فلسطین کی حالیہ جنگ نے مسلم دْنیا کو بْری طرح بے نقاب کر دیا اور مصلحت نے تمام ممالک کو خاموشی اور بے حسی کی جانب دھکیل دیا ہے۔ ہزاروں فلسطینی عورتوں اور بچوں کی شہادت پر اِسلامی دْنیا کی زبوں حالی کا عالم یہ ہے کہ ابھی تک اسلامی ممالک میں کسی اتحاد یا حمایت کا واضح خاکہ سامنے نہیں آیاجو اسرائیل کو ننگی جارحیت سے روک سکے۔ اور یہ بحث کہ اْمہ حقیقت میں فلسطین کی کیا مدد کرسکتی ہے‘ بھی حالیہ دنوں میں ختم ہوتی جا رہی ہے۔ دْنیا میں تقریباً 57 ممالک اور اْن میں 3 ارب کے قریب مسلمان آباد ہیں لیکن اْن میں اتحاد کا فقدان ہے۔ اْمہ کے اتحاد میں اْنکے اپنے مفادات بڑی رکاوٹ ہیں۔ اْنکی اپنی اپنی مجبوریاں آڑے آتی ہیں۔ اور اْنکے طاقت ور دوست خفا ہوتے ہیں جن کے ساتھ اْنکے طویل مدتی مفادات وابستہ ہیں۔
اگر فلسطین کے مسئلے سے الگ ہو کر بھی دیکھا جائے تو یہ واضح ہوتاہے کہ قریب قریب تمام مسلم ممالک جغرافیائی، سیاسی، اقتصادی اور سیکورٹی وجوہات کی بنا پر ایک دوسرے کے ساتھ کسی نہ کسی مسئلیپر جھگڑے کا شکار ہیں۔ مفادات کا تحفظ مسلم اِتحاد میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے جوتمام اسلامی ممالک سمجھتے ہیں کہ وہ اْنکے ملک کی معاشی ترقی کے لیے مقدم ہے۔ اس صورت ِحال نے مغرب کو مسلمانوں کے درمیان مزید انتشار پیدا کرنے کا موقع فراہم کیا۔ یہ سب کچھ ایسی ہوشیاری سے وضع کیا گیا کہ ہے تاکہ کوئی بھی اسلامی ملک مغرب کی سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی بالادستی کے لیے کبھی بھی کسی قسم کا خطرہ نہ بن سکے۔ا سلامی دْنیا کو درپیش بڑے مسائل کو حل کرنے میں ناکامی اْمہ میں عدم اتحاد اور ایک دوسرے کے لیے حمایت کی کمی کی بہت عمدہ عکاسی ہے۔ فلسطین کے علاوہ مسئلہ کشمیر پر تمامم اسلامی رہنما قائل ہیں کہ یہ ایک حل طلب مسئلہ ہے لیکن اْسکے لیے کوئی آواز نہیں اْٹھانا چاہتا۔ افغان بحران کا جائزہ لیں تو افغان بحران کو کم کرنے کے لیے مسلم ممالک میں کبھی بھی کوئی اتحاد نہیں رہا۔ مختلف مسائل پر بڑھتا ہوا تصادم، فرقہ وارانہ تقسیم، سفارتی تعلقات اور اتحاد کے تصورات سے لاعلمی جیسے عناصر تفرقے کی بڑی وجوہات ہیں۔
اسرائیل فلسطین تنازعہ کو ہی لے لیں۔ یہ تنازعہ 20 ویں صدی کے اوائل میں 1948 میں اسرائیل کے قیام کے ساتھ شروع ہوا جس کے نتیجے میں فلسطینی عربوں کی اپنی زمین سے نقل مکانی اور بے دخلی واقع ہوئی اور اْس وقت سے یہ مسئلہ پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتا چلا گیا اور آج ہونے والی تاریخی بربریت کو چھو گیا۔دْنیا میں یہ تاثر ہے کہ اسرائیل فلسطین تنازعہ کا مسئلہ پیچیدہ اور کثیر الجہتی ہے اور یہ دْنیا کے سارے ممالک کا مسئلہ ہے کیونکہ یہ عالمی انصاف کا مسئلہ ہے جو اقوامِ عالم کا ترجیحی مسئلہ ہے۔ یہ عالمی اخلاقیات کا مسئلہ ہے جو اخلاقی طور پر دْنیا کے سارے ممالک مل کر حل کرنے کے پابند ہیں۔ مسلم ممالک میں بسنے والے مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ مسئلہ فلسطین اسلامی ممالک کا مسئلہ ہے۔ یہ مسلمانوں کے قبلہ اول کا مسئلہ ہے جس کو گذشتہ سات دہائیوں میں وہ حل کروانے میں ناکام رہے ہیں۔اگر یہ مسئلہ اقوامِ عالم حل نہیں کروا سکے کہ اْن کے مفادات آڑے آتے رہے تو یہ مسئلہ 57 اسلامی ممالک بھی تو حل نہیں کروا سکے نہ ہی دْینا کو باور کروا سکے کہ فلسطین ایک سنجیدہ انسانی مسئلہ ہے اور اِ س کا حل بہت ضروری ہے۔
امریکہ، روس اور یورپی ممالک سمیت عالمی طاقتوں نے ہمیشہ امن کے عمل کو پیچیدہ بنانے میں کردار ادا کیا۔ خطے میں مختلف ممالک کے مختلف مفادات، سیکورٹی خدشات، مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں اسرائیلی بستیوں کی تعمیر ، سرحدوں کا تعین اور علاقائی دعوئوں کو حل، فلسطینی دھڑوں کے درمیان اندرونی تقسیم، بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی تشریح اور ان پر عمل درآمد اور بیرونی مداخلت جیسی وجوہات کی وجہ سے یہ مسئلہ آج بھی اپنے حل سے میلوں دْور دکھائی دیتا ہے۔ یہ تسلیم کرنا بہت ضروری ہے کہ اسرائیل-فلسطین تنازعہ کو حل کرنے کے لیے ایک جامع حکمت ِ عملی اور نقطہ نظر کی ضرورت ہے، جس میں سفارت کاری اور مذاکرات کے ذریعے اقوام متحدہ اور تمام فریق شامل ہوں اور اْن میں مسئلہ حل کرنے کا عزم بھی ہو۔ یہ مسئلہ ایک منصفانہ اور دیرپا حل کی طرف تب جائے گا جب تمام عالمی طاقتیں چاہیں گی۔ اسلامی دْنیا کو اب تک باور ہو جانا چاہیے کہ قوموں کی آواز میں اثر قوموں کی ترقی اور معیشت کی وجہ سے ہوتا ہیاور اْس اتحادو یگانگت کی وجہ سے ہو جس کی بنیادیں بہت مضبوط ہوں۔ مثال کے طور پر عالمی تنقید کے باوجود امریکہ ڈٹ کر اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہو گیا ہے اور اسلامی دْنیا ڈٹ کر فلسطین کے ساتھ کھڑی نہ ہوسکی کیونکہ امریکہ اور اسرائیل کے تعلق کی بنیادیں مضبوط ہیں اور اسلامی دْنیا مفادات اور مسائل میں کے چنگل میں پھنسی ہوئی ہے۔
اِس خیال کا بہت پرچار کیا جاتا ہے کہ اگر پوری دْنیا کے مسلمان سیاسی، سفارتی، اقتصادی، تعلیمی، سماجی اور ثقافتی شعبوں میں تعاون کو وسعت دیں اور آپس میں تجارتی تعلقات کو فروغ دیں تو وہ دْنیا کے سب سے طاقتور اور مربوط گروہ کے طور پر سامنے آسکتے ہیں۔ ایسا کرنے سے وہ بین الاقوامی سیاسی، اقتصادی اور سلامتی کے نظام میں بھی استحکام لائیں گے اور کردار بھی ادا کریں گے۔ باہمی انحصار موجودہ دور میں امن اور استحکام کی کنجی ہے۔ قومیں اپنے قومی مفادات میں تعاون کرتی ہیں۔ جب قوموں کے قومی مفادات ایک دوسرے کے ساتھ ملتے ہیں یا ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں تو ان قوموں کے درمیان تعاون ان کے بین ریاستی تعلقات میں ایک فطری نتیجہ ہوتا ہے۔ اس طرح کے تعاون کی مثال سیاست، تجارت اور تجارت، دفاع اور سلامتی اور ماحولیاتی تحفظ وغیرہ کے میدان میں علاقائی یا بین الاقوامی تنظیموں کی شکل میں ملتی ہے۔ دفاع اور سلامتی میں تعاون مختلف اتحادوں، اتحادوں، اجتماعی سلامتی اور اجتماعی دفاعی انتظامات یا معاہدوں کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ لیکن اسلامی دْنیا میں ایسا نہ ہو سکا۔
اسلامی دْنیا کا اپنا انفرادی ڈھنگ ہے اگر آپ اِن کو مغرب کے موازنے کے طور پر دیکھیں گے تو احساس ہوگا کہ یہ لوگ جفاکشی،جہد مسلسل، بلند ہمتی، خود داری، ترقی، آزادی کی تڑپ جیسی صفات سے محروم ہیں۔چونکہ افراد کی تربیت ترجیح نہیں ہے اِس لیے کمزور افراد سامنے آتے ہیں جن کا ملک کی ترقی و خوشحالی میں کمزور کردار ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ اِس وقت سارا عالمِ اسلام کم و بیش دوسروں کادست نگرہے اور لوگ استحصال کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔کسی نے کیا حقیقت بیان کر دی ہے کہ دْنیا میں ہمیشہ کمزور اور ضعیف اِنسان معصوم ہوتے ہیں اور طاقتور لوگ بھیڑیے کی طرح ہمیشہ اْن کو ذبح کرنے کے منتظر رہتے ہیں۔ کمزور بھیڑیں بھلے کثرت سے ہی کیوں نہ ہوں شیر اور بھیڑیے کبھی اْن خائف نہیں ہوتے۔اسلامی دْنیا کو اپنی انفرادی اور اجتماعی کوتاہیوں کو پہچاننا ہوگا اور جہد مسلسل، خودی، عرفان ذات ، آزادی اور حصول علم جیسی صفات اختیار کرنا ہوں گی۔
آج بھی ہم اگر اسلامی دْنیا متحد ہو جائے اور اپنے مفادات اور نظریات کا دفاع کرنا شروع کر دے تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ اپنا کھویا ہوا مقام حاصل نہ کر سکیں۔ لیکن اِس کے لیے ہمیں اپنے مفادات کو بالائے طاق رکھنا ہو گا اور دْنیا کی سیاست کو اسلامی دْنیا کے مفادات کے زاویے سے دیکھنا ہوگا جو شاید اِس وقت زمینی حقائق کی روشنی میں ممکن دکھائی نہیں دے رہا۔ اگر اِ س طرف نہ بڑھا گیا تو پھر کمزور بھیڑیں بھلے 3 ارب ہی کیوں نہ ہوں شیر اور بھیڑیے کبھی اْن خائف نہیں ہوں گے۔