کراچی کو روشنیوں کا شہر بنانے تک تحریک جاری رہے گی

Jan 08, 2022

کراچی (نیوز رپورٹر)جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سراج الحق نے اعلان کیا ہے کہ جب تک کراچی کو روشنیوں کا شہر نہیں بنائیں گے ہماری تحریک جاری رہے گی ،کراچی سے چترال تک پوری قوم سے اپیل کرتا ہوں کہ اہل کراچی کے حق کے لیے گھروں سے نکلیں ،اتوار9جنوری کو پورے ملک میں کراچی کے عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا جائے گا ، پیپلزپارٹی کالے بلدیاتی قانون کے خلاف احتجاج کرنے والوں سے مذاکرات کرے اوراس قانون پر نظر ثانی کرلے اور ایسا قانون بنائیں جس سے ملک کے سب سے بڑے شہر اور معاشی واقتصادی شہ رک کراچی کے تین کروڑسے زائد عوام کو فائدہ ہو، یہ کیسا قانون ہے کہ پشاور میں براہ راست میئر انتخاب کیا جاتا ہے اور سندھ میں ایسا قانون بنایا گیا ہے کہ جس کے میئر کو برارہ راست منتخب نہیں کیا جارہا ۔ہمارا مطالبہ ہے کہ کراچی میں بااختیار شہری حکومت اور میئر کا انتخاب براہ راست کروایا جائے ،کراچی کی حیثیت ایک ماں کی سی ہے ،کراچی اندھیروں میں رہے گا تو پاکستان بھی ترقی نہیں کرے گا ،ہم ایک بااختیار شہری حکومت چاہتے ہیں جس کے میئر کے پاس تمام اختیارات ہوں، موجودہ کالے بلدیاتی قانون میں وہ نظام موجود نہیں جو آئین کے آرٹیکل 140-Aکا کہنا ہے ،جماعت اسلامی کی جدوجہد کراچی ،اسلام آباد،گوادر یہ کسی اور شہر میں ہو یہ ظلم و استحصال کے خلاف ہے کسی پارٹی کے خلاف نہیں ،پورے سندھ میں غربت ناچ رہی ہے اور جہالت کے اندھیرے ہیں ،پیپلزپارٹی سن لے کہ اب تمہاری سیاست شہیدوں کے نام پر نہیں چلے گی ،اب کراچی سمیت پورا سندھ بیدار ہوگیا ہے ۔ان خیالات کااظہار انہوں نے جماعت اسلامی کے تحت سندھ اسمبلی کے باہر کالے بلدیاتی قانون کے خلاف مسلسل دھرنے کے آٹھویں روز جمعہ کی شب شرکاء دھرنا سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔دھرنا ایک بڑے جلسہ عام میں تبدیل ہوگیا جس میں خواتین اور بچوں نے بھی شرکت کی ۔سراج الحق نے کہاکہ جماعت اسلامی کراچی کی عظیم الشان جدوجہد اور سخت سردی و بارش کے باوجود مسلسل اور طویل دھرنے پر خراج تحسین پیش کرتا ہوں ،آج کا دھرنا جماعت اسلامی کے لیے نہیں بلکہ کراچی کے محروم و مظلوم عوام کے لیے ہے ،تین کروڑ عوام پر مشتمل شہر کے عوام کی نہ سننا سندھ کے عوام کے ساتھ ظلم اور نصف آبادی کو اس کے حق سے محروم کرنا ہے ، پیپلزپارٹی ذوالفقار شہر ضرور آباد کریں لیکن اس سے پہلے اندرون سندھ سمیت کراچی شہر کو سنواردو ،دنیا میں 17بڑے شہر سمندر کے ساحلوں پر آباد ہیں ،کراچی دنیا کا ساتواں بڑا شہر ہے ، ساڑھے تین کروڑ ساحل سمندر کے کنارے رہنے والے شہری ہیں،جماعت اسلامی نے ماضی میں بھی شہرکی خدمت کی اور آج بھی اقتدارمیں نہ ہونے کے باوجود خدمت کررہی ہے ، سابق جنرل پرویز مشرف بھی جماعت اسلامی کی خدمات پر اعتراف کرتے ہیں ،جب ہم صاف پانی ،سڑکوں کی تعمیر،کالجز،اور اسپتالوں کا مطالبہ کرتے ہیںتو عوام کے لیے کرتے ہیں ،عوام کا تعلق تمام سیاسی پارٹیوں سے ہیں کسی ایک پارٹی سے نہیں ، اگر کراچی ترقی کرے گا تو ہر سیاسی پارٹی کا ورکر کامیاب ہوگا ،انسان مریخ جارہا ہے اور ہمارے شہر میں گٹر اور پینے کا پانی ایک ہی پائپ لائن سے گزررہا ہے ،پیپلزپارٹی نے بلدیاتی اداروں اورمیئر کے تمام اختیارات غصب کر کے وزیر اعلیٰ کو دیے ہیں ، ہم پوچھنا چاہتے ہیں کہ آپ کو مزید کتنے اختیارات چاہیئے ، ایک طویل عرصے سے پیپلزپارٹی سندھ پر حکومت کررہی ہے ،پیپلزپارٹی بتائے کہ سندھ کے شہر حیدرآباد ، سکھر ،لاڑکانہ ، جام شوروسمیت دیگر شہروں میں ترقی کیوں نہیں ہوئی ، پیپلزپارٹی نے کرپشن اور لوٹ مار کے سواکوئی ترقی نہیں کی ،پیپلزپارٹی نے کراچی اور سندھ کی ڈسپنریاں کو وڈیروں اور جاگیرداروں کے کرپشن کے اڈے بنائے ہیں،انگریز کے زمانے میں سکھر اور کوٹہری براج بنا تھا ،آج تک سندھ حکومت نے ایک بھی پروجیکٹ نہیں بنایا،وی آئی پی ،ظالم جاگیردار طبقہ پاکستان کے آئین و قانون کو نہیں مانتے ،قومی آمدنی میںعوام نے تو ٹیکس دیا لیکن جاگیرداروں ،وڈیروں اور سرمایہ داروں نے ٹیکس نہیں دیا ،پاکستان کو مدینہ کی اسلامی ریاست بنانے والوں نے سود کا نظام نافذ کیا ہے ،جو وکلاء سودی نظام کے خلاف دلائل دیتے تھے آج وہی وکلاء سود کی حمایت میں دلائل دیتے ہیں ، سودی نظام کے ساتھ پاکستان کسی صورت ترقی نہیں کرسکتا، اللہ تعالیٰ نے اختیار دیا تو ہم پاکستان سے سودی نظام کا خاتمہ کریںگے ، سودی نظام اللہ کے خلاف اعلان جنگ ہے سودی نظام اور ریاست دینہ ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے ،عمران خان پہلے تو صرف لاکھ دو لاکھ روپے ٹیکس دیتے تھے اس سال انہوں نے 98لاکھ ٹیکس دیا ہے وہ عوام کو بتاسکتے ہیں کہ یہ اتنی آمدنی کہاں سے ہوگئی یا پھر کوئی ہیرا پھیری کی گئی ہے ۔انہوں نے کہاکہ کراچی میں مدینہ مسجد کے نام سے قائم اللہ کے گھر گرانے کی بات کی جارہی ہے ، نبی کریم ؐ نے ہجرت کے فوراً بعد مدینہ میں مسجد قائم کی ،مسجد بنانا اور حفاظت کرنا ریاست کا کام ہے اور ہمارے معاشرے کا اہم مقام ہے ،ہم معزز جج سے اپیل کرتے ہیں کہ مسجد گرانے کے فیصلے پر نظر ثانی کرے اگر کوئی سوموٹو ایکشن لینا ہے تو پنڈورا اور پنامہ لیکس میں نام آنے والوں کے خلاف کارروائی کرے جس میں تمام حکمران پارٹیوں کے لوگ شامل ہے ۔اسد اللہ بھٹو نے کہاکہ کالے بلدیاتی قانون میں لاڑکانہ، سکھر ، بدین اور حیدرآباد کے عوام کے حقوق بھی غصب کیے گئے ہیں،آج سندھ کے عوام سراپا احتجاج ہیں اور سندھ حکومت کے کالے قانون کو مسترد کرتے ہیں۔۔محمد حسین محنتی نے کہاکہ جماعت اسلامی کی کالے بلدیاتی قانون کے خلاف تحریک کو منقی انجام تک پہنچائیں گے ،اس کالے قانون نہ صرف کراچی بلکہ سندھ بھر کے عوام کے حقوق سلب کیے ہیں ،ہم نے سندھ بھر میں اس تحریک کو آگے بڑھایا ہے ،ہم نے یوم سیاہ منایا ہے اور جمعہ کو ہزاروں کی تعداد میں مظاہرے کیے گئے آئندہ بھی احتجاج کیا جائے ۔پیپلزپارٹی نے لسانیت وعصبیت کو مزید پھیلانے کے لیے کراچی کے تمام محکموں پر قبضہ کرلیا،سند ھ حکومت این جی اوز کے پیچھے نہ چھپے ،عوام کے ٹیکسو ں کا پیسہ عوام پر خرچ ہونا چاہیئے،پیپلزپارٹی  نے مظلوم سندھیوں اور بلوچوں کا استحصال کرکے اسمبلی پر قبضہ کیا ہے،سندھ میں دیہی اورشہری تقسیم پیپلزپارٹی نے خود کی ہے ۔وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ ، ناصر حسین شاہ ، سعید غنی ،مرتضی وہاب ان سب سے کہتا ہوں کہ سامنے آئیں ، احتجاج کرنے والوں سے بامعنی مذاکرات کریں اور شہر کو بااختیار بنا یا جائے ،کراچی کی مساجد اور بلڈنگز کو ریگولرائز کرنے کے لیے باقاعدہ قانون سازی کی جائے۔انہوں نے کہاکہ کراچی کی سڑکوں پر اربوں روپے لگتے ہیں لیکن پہلی بارش سے سڑکیں تباہ ہوجاتی ہیں ،سیوریج لائنز کو جدید ٹیکنالوجی کے مطابق اپڈیٹ کیاجائے ،وزیر اعظم پاکستان نے کراچی کے لیے 1100ارب روپے کے پیکیج کا اعلان کیا تھا اسے پول میں شامل کر کے شہر کے حوالے کیے جائیں ۔انہوں نے کہاکہ کراچی کا مینڈیٹ 2018سے پی ٹی آئی کے پاس ہے لیکن انہوں نے کچھ ڈیلیور نہیں کیا،پی ٹی آئی والے آئندہ کس منھ سے انتخابات میں حصہ لیں گے،کراچی والوں کو ٹول پلازہ کی پابندی سے آزادی کیا جائے ۔حاجی ناظم ایف جی نے کہاکہ میں کراچی کا شہری ہوں اور کراچی کا درد رکھتا ہوں،جماعت اسلامی کا دھرنے کے شرکاء کی ہمت و حوصلہ دیکھ کر دھرنے میں آنے کا فیصلہ کیا، مختلف پارٹیاں صرف ٹاک شوز ،پریس کانفرنس اور بیانات کی حد تک ہیں، مسائل پر بات چیت بند کمروں کی بجائے کھلے عام ہونی چاہیئے ، ماضی میں مذاکرات ہوتے دیکھے ہیں لیکن عملاً کوئی نتیجہ نہیں نکلتا، مذاکرات میں شہر کے تمام اسٹیک ہولڈرز شامل ہونے چاہیئے ،جماعت اسلامی کادھرنا کامیاب ہوگا اور مطالبات مانے جائیں گے ۔

مزیدخبریں