شخصیات کا کرڑما اور سحر طاری کرنے میں ہلکان ہوئے جا رہے ہیں۔ مزاحیہ انداز میں چیختے سیاست دان کے تدبر کو ہوا بتایا جاتا ہے لیکن مرنے والوں کو انسان ثابت کرنا کس قدر دشوار ہو چکا ہے۔ اس کی اذیت آج تک سمجھ نہیں آ سکی۔ دہائی دیتے دل ،لہو رنگ آنکھیں تڑپتے ،بلکتے الفاظ وہ سب بتا ہی نہیں سکتے۔اذیتوں کے اس جنگل میں جب آدم خور جانور کسی کی نعش کو بھی چیر پھاڑ دیتا ہے تو اسے کہتے ہیں جنگل کا قانون. وہاں کوئی منصف نہیں ، کوئی گواہی قابل قبول نہیں، کوئی مدعا اور کوئی مدعا الیہ نہیںگویا وہاں مظلوم کو بھی خبر ہے کہ ایک نہ ایک دن اسے کوئی طاقت ور بھنبھوڑ دے گا لیکن وطن عزیز تو جنگل نہیں پھر جنگل کا قانون یہاں نافذالعمل ہے. دس کان کن زندہ انسان تھے پھر انہیں بھی بھنبھوڑ دیا گیا. ان مظلوموں کو خبر نہیں تھی کہ درندے ان کا خون پئیں گے. اب ان کے لاشے زندہ درگور ہیں کیوں کہ ریاست مدینہ کے دعویدار اب کس کس فریادی کو انصاف دلائیں گے. وہ بھی انسان ہیں آخر، ایسی خبریں ان کے اعصاب پر کوڑے برساتی ہیں. پھر روزانہ ان جیسے کئی لاشے خون تھوکتے ہیں اب سب کی داد رسی تو ممکن نہیں. لیڈران کے بیان بھونڈا مذاق لگتے ہیں کہ اپنی بیٹی کی بات مان کر اپنے پیاروں کو دفن کر دیں۔ کیا ہم سے یہی تقاضا ہوتا رہے گا کہ " مٹی پاؤ"۔ کہیں دفن ہو جائیں اور کہیں دفن کرتے رہیں۔ لیکن بھڑکتی آگ پر تو کسی نے مٹی نہیں ڈالی۔ کبھی جنگل کے اندھیرے ہم سب جانوروں کے منتظر ہیں، لوٹ آو کہ یہاں شکار ہونا ہی سب کا مقدر ہے.ہم سب کو شکر کرنا چاہیے کہ ہم دفن نہ بھی ہوں کفنائے ہوئے تو ہیں۔
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن