مسیحا مرتے نہیں امرہوجاتے ہیں


عہدِحاضر میں”ڈاکٹرز کے ہجوم“میں مسیحاخال خال ہی ملتے ہیں۔یہ عالی شان منصب ہے اورصرف اللہ کے منتخب بندوں کو ہی جچتا ہے۔عالمی شُہرت یافتہ فزیشن پروفیسر ڈاکٹرمحمد حیات ظفر جن کے نام سے ہی زندگی کا مفہوم جھلکتا ہے، کرب کی چلچلاتی دھوپ میں جھلستی انسانیت کیلئے شجرسایہ داراوراللہ تعالیٰ کے مقرب تھے۔وہ زندگی کی آخری سانس تک دوسروں کیلئے مسیحا بن کرزندہ رہے۔کیا ہی انعام یافتہ آدمی تھے کہ مریض کو دیکھ کر ہی مرض تشخیص کر لیتے،وہ اپنے ربّ کے حضور پیش ہونے سے آدھا گھنٹہ قبل بھی کسی بیمارکا معائنہ کررہے تھے،گویا مرتے دم تک ان کافرض منصبی انکے نزدیک اہم رہا۔اپنے مریضوں کی صحت وسلامتی بارے فکر مند رہتے چاہے کتنی ہی ضروری سرکاری میٹنگ ہوتی پھر بھی فارغ ہو کر راﺅنڈ ضرور کرتے ، دوسروں کو بھی سمجھاتے کہ صحت اورتعلیم کوکاروبارنہ سمجھیں۔پروفیسرڈاکٹرمحمد حیات ظفرنے زمانہ طالبعلمی میں بانی پاکستان محمد علی جناح کے ”سکیورٹی انچارج“ کی حیثیت سے خدمات بھی انجام دیں۔ تحریک پاکستان کے ہراول دستہ میں کام کرناان کیلئے بیش قیمت سعادت تھی۔ان کاپنجاب کے ایک بڑے زمیندارگھرانے سے تعلق تھامگرانہوں نے زندگی بھر مڈل کلاس کے نمائندہ افراد کودوست بنایا اور خوب دوستی نبھائی۔انکے پاس اللہ تعالیٰ کادیا سب کچھ تھالیکن زندگی بھر ایئرکنڈیشنر استعمال کیا نہ بڑی گاڑی۔اپنا فون خود اٹینڈ کرتے۔قیام پاکستان سے قبل میٹرک کے امتحان میں ٹاپ کیا توانگریز اورہندو انگشت بدنداں رہ گئے کہ اتنا لائق فائق طالب علم۔وہ جنوبی ایشیاءکے پہلے ڈاکٹر تھے جنہیں اپنے شعبہ سے متعلق تمام اہم عہدوں پرفائز ہونے کااعزازحاصل ہوا۔ مرحوم نشترمیڈیکل کالج وہسپتال کے پرنسپل، میڈیکل سپرنٹنڈنٹ،پاکستان میڈیکل اینڈڈینٹل کونسل کے صدر،کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنزپاکستان کے صدر،نشتر کالج بورڈ آف گورنرز کے چیئرمین، انٹرنیشنل میڈیکل ریگولیٹری اتھارٹی کے ممبر،یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسزلاہور کے پہلے وائس چانسلر کے علاوہ مختلف ملکوں کی متعدد طبی تنظیموں اوراداروں کے ممبر بھی رہے۔کئی ممالک کے طبی اداروں نے انہیں اعزازی رکنیت سے بھی نوازاتھا۔وہ 1975ءسے 1989ءتک نشتر میڈیکل کالج کے پرنسپل رہے۔انکے پاس سب سے طویل عرصہ تک پرنسپل شپ کا اعزاز بھی ہے۔ انہوں نے نشتر میڈیکل کالج وہسپتال کی تعمیرو ترقی میں کلیدی کردار ادا کیا۔انکے دور میں کالج کو پوسٹ گریجویشن کیلئے عالمی سطح پر تسلیم کیا گیا۔انکی کاوش سے وہاں چھ مختلف مضامین میں ڈپلومہ کورسز شروع ہوئے۔ امراض قلب،فیملی وارڈ،انتہائی نگہداشت یونٹ،جدید لیبارٹریز، لیکچرتھیٹر ،آڈیٹوریم سمیت مختلف شعبوں کی اپ گریڈیشن انکی اعلیٰ انتظامی صلاحیتوں کا مظہر ہے۔ انہوں نے بہاﺅالدین زکریا یونیورسٹی کے تعلیمی معیار کی بہتری کیلئے بھی اپنابھرپور کردار ادا کیا۔ پروفیسر حیات ظفر نے عالمی سطح پر ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن اوریونیسیف سمیت مختلف اداروں، یونیورسٹیز اور میڈیکل کالجز میں ہونےوالی کانفرنسز اورسیمینارز میں پاکستان کی نمائندگی کی۔انہیںبے شمارقومی وبین الاقوامی اجتماعات میں مقالے پیش کرنے کامنفرداعزازبھی حاصل ہے۔ انٹرنیشنل جرائد میں انکے ریسرچ پیپرز دھوم مچاتے رہے۔پروفیسر حیات ظفر انتہائی نفیس انسان اور بہترین استاد تھے،انکے لیکچر زبھی بڑے دل نشین ہواکرتے تھے۔ان سے فیض یاب شاگرد ملک کے اندر اور باہر اپنی قابلیت اور صلاحیت کا لوہا منوا رہے ہیں۔
یکم مئی 1933ءکو ہندوستان میں طلوع ہونے والا طب کا یہ ستارہ نئے سال سے 4دن پہلے 27دسمبر 2004 ءکو پاک سرزمین پر ڈوب گیا۔وہ چک سلطان محمود تحصیل کبیروالا ضلع خانیوال میں آسودہ خاک ہیں لیکن ہماری یادوں میں زندہ ہیں۔پروفیسرحیات مرحوم کے شاگرد رشید اورچیئرمین بورڈ آف مینجمنٹ پنجاب انسٹیٹیو ٹ آف نیوروسائنسز پروفیسر ڈاکٹر انجم وہرا نے اپنے استاد گرامی کے اوصاف بیان کرتے ہوئے کہا کہ پروفیسر ڈاکٹر محمد ظفرحیات بڑے مردم شناس،نبض شناس اورفرض شناس تھے۔انسانیت اورانسانوں کی حیات کیلئے پروفیسر حیات ظفر کی گرانقدر خدمات کے اعتراف میں پی ایم ڈی سی ہال،ملتان میڈیکل کالج کا آڈیٹوریم جبکہ ملتان اورکبیروالہ کی متعدد شاہراہیں ان کے نام سے موسوم ہیں۔پروفیسرحیات ظفر کے فرزند ارجمند اور پرنسپل امیر الدین میڈیکل کالج ،پوسٹ گریجویٹ میڈیکل انسٹی ٹیوٹ و لاہور جنرل ہسپتال پروفیسر ڈاکٹر سردارمحمد الفرید ظفر اپنے شفیق ومہربان والد گرامی کے خواب کوشرمندہ تعبیرکرنے کیلئے کوشاں ہیں۔ انہوں نے اس مقصد کیلئے ”نور حیات فاﺅنڈیشن“ قائم کی۔فاطمہ جناح میڈیکل یونیورسٹی کے شعبہ گائنی اورمیڈیسن میں پوزیشن ہولڈر طالبات کو ہرسال پروفیسر محمد حیات ظفرگولڈ میڈل بھی دیا جا رہا ہے۔بے شک مسیحا مرتے نہیں امر ہو جاتے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن