مہنگائی ،روٹی، بھوک،پانی ،اُدھار، جی سرکار


” بابا ٹلّ پھر میدان میں !“
 معزز قارئین !۔مَیں نے ” نوائے وقت “ میں اپنے27 اگست 2014ءکے کالم میں آپ کا ”کینیڈین شیخ اُلاسلام “ طاہر اُلقادری اور اپنے ، مشترکہ جھنگوی دوست ” بابا ٹلّ“ کا تعارف کرایا تھا ،اُس کے بعد مَیں نے ”بابا ٹلّ “ کے بارے کئی کالم لکھے ، مَیں نے اپنے پہلے کالم میں لکھا تھا کہ” پنجابی زبان میں ”گھنٹی “کو ( ٹلّی) اور ” گھنٹے “ کو (ٹلّ) کہتے ہیں، مَیں نے یہ بھی لکھا تھا کہ ” علاّمہ طاہر اُلقادری کے لڑکپن کے دوست (جو کئی سال پہلے طاہر اُلقادری کی سائیکل کی پچھلی نشست (کیرئیر)پر بیٹھ کر اُنکے ساتھ جھنگ سے لاہور آئے تھے ۔ اُنہیں بابا ٹلّ کہتے ہیں جو ،ہر وقت اپنے گلے میں ” ٹلّ“ لٹکائے رہتے ہیں ۔ بابا ٹلّ کے ہزاروں ، لاکھوں عقیدت مند اور نیاز مند ، ہر وقت ،یہ راگ الاپتے رہتے ہیں کہ ....
” جدوں آوے گا ،بابا ٹلّ وے 
سارے مسئلے ،ہون گے ،حلّ وے“
بابا ٹلّ کبھی کبھی ، میرے خواب میں آتے تھے اب بڑی دیر بعد آئے ہیں ۔ میرے ساتھ گپ شپ کرتے ہیں،اِس بار تشریف لائے تو ، حسبِ عادت و روایت ہاتھ میں پکڑی ہ±وئی لکڑی کی ہتھوڑی سے گلے میں لٹکے ہ±وئے ٹلّ کو بجایا۔ پھر وہ میرے ڈرائنگ ر±وم میں سنگل صوفے پر بیٹھ گئے، ا±ن سے میرے ”مذاکرات“ کچھ یوں ہُوئے ۔ مَیں:۔ جی آیاں ن±وں بابا ٹلّ جی!۔ کافی دِنوں کے بعد تشریف لائے آپ؟۔ 
بابا ٹلّ:۔ ” مَیں علاّمہ طاہر ا±لقادری کی طرح اپنے 90 م±لکوں کے کاروبار میں مصروف رہتا ہُوں لیکن، مَیں اکثر پاکستان کے عوام کی خوشحالی اور بہتری کےلئے دُنیا کے مختلف ملکوں میں آباد ،خوشحال پاکستانیوں کے ، خواب میں آ کر اُنہیں اچھے اچھے مشورے دیتا ہُوں، کوئی مانے یا نہ مانے ؟ آخر میں بھی پاکستانی ہُوں ، مَیں نے سوچا ، کیوں نہ مَیں اپنی قوم کے غریبوں کی بھلائی کیلئے کم از کم اُستاد شعراءکے کچھ اشعار ہی اُن میں پھیلا دوں ؟، بقول کسی پنجابی دانشور کے ” اگے تیرے بھاگ لچھیےّ ؟“ معزز قارئین !۔ اب ” بابا ٹلّ “ کے وہ اشعار پیش خدمت ہیں جو، اُنہوں نے مجھے سُنائے اور ریکارڈ کرائے۔ موضوع اور ترتیب کے لحاظ سے .... 
” مہنگائی ! “
مہنگائی کے زمانے میں ،بچوں کی ریل پیل
ایسا نہ ہو ، کمر تری ، مہنگائی توڑ دے
(ساغر خیامی)
مہنگائی کا، اب آیا ہے ، طوفان یقینا
توڑے ہیں، حکمرانوں نے ، پیمان یقینا
(رشید حسرت)
احساس کی مہنگائی ،بہت بڑھ گئی ہے
آج کل کوئی ، نظمیں ،خریدنے ،نہیں آتا
(امت برج شا)
” روٹی !“
اور وہ جو ، ناچنے میں ،بتاتے ہیں ،بھاو¿ تاﺅ
چتون اشارتوں ،سے کہیں ہیں کہ ،روٹی لاﺅ
(نظیر اکبر آبادی)
کیوں نہ دیں آبرو کو روٹی پر
بابا آدم کے ،ہم بھی پوتے ہیں
(انشا)
روٹی پکاوے کس پر؟ گھر میں تو ا  ندارد
گر ٹھیکرے پہ ، تھوپے تو ، پھر مزا ندارد
(نظیر)
دل جلا کر مرا ، ہونے کا نہیں ، تمکو ثواب
ہے بڑی روٹی میں ، آیا مُوے ، ظالم یہ عذاب
(جان صاحب)
نصیحت کی نہ ، کھائی روٹی ، دو دِن
بہو آپا تمھاری ، بس بھری ہے
(عبیر ہندی)
اے ہلال رمضان توڑ ،غریبوں کی نہ آس 
بھوکے پیاسوں کی بجھاتا ہے، کوئی بھوک نہ پیاس 
(ریاض شفیق)
ہووے بھوک غالب، اونہوں پر سریع
نہایت کوں کھاوینگے، تھوبر ضریع
(رمضان)
ہے توڑ یہ ، بھوک کا کہ ، سَم کھا لیجے 
ٹھوکر بھی لگے ، تو ہر قدم کھا لیجے 
(دیوان راسخ دہلوی)
بدحال بھوک سے ، ہیں یہ اطفال ، بے نوا 
میں آگ پھونکتا ہوں ، تو کرکام ، دوسرا 
(قمر بدایونی)
” پانی ! “
میر تقی میر صاحب کے شعر .... 
گدازِ عاشقی کا ،میر کے شب ،ذکر آیا تھا
جو دیکھا ،شمع مجلس کو ، تو پانی ہوگئی ،گھل کر
کبھی جو آنکھ سے ،چلتے ہیں آنسو
تو پھر جاتا ہے ،پانی سب زمیں پر 
”سرکار!“
کسی دَور میں فارسی / اُردو میں بادشاہی ، حکومت اور کچہری کو، سرکار کہا جاتا تھا ، پاکستان میں اب بھی ”حکومت “ کہا جاتا ہے یا انگریزی میں گورنمنٹ ۔ اِن دِنوں سرکار سے مُراد وزیراعظم یا پرائم منسٹر میاں شہباز شریف ہیں، اگرچہ صدر ! عارف اُلرحمن علوی بھی سرکار میں شامل ہیں ، عسکری قیادت اور کئی اور اداروں اسٹیبلشمنٹ وغیرہ کو بھی سرکار ہی کہتے ہیں ۔ معزز قارئین ! بابا ٹلّ نے ، پرانے دَور کی سرکار کی بات کی اور مَیں بھی اُنہیں داد دے رہا ہُوں ۔ آپ بھی دیں !.... 
دلبراں ،دل جنس ہے، گنجائشی
اس میں کچھ ،نقصاں نہیں، سرکار کا
(میر تقی میر)
بھیج دیتا ہے ، اُنہیں عِشق، متاع دل و جاں
ایک سرکار لوٹی جاتی ہے ، سوغاتوں میں 
(مرزا داغ دہلوی)
باغ کو، جائیے گا ابرسیہ مست اُٹھا
پیش خیمہ تو روزانہ ہُوا، سرکار کا، آج
(خواجہ محمد وزیر ) 
دیدہ و دل ،مری سرکار ،ا±ٹھا لائے ہیں
ہم قفس میں بھی ترا ،پیار ا±ٹھا لائے ہیں
(صفدرسلیم سیال)

ای پیپر دی نیشن