باتیں پارلیمان کواعتماد میں لینے کی 

اللہ تعالیٰ خوش رکھے سینیٹر رضا ربانی صاحب کو کہ پارلیما ن پر کچھ نہ کچھ بول کر لکھنے کا موقع فراہم کر ہی دیتے ہیں ورنہ تو دیکھنے میں یہی آرہا ہے کہ کسی کو پارلیمان کی فکر ہے نہ ہی اس کی ضرورت۔یہ فکر اور ضرورت دو الگ الگ نکتے ہیں جن پر آگے چل کر بات ہوگی فی الحال رضا ربانی صاحب کے کل کے پرسوں کے بیان کو نذر ِ قارئین کئے دیتے ہیں تا کہ بات سمجھ میں آسکے ۔ رضا ربانی صاحب نے یہ بیان سٹیٹ بنک آف پاکستان کو آئی ایم ایف کی تحویل میں دیئے جانے کے حوالے سے اسٹیٹ بنک ترمیمی بل پر پارلیمان اور قوم دونوں کو اعتماد میں لینے پر دیا ہے جسے سن کراگلے ہی لمحے ہمارے زہمن میں ایک سوال بجلی کی سی تیزی دوڑیں لگانے لگا کہ یہ رضا ربانی صاحب کس پارلیمان اور کس قوم کے اعتماد کی بات کررہے ہیںجنہیں اعتماد میں لینا ضروری ہو گیا ہے ۔گوکہ ہم یہ سوال براہ راست رضا صاحب سے نہیں کر سکتے اس لئے کالم کے زریعے کئے دیتے ہیں کہ محترم :۔ آپ کس پارلیمان اور کس قوم کے اعتماد کی بات کر رہے ہیں ؟ آپکا یہ سوال اسی پارلیمان کے بارے میں ہی ہے نا، جس کی اہمیت کے حوالے سے پہلے بھی ہم اپنے اسی’’ایوان ِصحافت سے ‘‘میں آپ سے متعلق کہہ چکے ہیں کہ جب آپ کوخود چیئر میں سینٹ ہوتے ہوئے اس پارلیمان کی اہمیت ہی نہیں تقدس کا خیال تک نہیں آیا تو اب کیونکر دوسروں سے اس کی توقع کی جا سکتی ہے تو آپ نے تو ابھی تک ہمیں مطمئن نہیں کیا نہ ہی جواب دینے کی زحمت گوارا کی تو اب بھی ہمارا یہی سوال ہے کہ آپ کس پارلیمان اور کس قوم کو اسٹیٹ بنک ترمیمی بل پر اعتماد میں لینے کی بات کررہے ہیں ۔آیا اُس پارلیمنٹ کی کہ جس کی (ایک با ر پھر کہے دیتے ہیں کہ جس کی بالا دستی میں آپ سمیت کوئی بھی پارلیمنٹرین مخلص نہیں نہ ہی اسے اہمیت دی جاتی ہے ) تو پھر وہی بات کہ اب دوسروں سے اس کوتوقع کیسے ؟ ۔اب آیئے قوم کی طرف ، تو جناب کس قوم کی بات کر رہے ہیں کہ اسے بھی اسٹیٹ بنک ترمیمی بل پر اعتماد میں لیا جائے ۔تو قوم کے حوالے سے بھی یہی سوال ہے کہ کس قوم کی بات ہو رہی ہے ،یہ قوم واقعی وہی قوم ہے جس کے ووٹوں سے ہر پارلیمینٹیرین پارلیمان میں آتا ہے یا یہ وہ قوم ہے جس سے مراد سیاسی جماعتیں ہیں ؟ یقینا رضا ربانی صاحب تو حسب حال ان دونوں سوالوں کا جواب دینے سے رہے اسی لئے ہم پہلے کی طرح اس بار بھی خود ہی صورتحال واضع کئے دیتے ہیں مگر پہلے سے زرا ہٹ کر ،ابھی گذرے جمعے کے روز کی بات ہے مسلم لیگ ن کے ایم این اے برجیس طاہر نے اسمبلی فلور پر کھڑے ہوکر سپیکر کی توجہ نامکمل کورم کی جانب مرکوز کرواتے ہوئے کہا کہ جناب سپیکر ّ اسمبلی کورم پورا نہیں ۔یہ سن کر اپوزیشن کے پچاس کے پچاس ارکان بھی چیمبر کی طرف ہو لئے جس پر مجبوراً سپیکر کو اجلاس ملتوی کرنا پڑا ۔ تو کورم کی صورتحال سے ہی پارلیمنٹرینز کی پارلیمان میں دلچسپی کا اندازہ لگا لیجئے کہ انہیں پارلیمان سے دلچسپی کس حد تک ہے تو اگر اس کا جواب نفی میں ملے تو ہم تو یہ کہنے میں حق بجانب ہوئے نا کہ رضا ربانی صاحب کس پارلیمان کی با ت کر رہے ہیں کہ اسے اسٹیٹ بنک ترمیمی بل پر اعتماد میں لیا جائے ۔ ہماراتو کہنا یہ ہے کہ پارلیمان کے کورم کے پورا نہ ہونے کا یہ واقع پہلی بار دیکھنے میں نہیں آیا بلکہ اسے بھی ہماری پارلیمانی ررایت کا حصہ ہی سمجھا جائے ،دوسری یعنی حکومتی سائیڈ سے بھی دیکھا جائے تو یہ بھی ہماری مگر بدقسمتی سے پارلیمانی روایت ہے کہ کسی بھی حکومت کی کبھی کورم پورا ہونے میں دلچسپی نہیں رہی جس کی وجہ یہ ہے کہ اگر کورم پورا ہوگا تو حکومت کو ارکان کو فنڈز کی فراہمی کے مطالبات کا سامنا کرنا پڑ یگاجس سے بچنے کیلئے بھی حکومت کو کورم پوران نہ ہونا ہی سوٹ کرتا ہے اور اب تو معاشی ابتری کے حالات کے باعث بھی ایساکیا جانا اچھنبے کی با ت نہیںکہ جن میںگھنٹہ بھر کے اندر اندر کورم پورا کروا کر تیس بل پاس کروا لیئے جاتے ہیں تو کورم پورا کرنے کی ضرورت ہی کیایا اگر یہ کہہ دیا جائے کہ پارلیمان کی ضرورت ہی تو کیا غلط ہو گا ؟ـ     اب آتے ہیں پارلیمان کی فکر اور ضرورت کے نکات کی طرف۔اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ  رضا ربانی صاحب کی طرح کچھ اور دوسرے صاحب دانش کو پارلیمان کی بے توقری کا احساس اب شدت سے ہوتا نظر آرہا جس سے اِ نکی پارلیمانی فکر کا بخوبی اندازہ ہو رہا ہے جو ہمارے نزدیک قابل ِ قدر ہے مگر جہاں تک اس حوالے سے ہمارے اندازوں کا تعلق ہے تو وہ یہی ہیں کہ یہ فکر محض فکر تک ہی محدود ہے اس کے سو ا کچھ نہیں،یعنی عملی طور کچھ نہیں ۔اگر ہمارا اندازہ غلط ہے تو پھر تمام پارلیمنٹرینز کیلئے چاہے اپوزیشن سے یا حکومت سے ہوں ضروری ہے کہ وہ اس سلسلے میں اکٹھے ہوکر باہم مشورے مشاورت سے کوئی لائحہ عمل تیار کریں۔پارلیمنٹ کی بالادستی یقینی بنانے کیلئے محض فکر کرنے ،باتوں یا مطالبات سے تو نہیں کسی نے پارلیمان کو اعتماد میں لینا یا قوم (سیاسی جماعتوں کو)اور اگر اسی نہج پر دیکھا جائے تو جیسا کہ ہم بتا چکے کہ اپوزشین نہ ہی حکومت دونوں کو پارلیمانی کورم سوٹ نہیں تو پھر آج کی حکومت کل کی اپوزیشن اور آج کی اپوزیشن کل کی حکومت ہوگی تو پھر اس تناظر میں تو پھر پارلیمان بالا دست دکھائی دے ہی نہیںرہا تو ایسے میں پارلیمان کے اور قوم کے اعتماد میں لیئے جانے کی باتوں کی ضرورت ہی کیا ؟یہ دو بہت اہم اورقابل غور سوال ہیں جنکا جواب ہم خود سے نہیں دیں گے بلکہ محترم رضا ربانی صاحب سے ہی لینا چاہیں گے کہ وہی اس وقت پارلیمان کی بالا دستی اور پارلیمانی اعتماد کی باتیںکررہے ہیں اور شائد کرتے رہیں،ہاں اگر کوئی دوسرے مہربان پارلیمنٹرین کر رہے ہوتے تو ہم اُن سے  پوچھ لیتے رضا صاحب سے تیسری بار مخاطب ہی نہ ہونا پڑتا ۔ویسے اندر کی بات ہے کہ ہم بھی پارلیمان کی بالادستی چاہتے ہیں اسی لئے رضا صاحب کو جھنجھوڑتے رہتے ہیںوہ بھی پیشگی معذرت کے ساتھ۔

ای پیپر دی نیشن