تہذیب و شائستگی اور فکری زاویوں کا پہرے دار 

کلام سعید کا مطالعہ کرتے ہوئے مجھے حیرانگی تو اس بات پر ہوئی کہ کہاں اداریہ نویسی ایسی قلب و نظر کو ایک طے شدہ پالیسی میں چلانے اور ڈھالنے والی ذمہ داریاں اور کہاں شاعری کے جھمیلے ، اور بے ہنگم و بے کناروبے قابو طلاطم خیزیاں کہ آدمی سنبھلنے نہ پائے، بلکہ ہچکولے اور ڈبکیاں کھاتے کھاتے شاعری کے سمندر میں ہی ڈوب جائے اور پھر شاعری کے سمندر کا ایسا تیراک جس نے کسی ماہر اور مشاق تیراک کے سامنے زانوے تلمذ بھی طے نہ کیے ہوں ، شاعری کے سمندر میں غوطہ زنی بھی ایسی مشاقی اور مہارت سے کرتا ہے کہ تہہ سمندر سے لعل و گوہر بھی نکالتا ہے اور اپنی تردامنی پر کسی کی نظر بھی نہیں پڑنے دیتا۔ میں نے جب سعید آسی صاحب کے شاعری کے مجموعے کلام سعید کی اشاعت پر مبارک دی تو بے ساختہ میری زبان سے نکلا۔ اُستاد محترم ’’آپ تو چھپے رُستم نکلے‘‘ ہم تو ایک نہایت مہذب (گستاخی معاف! اس سے ہرگز یہ مراد نہیں کہ شاعر مہذب نہیں ہوتا ہے) ، خاموش طبع اُجلی طبیعت اور اُجلے لباس میں ملبوس سعید آسی صاحب کو جانتے تھے جن کا قلم میدان سیاست کی بے رحمی اور چیرہ دستیوں کے اندر سے بھی محبت اور ملاپ کے راستے تلاش کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ وہ دوست اور دشمن دونوں کو اپنی ’’بیٹھک‘‘ میں بٹھا کر محبت کا ایسا جادو کرتے ہیں کہ دشمن بھی دوستی کا دم بھرنے لگتا ہے اور دوست جگری دوست کا رُوپ دھارے نظر آتا ہے۔ جن کے قلم زود اثر سے نوائے وقت ایسے نظریاتی ، حساس اور خبردار اخبار کے پُراثر ادارئیے ملک بھرکے سیاسی ، علمی ادبی اور دفاعی حلقوں میں مقبولیت کے ریکارڈ قائم کر چکے اور سب سے اہم بات مرشد صحافت مجید نظامی مرحوم کا ا’ن پر وہ اعتماد ہے جو ہر کسی کو حاصل نہ ہو سکا۔ عزیزہ رمیزہ مجید نظامی صاحبہ نے بھی اپنے عظیم والد گرامی کے اعتماد کو تقویت کے ساتھ آگے بڑھایا ہے۔ 
فکر و نظر اور تفکرو تدبر کے چمن کا باسی نظم و غزل اور قطعات و رباعیات کے پرخار میدان میں بھی چاک پیراہن چاک دامن اور چاک گریبان کیے بغیر اپنی تہذیب و شائستگی اور اپنے فکری زاویوں کا پہرے دار بنا نظر آتا ہے۔ دوستوں کو اپنی دیوانگی بھی فرزانگی کے رُوپ میں پیش کرتا ہے۔ اور ہر روز نوائے وقت کے فکر انگیز اداریوں کے ذریعے فکر و نظرکے نئے گوشے قوم پر وا کرتا ہے۔ اپنی بیٹھک کو علم و ادب ، سیاست و صحافت تدبر و لیاقت کے پھولوں سے معطر رکھتا ہے۔ 
 سعید آسی صاحب کی شاعری کے مدوجزر تو بہت زیادہ ہیں اُس میں کہیں چاشنی ہے تو کہیں تلخی ، کہیں راحت ہے تو کہیں بے چینی ، زندگی کی تلخیوں اور آسودگی میں جناب شاعر آسی صاحب کس سٹیج پر کھڑے نظر آتے ہیں۔ اُن کا کلام ملاحظہ ہو:
پکڑ تو لوں میں کسی بے وفا کے دامن کو 
پر اس سے بھی تو مداوائے غم نہیں ہوتا 
ملا ہے درد جو اس سگندل زمانے میں 
کسی بھی حیلے بہانے سے کم نہیں ہوتا 
آگے فرماتے ہیں: 
لُٹا چکا ہوں سبھی زندگی کی خوشیوں کو 
اب اور اس سے زیادہ ستم نہیں ہوتا 
کہ اب حضور، میرے اپنے دل کا افسانہ 
بصد خلوص بھی مجھ سے رقم نہیں ہوتا 
اور مزید اُنکی بے چینیوں کا اور ان کی دل کی کیفیات کا اندازہ ان اشعار سے آپ کر سکتے ہیں:
جیوں تو کس کے لیے ، نہ جیوں تو کس کے لیے 
جو جی رہا ہوں تو یوں ہے کہ جینا پڑتا ہے 
سکوں ملے نہ ملے ، پر تیری خوشی کی قسم 
دلوں کا زخم کسی وقت سینا پڑتا ہے 
میرے حضور، کسی وقت تیرے ہاتھوں سے 
ملے جو زہر تو بے خوف پینا پڑتا ہے 
اب اس میں شرم و حیا کا تقاضہ کیا ہو گا 
کہ رکھ رکھائو سے بھی دل کمینہ پڑتا ہے 
مزید دلی کیفیات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: 
غم کی حقیقتوں سے یہ دل روشناس ہے 
جب ہی تو ہر حسین سا لمحہ اُداس ہے 
بربادیاں ہی مجھ پہ مسلّط ہوئیں مگر 
بربادیوں کا روگ مجھے بھی تو راس ہے 
ایسانہ ہو کہ لوگ دِوانہ کہیں تجھے 
تیری نظر بھی آج سے کچھ بدحواس 
آنکھوں سے آنسوئوں کا نکلنا نہیں فضول 
یہ تومیرے جلے ہوئے دل کی بھڑاس ہے 
تیرے بغیر بھی تو یہ محفل جمی ہے خوب 
دیوانگی ہے ، رات ہے ، فرقت ہے ، یاس ہے 
آسیؔ ہنوز تیرا مقدر نہیں کھلا 
گو کامیابیوں کا ستارہ بھی پاس ہے 
اور یہی وجہ ہے کہ ایک جگہ فرماتے ہیں:
ایسا ہے کون آسیؔ ، کہ اپنا کہیں جسے 
بیگانگی چھپی ہے سبھی آشنائوں میں 
اپنے دل کی نزاکتوں کا اعلان وہ ان اشعار میں کرتے سنائی دیتے ہیں:
شور میں کچھ سنائی دیتانہیں 
راستہ بھی دکھائی دیتا نہیں 
ہر کوئی اس کے ساتھ لگتا ہے 
کوئی میری صفائی دیتا نہیں 
درد سے چور ہے بدن سارا 
دل ہے ، پھر بھی دُہائی دیتا نہیں 
ہے مقدر میں اتنی ویرانی 
راستہ تک سجھائی دیتا نہیں 
دل پہ جو واقعہ گزرتا ہے 
مجھ کو آسیؔ بُھلائی دیتا نہیں 
سعید آسی صاحب کی شاعری دراصل اُن کی دلی کیفیات کی عکاسی ہے۔ حالات کے چرکے ، اپنوں کے تیر اور غیروں کے زخم ، آشنائوں کی ناآشنائیاں ، جن پہ ناز تھا اُن کی بے وفائیاں ، سعید آسی صاحب کی شاعری میں آپ کو یہ سب ملے گا۔ لیکن وہ کسی سے کھلے نہیں۔ وہ بے وفائیوں کاتذکرہ کرتے ہوئے کچھ نزاکتیں بھی دل سے باہر لے آئے ہیں۔ کہتے ہیں:
تمہارا خط نہیں آیا 
بہت دن ہو چکے جاناں 
انہیں کیسے بھلائوں میں 
جو غم تم نے دئیے جاناں 
زمانہ مجھ کو تڑپائے 
تیرے ہوتے ہوئے جاناں 
کبھی تھیں قربتیں اتنی 
اب اتنے فاصلے جاناں 
مجھے تم سے محبت ہے 
بس اتنا کہہ سکے جاناں 
ترا سائل ہوں میں آسیؔ 
خوشی کی بھیک دے جاناں 
ان اشعار میں سادگی اور بے ساختگی نمایاں نظر آ رہی ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ دل کے تہہ خانے میں بہت کچھ چھپائے بیٹھے ہیں گویا مجنوں کو یہ پیغام دیتے ہوئے نظر آ رہے ہیں کہ…؎
اندازِ جنوں کون سا ہم میں نہیں مجنوں 
پر تیری طرح عشق کو رسوا نہیں کرتے 
قارئین محترم!
یہ کتاب قلم فائونڈیشن انٹرنیشنل ، یثرب کالونی ، بنک سٹاپ، والٹن روڈ لاہور کینٹ کی طرف سے شائع کی گئی ہے۔ جسے ملک بھر کے ادبی ، علمی اور سیاسی حلقوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا ہے۔ 

ای پیپر دی نیشن