عموماً اور خصوصاً یہ دیکھا گیا ہے جب کسی کے ہاں بچے کی ولادت ہونے والی ہوتی ہے تو والدین بچے کے مستقبل کو لیکر سو امیدیں لگاتے ہیں کہ یہ ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک ہوگا۔۔۔ بڑھاپے میں ہمارا سہارا بنے گا وغیرہ۔ جوں جوں وقت ولادت قریب ہوتا جاتا ہے توں توں ایک انجانا خوف انہیں گھیرتا جاتا ہے۔
قارئین الیکشن سے قبل پاکستانی عوام کی حالت بھی کچھ اس سے مختلف نہیں ہے۔ ساری قوم امید سے ہے۔ ایک طرف سموگ، فوگ اور دوسری جانب بدترین سیاسی ، سماجی، معاشی حالات کی گھٹن سے ہم اس قدر دلبرداشتہ ہو چکے ہیں کہ ہمیں پرواہ ہی نہیں رہی کہ کون سی پارٹی برسراقتدار آئے۔۔۔ جی چاہتاہے کہ یہ ڈگڈگی بس اب ختم ہو۔ سیاسی رسہ کشی پر راحت اندوری نے کیا خوب کہا ہے۔
نئے کردار آتے جا رہے ہیں
مگر ناٹک پرانا چل رہا ہے
پے در پے سیاسی چپقلش اور زمین بوس ہوتی اکانومی نے لوگوں کو خبطی بنا دیا ہے۔ انہی چکروں میں لوگوں کا سکون غارت ہو چکا ہے۔دکھتی رگ پر ہاتھ رکھتے ہوئے جاوید اختر نے کیا خوب کہا ہے
دھواں جو کچھ گھروں سے اٹھ رہا ہے
نہ پورے شہر پر چھائے تو کہنا۔
قارئین! ذرا ستم ظریفی تودیکھیے کہ نوجوان نوکریوں کے حصول کے لیے جب ڈگریاں لے کر اداروں میں جاتے ہیں تو انہیں یہ جملہ سننے کو ملتا ہے کہ " الیکشن کے بعد آئیے گا"۔ کاروباری حضرات زیادہ رقوم انویسٹ نہیں کر رہے کہ الیکشن کے بعد منصوبہ جات پر عمل درآمد ہوگا۔ اور تو اور پراپرٹی کی خریدوفروخت کا کام بھی الیکشن کی وجہ سے سست روی کا شکار ہے۔ پارلیمنٹ کے ایوانوں سے لیکر سٹریٹ کارنرز تک یہی راگ سننے کو مل رہا ہے کہ"الیکشن ہونگے سب ٹھیک ہوجائے گا"۔ کب ٹھیک ہوگا واللہ اعلم بالصواب ۔ لیکن الیکشن سیزن نے سب کو سیاسی ضرور بنا دیا ہے۔ کوئی شادی کی تقریب ہو یا کوئی مذہبی تہوار۔ لوگ بے لاگ تجزیات و تبصرے کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔سیاسی گفتگو میں ایسے افراد بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں جن کو ان کے گھر والے کسی قسم کی مشورہ طلبی میں شامل نہیں کرتے۔ مضحکہ خیز بات ہے کہ لوگ ایک دوسرے سے دریافت کر رہے ہیں کہ کیا الیکشن ہو رہے ہیں؟ جب دوسرا بندہ اپنا حساب کتاب لگا کر کہتا ہے کہ"جی ہو رہے ہیں " تو دریافت کرنے والا قہقہہ لگا کر کہتا ہے " نہیں ہونے۔۔۔ حالات ہی نہیں بن رہے"۔ قارئین! پاکستانی قوم بڑی امیزنگ قوم ہے، یکدم بیفکر کوئی خوف و حزن نہیں۔ چاہے پٹرول 500 فی لیٹر ہو جائے۔ سہہ لیں گے۔ حق میں بولنے سے گریز ہی کریں گے۔ رو لیں گے مگر متحد نہیں ہونگے۔
پاکستانی قوم کو سمجھنا آسان نہیں ہے اس کا اندازہ جلسوں میں جمع ہونے والی تعداد سے لگایا جا سکتا ہے کہ اگر ایک سیاسی جماعت جلسہ کرے اور جلسہ گاہ میں تل دھرنے کو جگہ نہ ہو۔۔۔ کامیاب جلسہ کرنے پر سیاسی جماعت کا رہنما مخالف پارٹی کو چیلنج کرتا ہے کہ "تم بھی اتنی کرسیاں لگواؤ اور اتنے بندے اکٹھے کرکے دکھاؤ"۔۔۔
قارئین! یقین مانیے کہ مخالف پارٹی کا جلسہ بھی پہلے والے جلسے کو ٹف ٹائم دینے سے پیچھے نہیں ہوتا۔ عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر مخالفین کے جلسے میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک بات جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا وہ یہ ہے کہ پاکستانی قوم کے پاس سہنے کا ٹیلنٹ واقعی موجود ہے۔ کورونا آیا۔۔۔ دنیا ہل گئی، مجموعی طور پر پاکستان میں اس کی شرح بہت کم تھی۔ اقوام عالم انگشت بہ دندان ہوگئیں کہ کس طرح عوام نے ایس او پیز کو ہوا میں اڑا دیا اور انکے پختہ اعتقاد "کچھ نہیں ہوتا" نے انہیں فیل نہیں ہونے دیا۔ کاش ہم اپنے یقین محکم کو زندہ جاوید رکھیں کہ کوئی بلا، وبا ہمیں ہرا نہ سکے۔ کاش ہم انہی اخلاقیات و تہذیب پر مستحکم رہ سکیں جس پر ہمارے قائدین رہے۔ کاش انقلاب سے معمور جذبے سے ہم ترقی پذیر سے ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل ہو سکیں۔
لیکن افسوناک پہلو یہ ہے کہ سیاست دانوں کی لچھے دار باتوں سے بڑی آسانی سے قربانی کا بکرا بن جاتے ہیں۔ آخر کب تک؟۔ مشاہدے میں ہے کہ جب سے سوشل میڈیا کا دور دورہ ہوا ہے سیاست کو لوگ پرسنل لے گئے ہیں اور سیاست پر ہونے والی لڑائیاں ایوانوں سے گلی محلوں اور گلی محلوں سے گھروں تک پہنچ گئی ہیں۔ اتنے اتنے سال لوگوں کی چلنے والی رفاقت مخص سیاسی لیڈران کی بھینٹ چڑھ گئی ہے۔ حتی کہ لوگ اگر ایک جملہ بھی کسی کی پسندیدہ پارٹی کے خلاف کہتا ہے تو لوگ اسے بلاک یا ان فرینڈ کر دیتے ہیں۔ حد ہو گئی ہے ویسے۔۔۔ الیکشن آنے جانے والی چیز ہے مگر براہ کرم اپنے تعلقات خراب نہ کیجیے۔
ان سے امید نہ رکھ، ہیں یہ سیاست والے
یہ کسی سے بھی محبت نہیں کرنے والے