مولانامحمدعلی جوہر، قائداعظم محمد علی جناح (2) 

معزز قارئین! حضرت امام حسین ؓ ، اُن کے خاندان کے افراد اور ساتھیوں کی شہادت کے بعد اِسلام کو زندہ رکھنے میں بی بی زینبؓ کا کردار ناقابلِ فراموش ہے ۔ سانحۂ کربلا کے بعد مدینہ سے کربلا اور کربلا سے شام تک، شُہدائے کربلا کی بیوائوں اور اُن کے یتیم بچوں کو اپنی سرپرستی میں لے کر سیّدہ زینب ؓ کا سفر ۔ کوفہ اور شام کے بازاروںمیں اُن کی تقریروں ، یزید کے دربار میں ، فصیح و بلیغ خطبوں اور برجستہ جوابات کے بارے میں مؤرخین لکھتے ہیں کہ ’’ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا حضرت علی مرتضیٰ ؓ خطبہ دے رہے ہیں ‘‘۔ 
’’ علی ؓ کی بیٹی ؓ سلام تم پر ! ‘‘ 
معزز قارئین ! 1956ء سے مجھے حمد ہائے باری تعالیٰ ، نعت ہائے رسول مقبول ؐ ، اہل بیت ؓ اور اولیائے کرامؒ کی منقبتیں لکھنے کا شوق رہا ہے ۔ 2007ء میں مَیں نے حضرت بی بی زینبؓ کی عظمت بیان کرتے ہُوئے ایک منقبت لکھی تھی جو آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں … 
علیؓ کی بیٹیؓ سلام تُم پر!
…O…
خُدا کی رحمت ، مَدام ، تُم پر!
رِدائے خَیراُالاَنامؐ ، تُم پر!
بتُولؓ کا نُورِ تام، تُم پر!
علیؓ کی بیٹیؓ سلام تُم پر!
…O…
قبیلہء پَنج تن ؓ کی عظمت!
اے نیک خُو ! بِنتِ بابِ حِکمت ؓ!
ثناگری، صُبح و شام، تُم پر!
علیؓ کی بیٹیؓ سلام تُم پر!
…O…
جہاں کو پیغام ِ حقّ سُنایا!
حُسینَیِتؓ کا ، عَلم اُٹھایا!
ہوں کیوں نہ نازاں اِمام ؑ تُم پر!
علیؓ کی بیٹیؓ سلام تُم پر!
…O…
مُلوکِیت ، جیسے غم کدہ، تھی!
یزِیدیت ، زلزلہ زدہ ، تھی!
ہے ختم، زورِ کلام ،تُم پر!
علیؓ کی بیٹیؓ سلام تُم پر!
…O…
وفا کے پَیکر ، شُمار ہوتے!
وہاں ، جو ہوتے ، نِثار ہوتے!
نبیؐ کے سارے ، غُلام تُم پر!
علیؓ کی بیٹیؓ سلام تُم پر!
…O…
اثرؔ جو پایا ، اشارۂ ربّ!
تو رکھّا ، ناناؐ نے نام زَینبؓ!
ہے خُوب سجتا ہے ، نام تُم پر!
علیؓ کی بیٹیؓ سلام تُم پر!
…O…
’’ خواجہ غریب نوازؓ!‘‘ 
نائب رسول صلی اللہ علیہ وسلم فی الہند ، خواجہ غریب ،حضرت معین اُلدّین چشتی / اجمیری ؒ(یکم فروری 11443ئ۔ 15 مارچ 1236ئ) نے اہلِ اسلام کے دِلوں میں شُہدائے کربلا کی یاد کو تازہ رکھنے کے لئے اپنی اِس رُباعی میں فرمایا تھا کہ … 
شاہ ہَست حُسینؓ، پادشاہ ہَست حُسینؓ!
دِیں ہَست حُسینؓ ، دِیں پناہ ہَست حُسینؓ!
سَردَاد ، نَداد دَست ، در دَستِ یزید!
حقّا کہ بِنائے لا اِلہ ہَست حُسینؓ!
…O…
یعنی۔ ’’ہمارے ( اصل) شاہ اور بادشاہ حضرت امام حُسینؓ ہیں۔ دِینِ اسلام اور دِین کی پناہ بھی امام حُسینؓ ہی ہیں (آپؓ نے دِین کی بقا کے لئے ) اپنا سر قلم کروالیا لیکن خلافت کے نام پر یزید کی ملوکیت اور خاندانی بادشاہت کو قبول نہیں کِیا‘‘۔
’’ حضرت سُلطان باھوؒ !‘‘ 
معزز قارئین ! قادریہ سلسلہ کے ولی ، فارسی اور پنجابی زبان کے نامور شاعر حضرت سُلطان باھو (1629ئ۔ 1690ئ) نے سانحہ کربلا کو منفرد انداز میں پیش کرتے ہُوئے کہا تھا کہ …
’’جے کر، دِین عِلم وِچ ہوندا ،
 تاں سِر نیزے کیوں چڑھدے ہُو!
اٹّھاراں ہزار جے عالم آہا ،
 اوہ اگے حُسینؓ دے مَردے ہُو!
جو کُجھ ملاحظہ سَرورؐ دا کر دے،
 تاں خیمے تمبو کیوں سَڑدے ہُو!
پر صادق دِین تِنہاں دے باہُو ،
 جو سرِ قُربانی کردے ہُو!
…O…
یعنی’’ اگر دِین اسلام ( محض) عِلم میں ہوتا تو پھر ( میدانِ کربلا میں اہل بیتؑ) کے سروں کو نیزوں پر کیوں چڑھایا جاتا؟ سانحۂ کربلا کے وقت یزید کی سلطنت میں 18 ہزار عُلمائے دِین موجود تھے ( انہوں نے یزید کے خلاف بغاوت کا جھنڈا بلند کیوں نہیں کِیا؟اور اُنہوں نے حضرت امام حُسین ؓ پر اپنی جانیں کیوں نہ قربان کردیں؟ اگر وہ عُلماء حق پرست ہوتے تو وہ آل رسولؐ کے خیموں کو آگ کی نذر کیوں ہونے دیتے؟ اگر اُس وقت مسلمان کہلانے والے لوگ حضورؐ کی اطاعت / تابعداری کرنے والے ہوتے تو وہ اہلِ بَیتؑ کا پانی کیوں بند کرتے؟۔ اے باہوؑ ! جو لوگ حق پرست لوگوں کے لئے قربانی دے سکیں ، وہی دِین کی حفاظت کرنے والے اور سچے ہیں! ‘‘۔حضرت امام حُسین ؓ کی جنگ ملوکیت، جُورو جبر ، خیانت ، نجاست ، بربریت اور جہالت کے خلاف تھی۔
’’ایک حُسینؓ بھی نہیں!‘‘
 علاّمہ اقبالؒ دسمبر 1931ء میں ’’ عالمی مسلم کانگریس‘‘ میں شرکت کے لئے 8 دِن تک بیت اُلمقدس میں رہے۔ وہاں آپؒ نے ’’ ذوق و شوق ‘‘ کے عنوان سے ایک معرکہ آرا نظم لکھی ، جس کے اِس ایک شعر کو ہر دَور میں اہمیت حاصل رہی ہے … 
’’قافلہ ٔحجاز میں ایک حُسین ؓ بھی نہیں!
گرچہ ہے تاب دار ابھی، گیسوئے دجلہ و فرات!‘‘
…O…
یعنی ’’ حجاز کے قافلے کو دیکھو، اِس میں ایک بھی حُسینؓ نظر نہیں آتا ،جو استبداد اور مطلق العنافی کے خلاف بے باکانہ کھڑا ہو جائے ، اپنا سر کٹوا دے ، لیکن راہ حق سے اِدھر اُدھر نہ ہواور دوسری طرف دیکھو دجلہ اور فرات کے گیسوئوں میں ابھی تک پیچ و خم باقی ہیں ‘‘۔ معزز قارئین! نہ جانے مجھے اِس مرحلے پر تحریک پاکستان کے مخالف’’ جمعیت عُلمائے ہند ‘‘کے صدر مولانا حسین ؔاحمد مدنی کیوں یاد آ رہے ہیں؟
’’اُسوۂ حضرت زؔینب ؓ ، مادرِ ؔملّت ؒ !‘‘ 
معزز قارئین ! 14 اگست 1947ء کو، قائداعظم محمد علی جناحؒ نے گورنر جنرل آف پاکستان کا منصب سنبھالا لیکن، آپؒ نے اپنے شانہ بشانہ قیام پاکستان کی جدوجہد میں شریک اپنی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناحؒ کو حکومت اور مسلم لیگ میں کوئی عہدہ نہیں دِیا تھا‘‘، چنانچہ محترمہ فاطمہ جناحؒ قوم کی فلاح و بہبود میں سرگرم عمل رہیں ۔ 2 جنوری 1965ء کے ’’صدارتی انتخاب ‘‘ میں (پاکستان مسلم لیگ کنونشن کے صدر ) ، صدرِ پاکستان فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے مقابلے میں محترمہ فاطمہ جناحؒ متحدہ اپوزیشن کی امیدوار تھیں ، جنہیں تحریک پاکستان کے نامور مجاہد ’’ مفسرِ نظریۂ پاکستان‘‘ جناب مجید نظامی نے ’’مادرِ ملّت ؒ ‘‘ کا خطاب دِیا۔ 
مَیں اُن دِنوں سرگودھا میں ’’ نوائے وقت ‘‘ کا نامہ نگار تھا مَیں نے پنجاب کے کئی شہروں میں ’’ مادرِ ملّت‘‘ کے جلسوں میں ، تحریک پاکستان کے نامور قائد ، تحصیل عیسیٰ خیل ضلع میانوالی کے مجاہد ملّت ، مولانا عبداُلستار خان نیازیؒ نے اپنے مختلف خطابات میں کہا کہ ’’ مادرِ ملّت محترمہ فاطمہ جناحؒ اُسوۂ حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی پیروی کر رہی ہیں ‘‘۔ پھر ہر جلسۂ عام میں ، ہر مقرر نے یہی انداز اختیار کِیا تھا۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(جاری ہے ) 

ای پیپر دی نیشن