یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ مس¿لہ کشمیر باو¿نڈری کمیشن کے غیر منصفانہ فیصلے ہندو کانگرس اور انگریز حکمرانوں کی مشترکہ سازش کے نتیجے میں پیدا ہوا۔ 1946ءکے الیکشن میں جب مسلم لیگ نے شاندار کامیابی حاصل کی تو علیحدہ ریاست پاکستان کا مطالبہ نہ صرف مضبوط ہوا بلکہ پاکستان کا قیام ممکن ہو گیا۔3جون 1947ءآخری انگریز گورنر جنرل لارڈ ماو¿نٹ بیٹن نے تقسیم ہندوستان کا اعلان کیا جس کے مطابق 14اگست پاکستان اور 15اگست ہندوستان دو علیحدہ ریاستیں بن گئیں۔ برصغیر میں سب بڑی ریاست کشمیر کو ہڑپ کرنے کے لئے پنجاب کے مسلم اکثریتی علاقے ضلع گورداسپور کی تحصیلیں ذیرہ اور پٹھانکوٹ کو باو¿نڈری کمیشن نے 17اگست 1947ءاس لئے غیر منصفانہ طور پر بھارت کے ساتھ شامل کر دیا گیا کہ بھارت کو کشمیر میں داخل ہونے کے لئے زمینی راستہ مہیا ہو جائے۔اسی زمینی راستے سے 27اکتوبر 1947ءکو بھارت نے کشمیر میں اپنی افواج داخل کرکے کشمیر کے بڑے حصے پر قبضہ کر لیا۔ اگر یہ زمینی راستہ حد بندی کمیشن مہیا نہ کرتا تو بھارت کشمیر پر قبضہ نہیں کر سکتا تھا۔یہ مسلم اکثریتی علاقے کسی بھی پہلو سے بھارت کے ساتھ نہیں جاتے تھے مگر اندرون خانہ کانگریسی اور انگریز قیادت نے سازش تیار کرکے عمل کیا تھا۔ اس سازش کو عملی جامہ پہنانے پر لارڈ ماو¿نٹ بیٹن کو ہیرے اور جواہرات کے ساتھ ہندوستان کا گورنر جنرل بھی بنایا تھا۔ تاریخ کا یہ بھیانک پہلو ہے انگریز نے تاریخ نا انصافی کی۔ کچھ لوگ آج بھی کہتے ہیں جی انگریز بہت انصاف پسند تھے۔ ڈوگروں کے قوانین اور انصاف بہت اچھا تھا۔ ایسے لوگ تاریخ سے نا بلد ہیں۔ غیر منصفانہ فیصلوں، ظلم و زیادتی کے خلاف خطہ آزادکشمیر کے لوگوں نے ڈوگرہ سامراج کے خلاف بندوق اٹھائی۔ جہاد کے نتیجے میں 1947ءخطہ آزادکشمیر اور گلگت بلتستان آزاد ہوئے۔ جب بھارت کو1947ءمیں یہ خطرہ محسوس ہوا کہ کشمیر ہاتھ سے نکل رہا ہے تو یکم جنوری 1948ءبھارت مس¿لہ کشمیر یو این او میں لے گیااور اقوام متحدہ کے چارٹر کی دفعہ نمبر 35کے تحت یہ مس¿لہ سلامتی کونسل میں پیش ہوا۔ یکم جنوری 1949ءاقوام متحدہ نے کشمیر میں جنگ بندی کرادی۔ 21اپریل 1948ءمس¿لہ کشمیر حل کرانے کی خاطر 5ممبران پرمشتمل اقوام متحدہ نے کمیشن برائے ہند و پاک قائم کیا۔ 13اگست 1948ءسلامتی کونسل نے پہلی قرارداد رئے شماری منظور کی۔ پہلی منظور ہونے والی رائے شماری کی قرارداد میں 3مرحلہ وار نکات پیش کئے گئے جن میں نمبر 1پاکستان کشمیر سے اپنے تمام شہری بشمول فوجی واپس بلائے گا۔ (2) بھارت کشمیر میں صرف اتنی فوج رکھے گا جو امن و امان کے قیام کے لئے ضروری ہوگی (3) بھارت اقوام متحدہ کا مقرر کردہ رائے شمار کمشنر کشمیر میں تعینات کرے گا، اس کا بھرپور تعاون کرے گا تاکہ غیر جانبدارانہ رائے شماری ہو سکے۔ سلامتی کونسل نے جب رائے شماری کے لئے 5اکنی کمیشن مقرر کیا اور اس کمیشن نے 1949ءمیں جب تمام شرائط طے کیں تو پاکستان اور بھارت دونوں نے اعتراض کیا اتفاق نہ ہو سکا چنانچہ سلامتی کونسل نے دوسرا کمیشن مقرر کیا جس نے نئی شرائط طے کیں اور رائے شماری کے لئے دوسری قرارداد 5جنوری 1949ءکو سلامتی نے منظور کی جسے دونوں ممالک نے قبول کرتے ہوئے اتفاق کر لیا۔ یاد رہے پہلی قرارداد میں رائے شماری کے دوران بھارت کی کشمیر میں محدود پیمانے پر فوج رکھے جانے کی شرط طے کی تھی۔ پہلی قرارداد مبہم اور غیر واضع تھی جس کی وجہ سے پاکستان نے ایک وفد اقوام متحدہ بھیجا تھا کہ نئی قرار داد آئے ابہام دور ہوا اور بھارت اپنی من مرضی سے قرارداد کی تشریح نہ کرسکے۔ 5جنوری 1949ءکی قرارداد رائے شماری کی خاص بات یہ ہے کہ کشمیر میں امن و امان بحال ہونے پر کشمیر میں ناظم رائے شماری مقرر ہوگا۔ دونوں ممالک کی مشاورت سے دونوں ممالک کی افواج کا حتمی انخلاءکا فیصلہ کیا جائے گا۔ ریاست کے تحفظ اور غیر جانبدارانہ استصواب رائے کا خیال رکھا جائے گا۔ اس دوسری قرارداد کے بعد 9قراردادیں اقوام متحدہ سے رائے شماری کے حق میں منظور کی گئیں۔ جواہر لال نہرو مس¿لہ کشمیر اقوام متحدہ میں لے گئے تھے۔ 12فروری 1951ءوزیر اعظم جواہر لال نہر و نے بھارتی پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا ”ہم مس¿لہ کشمیر کو اقوام متحدہ میں لے گئے ہیں ہم نے یہ وعدہ کیا ہے کہ کشمیر کے مس¿لہ کا پرامن حل تلاش کریں گے ہم اپنے وعدے کے خلاف ورزی نہیںکر سکتے۔ مس¿لہ کشمیر کے حتمی حل کو ہم نے کشمیری عوام کی منشاءپر چھوڑ دیا ہے اور ہم نے عزم کیا ہوا کہ ہم کشمیریوں کے فیصلے کی پابندی کریں گے۔ اس کے علاوہ جواہر لال نہرو نے 16اگست 1950ءمیں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو ایک ٹیلی گرام کیا تھا کہ ہم کشمیری عوام کے فیصلے جو وہ رائے شماری میں کریں گے قبول کریں گے۔ بھارت کی تاریخ میں وعدے کرنا اور پھر منکر ہو جانا تاریخ کا حصہ ہے۔ 26اکتوبر 1947ءکشمیر میں قبائلیوں کے حملہ کا بہانہ بنا کر مہاراجہ کشمیر ہری سنگھ نے بھارت سے مشروط الحاق کیا تھا۔ مدد مانگی تھی اور مشروط الحاق کی درخواست دی تھی۔الحاق کے اس معاہدے میں واضح لکھا گیا تھا کہ حالات بہتر ہونے پر رائے شماری کرائی جائے گی۔ اسی الحاق کی درخواست پر بھارت نے 27اکتوبر کو اپنی افواج کشمیر میں داخل کرکے بڑے حصے پر قبضہ کیا تھا۔ 26جنوری 1950ءبھارت نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں ہی بھارتی آئین میں آرٹیکل نمبر 370شامل کرکے کشمیر کی متنازعہ حیثیت کو واضح کیا۔ اس کے تحت کشمیر کو داخلی خود مختاری اور اپنا سیٹ اپ دیا گیا۔ 1953ءمیں شیخ عبداللہ نے کشمیر کی خود مختاری کی تجویز دی تو اسے اقتدار سے علیحدہ کرکے دہلی سرکار نے قید میں ڈا ل دیا حالانکہ 1952ءمیں شیخ عبداللہ کشمیر کی داخلی خود مختاری کے تحت بھارت کے ساتھ الحاق کا معاہدہ کر چکے تھے۔ 1953ءمیں پاک بھارت وزرائے اعظموں کے مابین ملاقات میں طے پایا گیا کہ 1954ءکے آخر تک کشمیر میں رائے شماری کے لئے ایڈمنسٹریٹر تعینات کئے جائیں گے۔ دونوں ممالک نے اتفاق کر لیا لیکن جونہی پاکستان امریکہ کے قریب گیا معاہدہ سیٹو، سنٹو پر دستخط کئے بھارت نے روس کی اشیر باد سے رائے شماری سے انکار کر دیا۔ فروری 1954مقبوضہ کشمیر اسمبلی نے بھارت سے الحاق کی قرارداد منظور کی جب کہ 1957ءمیں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ایک قرارداد کے ذریعے واضح کیا کہ کشمیر اسمبلی کو الحاق کرنے کا اختیار نہیں ہے یہ رائے شماری کا متبادل نہیں ہے۔ کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ رائے شماری کے ذریعے ہوگا۔
26جنوری 1957ءمقبوضہ کشمیر اسمبلی نے ریاستی آئین منظور کیا جس میں ریاست جموں و کشمیر کو بھارتی یونین کا حصہ قرار دیا گیا ۔ 1962ءمیں ہند چین جنگ ہوئی تو چین نے لداخ کے بڑے علاقے پر قبضہ کر لیا۔ 1965ءمیں بھارت نے کشمیر کو بھارت کا صوبہ بنانے کا بل پاس کر لیا ۔ 1984ءبھارت نے سیاچن پر قبضہ کر لیا۔ 1989ءمیں مقبوضہ کشمیر کے بھائیوں نے مسلح جدوجہد شروع ہو گئی جو اب تک جاری ہے۔ 1999ءمیں میاں نواز شریف اور واجپائی نے اعلان لاہور معاہدے پر دستخط کرکے فیصلہ کیا کہ تمام مسائل بشمول کشمیر مذاکرات سے حل کئے جائیں گے۔2004ءسے 2007ءپرویز مشرف اور وزیر اعظم بھارت واجپائی کے درمیان پاک بھارت بیک ڈور ڈپلومیسی مذاکرات کا سلسلہ جاری رہا جس کی روشنی میں 2005ءمیں مظفرآباد سرینگر بس سروس شروع کی گئی۔ 2019ءمیں بھارت نے بالا کوٹ پر حملہ کیا۔ اسی سال 5اگست 2019ءبھارت نے اپنے آئین سے آرٹیکل 370اور 35اے ختم کرکے کشمیر کی متنازعہ حیثیت کو ختم کر دیا۔اب حالت یہ ہے پاکستان مہنگائی، بیروزگاری اور عدم استحکام جیسے مسائل میں بری طرح پھنس چکا ہے۔ پاکستان اس پوزیشن میں نہیں کہ مس¿لہ کشمیر کے حل میں کوئی ٹھوس کردار ادا کر سکے ۔ ہماری دعائیں ایک دن ضرور قبول ہوں گی۔ بھارتی ظلم و ستم کا خاتمہ ہوگا۔ اقوام متحدہ اپنی قراردادوں پر اس لئے عمل نہیں کروا سکا کہ ان کا دہرا معیار ہے۔