حافظ محمد عمران
چند سال قبل چودھری محمد صدیق ایک تقریب میں وزیراعظم عمران خان سے ملے اور انہیں بتایا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ میں چند اعلیٰ افسران کی تنخواہیں غیر معمولی طور پر زیادہ ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے تنخواہوں بارے سنا تو وہ خاصے حیران ہوئے یہ الگ بات ہے کہ اس وقت انہوں نے کوئی ایکشن نہیں لیا۔ اب واقفان حال بتاتے ہیں کہ وزیر اعظم عمران خان کرکٹ بورڈ میںبھاری تنخواہوں کے حوالے سے سخت مؤقف اختیار کرتے ہوئے بورڈ چیئرمین رمیز راجہ کو کارروائی کی ہدایت کی ہے۔ چند دنوں سے یہ اطلاعات آرہی ہیں کہ بھاری تنخواہوں والے افراد کا مستقبل خطرے میں ہے۔ امپورٹڈ چیف ایگزیکٹوآفیسر وسیم خان کا استعفیٰ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ گذشتہ تین برسوں میں کر کٹرز کے معاشی مسائل میں اضافہ ہوتا رہاجب کہ افسران مالی طورپر مستحکم ہوتے رہے لیکن کسی نے توجہ نہیں دی۔کھلاڑی ملک چھوڑ کرجاتے رہے‘برسوں کھیل کے میدانوں کو آباد رکھنے والے گراؤنڈ سٹاف کو گھر بھیج دیاگیا۔ کھیل کے میدانوں کو تالے لگائے جاتے رہے۔ کرکٹ منتظمین کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔ کلب کرکٹ کو تباہ کردیا گیا۔ نچلی سطح پر کرکٹ کروانے والوں کو بلا معاوٖضہ کام کرنے کا سبق دینے والے خود لاکھوں ماہانہ کماتے رہے۔ بورڈ کے اعلیٰ افسران کی تنخواہوں میں ہر سال اضافہ ہوتا رہا لیکن دوسری طرف سابق کھلاڑیوں کی پنشن، سپورٹ فنڈمیں2019ء کے بعد اضافہ نہیں کیا گیا۔ بعض افسران کو غیر معمولی انداز میں نہ صرف ترقی ملتی رہی بلکہ تنخواہوں میں بھی اضافہ ہوتارہا۔ اس سارے عمل میں کرکٹرزکو مکمل طور پر نظر انداز کیاگیا۔ کھلاڑیوں کے معاوضے میں کفایت شعاری سے کام لیا گیا جبکہ آفیشلز پر خزانہ لٹایا جاتا رہا۔
کھلاڑی بے روزگار، کھیل کے میدان ویران، کرکٹ گراؤنڈز کو تالے، کرکٹرز معمولی ملازمتوں پر مجبور اور کوچز سبزیاں بیچنے پر مجبور ہوتے رہے،کفایت شعاری کے نام پر یا پھر زائد ملازمین کا بہانہ بنا کر برسوں کام کرنے اور ہزاروں میں تنخواہ لینے والوں کو گھر بھیج دیا گیا لیکن اس دوران سالانہ کروڑوں روپے چند اعلیٰ افسران کی تنخواہوں کی نذر کر دیئے گئے۔ رمیز راجہ کے آنے سے پہلے ڈومیسٹک کرکٹ کنٹریکٹ کی ایک کیٹگری میں کرکٹرز کو صرف چالیس ہزار ماہانہ تنخواہ دی جاتی رہی لیکن پسندیدہ افراد کو لاکھوں ماہانہ دیئے جاتے رہے۔کیا یہ نا انصافی نہیں ہے کہ کرکٹرز کو معاشی طور پر کمزور رکھا جائے اور ٹھنڈے کمروں میں بیٹھنے والے افراد پر خزانے کا منہ کھول دیا جائے۔ کرکٹرز پر روزگار کے دروازے بند کرکے افسران کی تنخواہوں اور مراعات پر پیسہ پانی کی طرح بہایا جاتا رہا۔ فزیوتھراپسٹ اینڈریو ڈیکون کی تنخواہ 21 لاکھ 15 ہزار 910،ڈائریکٹر میڈیا اینڈ کمیونیکیشن سمیع الحسن برنی کی تنخواہ تیرہ لاکھ 59 ہزار 651 روپے جبکہ ڈائریکٹر ہائی پرفارمنس محمد ندیم خان کی تنخواہ 13 لاکھ پندرہ ہزار، ہیڈ انٹرنیشنل پلیئرز ڈویلپمنٹ ثقلین مشتاق کی تنخواہ 12 لاکھ ستتر ہزار 711 ، چیف ایگزیکٹو آفیسر سلمان نصیر کی تنخواہ بارہ لاکھ 45 ہزار روپے، چیف فنانشل آفیسر جاوید مرتضیٰ، 12 لاکھ 40 ہزار 417 روپے، چیف میڈیکل آفیسر نجیب اللہ سومرو ہی تنخواہ بارہ لاکھ پندرہ ہزار، چیف سلیکٹر محمد وسیم کی تنخواہ 10 لاکھ، ڈائریکٹر ہیومن ریسورس سرینا آ غا کی تنخواہ 8 لاکھ پینسٹھ ہزار روپے جبکہ ڈائریکٹر انٹرنیشنل کرکٹ آپریشن ذاکر خان کی تنخواہ آٹھ لاکھ چوالیس، ہزار 708 روپے، ڈائریکٹر سکیورٹی آصف محمود کی تنخوا چھ لاکھ 50 ہزار روپے، لاجسٹکس کے اسد مصطفیٰ کی تنخواہ 6 لاکھ 13 ہزار 345 روپے ، فنانس کے عتیق رشید کی تنخواہ 6 لاکھ روپے ہے۔ صوبائی کرکٹ ایسوسی ایشنز چیف ایگزیکٹوز کو بھی بورڈ پانچ لاکھ روپے ماہانہ ادا کرتا ہے۔ صوبائی ایسوسی ایشنز کے افسران میں محمد عبدالصبور، انور سلیم کاسی، بابر خان، نجیب صادق اور عبداللہ خرم نیازی شامل ہیں۔ تفصیلات کے مطابق دو ہزار انیس میں پاکستان کرکٹ بورڈ کے سابق سی ای او وسیم خان 26 لاکھ ماہانہ تنخواہ وصول کر رہے تھے۔ قائمہ کمیٹی کے رکن اقبال محمد علی کے مطابق وسیم خان کی تنخواہ میں ہر سال دس فیصد اضافہ کیا جاتا تھا جب وہ چھوڑ کر گئے ہیں تو ان کی تنخواہ لگ بھگ چونتیس پینتیس لاکھ تھی۔ اقبال محمد علی نے کہا کہ اگر پی سی بی کے آڈٹ معاملات حل نہ ہوئے تو کیس ایف آئی اے کو بھیج دینگے۔ پی سی بی میں سب سے مہنگے سابق سی ای او وسیم خان تھے جو ملک میں کرکٹ کا بیڑہ غرق کرکے گئے ہیں ، بتایا جائے وسیم خان نے استعفیٰ کیوں دیا۔ گزشتہ تین برس میں گراس روٹ کرکٹ کو تباہ کردیا گیا۔ حکام کو اپنی فکر تو ہے لیکن کرکٹرز کی کسی کو فکر نہیں ہے۔
ماضی میں ریجنل کرکٹ کے عہدیداران کسی معاوضے کے بغیر کام کرتے تھے لیکن احسان مانی اور وسیم خان کے دور میں صوبائی ایسوسی ایشنزکے عہدیداروں کی بھی ماہانہ پانچ لاکھ تنخواہ مقررکردی گئی اتنا معاوضہ کسی بھی کر کٹر کو نہیں دیاجاتا۔ کرکٹ بورڈ کے قائم مقام چیف ایگزیکٹوآفیسر سلمان نصیر کی قواعد وضوابط سے ہٹ کر تقرری اور غیر معمولی ترقی پر پبلک اکاؤنٹس کمپنی میں بھی سوال اٹھاتے ہوئے ذمہ داروں کے تعین کی سفارش کی گئی ہے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کے سابق چیئرمین خالد محمود کا کہنا ہے کہ بوڈر افسران کی بھاری تنخواہوں کی تفصیلات دیکھ کر حیران ہوا ہوں کون لوگ ہیں جنہوں نے یہ کام شروع کیا کہ وسائل کھیل اور کھلاڑیوں کی فلاح و بہبود کے بجائے افسران کی ماہانہ تنخواہوں اور مراعات پر خرچ ہو رہے ہیں۔ یہ تنخواہیں کسی بھی طور منطقی نہیں ہیں۔ سب سے زیادہ پیسے تو کھلاڑیوں اور کھیل کی خدمت کرنے والوں کی بہتری پر خرچ ہونے چاہئیں لیکن یہاں الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ جن بھاری تنخواہوں والے افسران کے نام میں نے دیکھے ہیں یقینی طور پر ان کی تقرری بھی میرٹ کے خلاف ہے اور وہ ملک میں کھیل کے فروغ کے لیے کام کرنے میں بھی ناکام رہے ہیں۔ کھلاڑیوں پر پیسہ خرچ اور ان کے معاوضے میں اضافہ کیا جائے تو کھیل میں نئے آنے والوں کے لیے کشش پیدا ہوتی ہے کھیلنے والوں کی تعداد بڑھتی ہے اور اس طرح سے اچھے کھلاڑی سامنے آتے ہیں۔ گزشتہ چند برسوں میں کھلاڑیوں کے بجائے سرمایہ افسران پر خرچ ہو رہا ہے یہ صورتحال تشویشناک ہے اس پر نظرثانی اور بہترفیصلوں کی ضرورت ہے۔سابق چیف سلیکٹر اقبال قاسم کہتے ہیں کہ بورڈ کے افسران کی بھاری تنخواہیں وسائل کی ناجائز تقسیم اور اختیارات کا غلط استعمال ہے۔ کئی کرکٹرز بیمار ہیں ان کی پنشن میں 2019ء کے بعد اضافہ نہیں ہوا جو پیسے انہیں ملتے ہیں وہ بتاتے ہوئے بھی شرم محسوس ہوتی ہے اگر کسی غیر ملکی کو ماہانہ چھبیس یا تیس لاکھ دیئے جا سکتے ہیں تو پھر کم سے کم پنشن بھی ایک لاکھ مقرر کی جائے اور اس میں ہر سال دس فیصد اضافہ کیا جائے۔ 25 یا تیس لاکھ تنخواہ سے ایک غلط روایت قائم ہوئی ہے اب ہر دوسرا شخص اس پرکشش رقم کی طرف دیکھے گی اور ایسی ہی تنخواہ کا تقاضہ کرے گااگر کسی غیر ملکی کوچ کی ضرورت ہے اور اس کے بغیر کام نہیں چلتا تو غیر معمولی حالات میں زیادہ معاوضے پر سمجھوتہ کیا جا سکتا ہے لیکن اپنے لوگوں کی تنخواہ تو ملکی حالات اور ’’سکیل‘‘ کے مطابق مقرر کی جائے۔ یہ پیسہ کرکٹرز کی وجہ سے ہے سب سے پہلے ان پر خرچ کیا جائے۔