جو رکے تو کوہ گراں تھے ہم
جو چلے تو جان سے گزر گئے
رہ یار ،ہم نے قدم قدم
تجھے یادگار بنا دیا
بظاہر لگتا ہے کہ یہ الفاظ شہید نوید صادق اور ان کے ساتھیوں کے لئے ہی کہے گئے ہوں گے کیوں کہ اس بات سے بھلا کون واقف نہےں کہ پاکستان جب سے وجود میں آیا ہے تب سے اس پاک دھرتی کے بیٹے اپنی جانوں کی قربانی دے کر حتی الامکان کوشش کر رہے ہےں کہ مادروطن کی ہر ممکن ڈھنگ سے خدمت کر سکیں۔اس عظیم مقصد کےلئے لہو کے چراغ ہمیشہ سے جلتے رہے ہےں اور انشااللہ تا ابد یہ سلسلہ جاری رہے گا ۔اسی عظیم سفر کے دوران چند روز قبل شہید نوید صادق اس راہ حق میں شہید ہوگئے۔ واضح رہے کہ خانیوال میں فرض کی ادائیگی کے دوران شہادت پانے وا لے آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر نوید صادق انسدادِ دہشت گردی ونگ کے ڈائریکٹر تھے۔ انہوں نے بطور سب انسپکٹر 2002ءمیں پولیس فورس جوائن کی بعد میں مقابلہ کا امتحان دے کر 2009ءمیں آئی ایس آئی میں بطور اسسٹنٹ ڈائریکٹر تعینات ہوئے۔انہوں نے اپنی ملازمت کے دوران کالعدم تنظیموں کے اہم نیٹ ورکس کو بے نقاب کیا، کئی ماہ کی کوششوں کے بعد داعش کی اعلیٰ کمانڈ تک رسائی حاصل کی اور فیصل آباد میں ان کی کمین گاہ کا پتا لگا کر چھاپا مارا اور دہشت گردوں کا صفایا کیا۔ نوید صادق شہید نے 16 سال سے زائد عرصے تک خدمات انجام دیں۔ پاک سرزمین کے بہادر بیٹے نے پنجاب بھر میں داعش/القاعدہ کے خلاف متعدد کارروائیوں میں دشمن کے دانت کچھ اس موثر ڈھنگ سے کھٹے کےے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران وہ دہشت گردوں کے لیے ڈرا¶نے خواب کی حیثیت اختیار کر چکے تھے تھا اور خاص طور پر پنجاب میں داعش کو شکست دی۔ انہیں مارچ 2021 میں پاکستان کا دوسرا سب سے بڑا سول ایوارڈ ستارہ شجاعت دیا گیا۔ شہید نے 3 جنوری 2023 کو آپریشنل ڈیوٹی کے دوران شہادت پائی۔ نوید صادق نے گوجرانوالہ میں خودکش حملہ آوروں کا مقابلہ کیا اور سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کے اغوا ہونے والے بیٹے علی حیدر گیلانی کو اغوا کرنے والے نیٹ ورک کا سراغ لگایا۔اس کے علاوہ انہی کی یونٹ کے 2 افسران انسپکٹر عمر مبین جیلانی اور سب انسپکٹر یاسر کو شہید کرنے والے کالعدم تنظیم کا نیٹ ورک بھی انہوں نے ہی توڑا تھا۔ نوید صادق کو خانیوال میں دہشت گردی کا نشانہ اس وقت بنایا گیا جب وہ ایک کالعدم تنطیم جو اس وقت افغانستان سے آپریٹ ہورہی ہے اس نیٹ ورک کو توڑنے کے مشن پر تھے کہ ملزم عمر خان نے انہیں نشانہ بنا کر ان کو ان کے ساتھی افسر ناصر عباس سمیت شہید کردیا۔اس حوالے سے یہ امر خصوصی اہمیت کا حامل ہے کہ 6جنوری کی شام وزیر اعظم شہبازشریف شہید ڈائریکٹرنویدصادق کے گھر گئے اورشہید کے اہل خانہ سے اظہار ہمدردی کیا اور شہید کیلئے فاتحہ خوانی کی۔ اس موقع پر وزیراعظم نے شہید نویدصادق کیلئے ہلال شجاعت اور شہید انسپکٹر ناصرعباس کوستارہ شجاعت دینے کا اعلان کیا۔انہوں نے کہا کہ نوید صادق شہید اور ناصر عباس شہید پر پوری قوم کو فخر ہے، شہدا نے وطن عزیز کے تحفظ، سلامتی اور دفاع کیلئے ناقابل فراموش قربانیاں دی ہیں، نوید صادق نے دہشت گردی کے خاتمے کیلئے مثالی خدمات انجام دیں۔ ماہرین کے مطابق عالمی برادری کے خاصے بڑے حلقے میں اس حقیقت کا ادراک سامنے آ رہا ہے کہ پاک فوج، عوام اور آئی ایس آئی دہشتگردی کے خاتمے کے لئے لازوال قربانیاں دے رہے ہیں۔ اسی عالمی اعتراف کا نتیجہ ہے کہ کئی انسان دوست حلقوں کی جانب سے گاہے بگاہے پاک فوج اور آئی ایس آئی کی بھرپور تعریف کی جاتی ہے۔ ظاہر ہے یہ بات پاکستان کے مخالفین کو کسی طور ہضم نہیں ہو سکتی، اس لئے انھوں نے پلٹ کر وار کرنے کی کوشش کی ہے اور اپنی سفارتی پسپائی کو فتح میں تبدیل کرنے کی ناکام سعی کی جا رہی ہے۔ اسی تناظر میں کبھی پاک مخالف شخصیتوں کو مہرہ بنا کر ہرزہ سرائی کرائی جاتی ہے اور کبھی کچھ نام نہاد ’تجزیہ نگاروں‘ کے ذریعے ایسی نکتہ آفرینیاں کرائی جاتی ہیں کہ الامان الحفیظ۔ اس تمام صورتحال کا جائزہ لیتے سنجیدہ حلقوں نے رائے ظاہر کی ہے کہ پاکستانی قوم اور قومی سلامتی کے ادارے پچھلے دو عشروں میں جس موثر ڈھنگ سے عالمی دہشت گردی کےخلاف برسر پیکار ہےں وہ کسی سے بھی پوشیدہ نہےں اور کون نہےں جانتا کہ پاکستان نے پچھلے کچھ عرصے میں 80ہزار سے زائد اپنے شہریوں اور 9ہزار سے زیادہ جوانوں اور افسروں کی قربانیاں دی ہےں تاکہ کو دہشت گرد عناصر کا صفایا کیا جا سکے اور یہ سلسلہ ہنوز پوری شدت سے جاری و ساری ہے ۔ اسی پس منظر میں وزیر اعظم شہباز شریف اور پاک سپہ سالار سید عاصم منیر نے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے دوران واضح الفاظ میں کہا کہ پاکستان کی قومی سلامتی اور معاشی استحکام کو یقینی بنانے کےلئے کاوشیں نہ صرف جاری رکھی جائیں گی بلکہ ان کو مزید مستحکم کیا جائے گااور اس ضمن میں کسی قسم کا کوئی سمجھوتہ نہےں کیا جائے گا۔ایسے میں یہ امید رکھنا بےجا نہ ہوگا کہ آنے والے دنوں میں عالمی برادری کے موثر حلقے نہ صرف پاکستان کی قربانیوں کا کھل کر اعتراف کریں گے بلکہ اس کی معاشی مشکلات کو دور کرنے میں معاونت کریں گے