حال ہی میں بی بی سی نے رپورٹ دی ہے کہ پاکستان ان تین ممالک میں شامل ہے جہاں شوگر کی بیماری انتہا کو چھو رہی ہے۔ساڑھے تین کروڑ پاکستانی ذیابیطس کا شکار ہیں اور اتنے ہی وہ ہیں جو جانتے ہی نہیں کہ انہیں شوگر ہے۔ مریضوں میں آدھی تعداد نوجوانوں کی ہے لیکن وہ چیک اپ سے ہچکچاتے ہیں۔شوگر کو خاموش قاتل بھی کہا جاتا ہے اس کے علاوہ اس بیماری سے انسانی جسم پر کتنے خطرناک اثرات مرتب ہوتے ہیں وہ ہم سب جانتے ہیں اور ہم میں سے اکثر ان اثرات کو بھگتتے بھی ہیں۔رپورٹ میں نوجوانوں کے اندر شوگر کے
رجحان کا سبب فاسٹ فوڈ کو قرار دیا گیا ہے۔دوسری وجہ موروثیت اور تیسری وجہ کزن میرج بتائی جاتی ہے۔زمینی حقائق یہ ہیں کہ ہم فاسٹ فوڈ سے تو خود کو بچا سکتے ہیں لیکن جہاں تک موروثی طور پر پھیلنے والی بیماریوں کا تعلق ہے تو اس معاملے میں پیدا ہونیوالا بچے بے بس ہیں۔یہی معاملہ ہمارے ہاں کزن میرج کا ہے۔اگرچہ چند عوامی حلقوں تک اس سلسلے میں آگاہی پہنچی ہے لیکن سماجی دباو¿ اور رشتوں کی تلاش میں مشکلات اور خدشات کزن میرج سے اجتناب میں آڑے آجاتے ہیں۔آپ کہہ سکتے ہیں کہ شوگر کے پھیلاو¿ کے اسباب ختم ہونے والے نہیں۔لہذا ہمیں اس کی روک تھام کے دیگر ذرائع استعمال کرنے پڑھیں گے۔ایک تو میری نوجوان نسل سے دست بستہ گزارش ہے کہ خدارا فاسٹ فوڈ سے بچنے کی کوشش کریں۔برگر،پیزا سے پرہیز کریں۔برینڈ
شاپ کی رونقیں جوں جوں بڑھیں گی آپکی صحت ایسے ہی متاثر ہوتی جائے گی۔صرف شوگر نہیں بلکہ معدہ،بلڈ پریشر اور دماغی تناو¿ جیسی بیماریاں بھی اسی فاسٹ فوڈ کے بکثرت استعمال سے جنم لیتی ہیں۔دوسری التماس یہ کہ ہماری بیٹیاں اور بیٹے یہ نہ سمجھیں کہ شوگر صرف بڑھاپے کی بیماری ہے بلکہ ہوسکتا ہے کہ آپ میں موروثی طور پر یہ بیماری منتقل ہوئی ہو۔اس لئے جب بھی موقع ملے اپنا میڈیکل چیک اپ ضرور کروائیں۔شوگر اور بلد پریشر چیک کرنے کے آلات ہر گھر میں ہونے چاہیں۔ماں باپ کو اس جانب ضرور توجہ کرنی چاہیے۔اگر کسی طریقے سے آپکو پتا چل جائے کہ آپ کے اندر شوگر کا رجحان ہے تو پھر اس کے سدباب میں دیر مت کریں ۔کسی ماہر ڈاکٹر سے فوری رابطہ کریں ۔بہت امکان ہے کہ اچھے ڈاکٹر کے دئے ہوئے ڈائٹ پلان اور واک اور ورزش سے آغاز ہی میں بیماری پر قابو پالیا جائے۔شوگر کی ایلوپیتھک دوائیوں سے بچنے کی حتی المقدور کوشش کریں۔ ادویہ ساز کمپنیوں نے ہر دوائی کے سائڈ ایفیکٹس دئے ہوتے ہیں۔اس کا مطلب یہ ہے ایلوپیتھک ادویات کے مسلسل استعمال سے آپکی صحت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور ایک بیماری کے خاتمے کے دوران کئی دیگر پیچیدگیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔اور یہ سلسلہ یوں ہی چلتا ہے حتی کہ انسانی جسم کی قوت مدافعت ختم ہو جاتی ہے۔میں قائد اعظم یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہو کر جاب کررہا تھا کہ میری والدہ بیمار ہوگئیں۔ان کی تیمار داری کی ذمہ داری سنبھال لی۔مجھے کئی برس علاج کے سلسلے میں دن رات دھوپ دوڑ کرنا پڑی۔بڑے بڑے معالجین سے والدہ کو چیک کروانا،دوائیوں کے بارے تحقیق کرنا اور متبادل دوائیوں کا کھوج لگانا میرا شوق بن گیا۔والدہ تو دنیا سے رخصت ہوگئیں لیکن متبادل ادویہ کے حوالے سے میری دلچسپی بڑھتی ہی چلی گئی۔والدہ کے علاج کے دوران کئی بار ایسا ہوا کہ جب بھی کسی ہومیوپیتھک دوائی کو آزمایا تو ریلیف بھی ملا اور کوئی پیچیدگی بھی پیدا نہیں ہوئی۔لیکن جب بھی سینئر ڈاکٹر کو بتایا تو اس نے دل شکنی کی کہ یہ ہومیوپیتھک طریقہ علاج نہیں صرف نفسیاتی دھوکا ہے۔ڈاکٹروں کے رویہ نے مجھے ہومیوپیتھک طریقہ علاج کی طرف بھی متوجہ کیا۔چند سالوں میں میں نے نہ صرف ہومیو پیتھی کا امتحان پاس کیا بلکہ طب یونانی،چینی طریقہ علاج،علاج بذریعہ غذا و پانی ±، روزہ سے اور نمکیات سے علاج، پر بھی ڈھیر ساری تحقیق کر ڈالی۔متبادل ادویہ میں ڈاکٹر کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد میں نے مریض دیکھنے اور انہیں مشورہ دینے کا آغاز کردیا۔جب مریض صحت مند ہونا شروع ہو گئے تو میرا اعتماد بڑھا۔گزشتہ بیس برس سے میں باقاعدگی کیساتھ ہر اتوار کیمپ کرتا ہوں اب تک ہزاروں مریض ان کیمپوں میں آکر ہومیو پیتھک ادویات سے صحت مند ہوچکے ہیں اور کار خیر کا یہ سلسلہ بڑھتا ہی جارہا ہے۔ساری تفصیلات بتانے کا مقصد یہ ہے کہ شوگر کے مریض کسی اچھے ہومیوپیتھک ڈاکٹر سے بھی رابطہ ضرور کریں۔ انسولین پر جانے سے پہلے اگر آپکو ہومیوپیتھک دوائی مل گئی تو یقین جانے آپکی صحت بھی سدھر جائے گی،آپکا میڈیکل بجٹ بھی کنٹرول رہیگا اور مزید بیماریوں سے بھی آپ بچے رہیں گے۔شہریوں کو اگر بہت معمولی خرچے کیساتھ اپنی صحت کو بحال رکھنا ہے تو خدا را ہومیوپیتھک طریقہ علاج کی طرف آئیں۔اتائی ڈاکٹروں سے بچیں لیکن پڑھے لکھے ڈاکٹروں کی اب کمی نہیں رہی۔اب ہچکچانے کی ضرورت نہیں۔پاکستان میں اب جرمنی اور دیگر ممالک کی ہومیوپیتھک ادویات میسر ہیں۔ میرے نزدیک صحت مند پاکستان کی منزل میں ہومیوپیتھک طریقہ علاج کا فروغ بہت لازمی ہے۔میں نے اس کے فروغ کو زندگی کا مشن بنایا ہوا ہے۔میری ان کوششوں کو اب ڈاکٹروں کے بڑے حلقے میں بھی پذیرائی مل رہی ہے۔حال ہی میں کمال لیبارٹریز نے مجھے ہومیوپیتھی کے فروغ کے حوالے سے ایوارڈ سے نوازا۔پاکستانیوں کی صحت کیلئے فکر مند افراد میرے اس مشن میں میرا ساتھ دیں اور سستے،بے ضرر اور زود اثر طریقہ علاج کے فروغ میں اپنے طور پر تحقیق کریں،تبلیغ کریں،نسلوں کو شوگر جیسی خاموش قاتل سے بچائیں!
صحت مند پاکستان کیسے؟
Jan 08, 2023