میرا دیس … اویس کورال
awaiskoraal@gmail.com
پاکستان اپنی قدرتی خوبصورتی کی وجہ سے دنیا بھر میں سرفہرست ہے معروف امریکی جریدے "کونڈے ناسٹ ٹریولر" نے پاکستان کو 2020ء میں سیاحت کے لیے دنیا کا اولین(اوربہترین ) ملک قرار دیا۔ فہرست میں برطانیہ (پولیمیتھ) کو دوسرے، کرغستان تیسرے، ارمینیا چوتھے اور برازیل (سلواڈور) کو پانچویں نمبر پر رکھا گیا ہے اسی طرح بالترتیب چلیں تو آسٹریلیا، آئرلینڈ، فلپائن، فرانس، سسلی، سینیگال، یو ایس (پورٹ لینڈ)، لبنان، چین، ڈنمارک، برٹش ورجن آئس لینڈ، مراکش، پاناما، کروشیا اور جاپان کا نمبر بعد میں ہیں۔دنیا کے سب سے بلند پولو گراؤنڈ، شندور میلے، بلند پہاڑ، وادی کیلاش، ملکی ثقافت، تاریخی مقامات کی وجہ سے وطن عزیز کو سر فہرست رکھا گیا۔ سرسبزو شاداب وادیاں، قدیم تہذیبیں، صحرا، میدان، ساحل سمندر اور دیگر ایسے پرکشش فطری نظاریسیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ پاکستان کو اللہ تعالی نے بے پناہ نعمتوں سے نوازا ہے یہاں چار خوبصورت موسم ، خشک اور سر سبز پہاڑ،معدنیات، دلکش اور سر سبز وادیاں،صحرا، ساحل سمندر، ندیاں ، جنگلات،جھیلیں، جزائر،قلعے، تاریخی مقامات ، آثار قدیمہ، سرد اور گرم علاقے اور بے پناہ خوبصورتی ہے۔ بدقسمتی سے سیاحتی ممالک کی فہرست میں پاکستان کا نمبر 47واں ہے۔ دنیا کے سیاحتی ممالک میں فرانس، سپین ، انگلینڈ،میکسیکو، ترکی ، اٹلی، جرمنی اور دبئی سرفہرست ہیں۔ دبئی جو کہ متحدہ عرب امارات کا سب سے بڑا شہر ہے۔دبئی اپنی تعمیرات و رہائش کے عظیم منصوبہ جات ، بلند و بالا عمارات، لگڑری ہوٹل، مالز ،تفریحی مقامات ،کھیلوں کے شاندار ایونٹس اور گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز کے اندراج کی وجہ سے دنیا بھر میں مقبول ترین ہے۔ اس شہر میں جاری عظیم تعمیراتی منصوبے دنیا بھر کے سیاحوں کی نگاہوں کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ ہر سال دبئی میں لاکھوں سیاح آتے ہیں۔ جس سے دبئی کی معیشت مضبوط ہو رہی ہے۔جو چیز ان سیاحو ں کو سب سے زیادہ اپنی طرف متوجہ کرتی ہے وہ دبئی کا انفراسٹریکچر ، رئیل اسٹیٹ سیکٹر اورکنسٹریکشن انڈسٹری ہے۔یہی وجہ ہے کہ دبئی دنیا بھر کے انوسٹرز کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے رئیل اسٹیٹ سیکٹر قومی معیشت کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ تمام ممالک بہتر سے بہترین انفراسٹریکچر کی دوڑ میں شامل ہیں بلکہ اب دنیا آرٹیفیشل انٹیلیجنس پر مبنی سمارٹ سٹی پر انویسٹ کر رہی ہے اسی طرز کے ایک نئے شہر نیوم پر سعودی حکومت اربوں ڈالر سرمایہ کاری کر رہی ہے۔ پاکستان کو بھی انفراسٹریکچر کی اس عالمی دوڑ میں شامل ہونا پڑے گا۔ دنیا میں رئیل اسٹیٹ کو انڈیسٹری کا درجہ حاصل ہے، بلکہ اگر اسے مادر انڈسڑی کہا جائے تو ذیادہ بہتر ہو گا کیونکہ اس کے ساتھ ستر سے زائد دوسری انڈسٹریز منسلک ہیں۔یہی وہ انڈسٹری ہے جو دنیا کی معیشتوں کو مضبوط کرتی ہے۔ماضی میں حکومتوں نے جب جب اس انڈسٹری پر توجہ دی تب تب ملکی معیشت بہتر ہوئی۔ اس کی ایک اہم مثال کرونا کے دنوں میں پاکستانی معیشت تھی۔ کرونا کے دوران حکومت نے کنسٹریکشن کو انڈسٹری کا درجہ دیا اور رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں مختلف پیکجز دیئے جس کی وجہ سے پاکستانی معیشت کا پہیہ چلتا رہا۔سرمایہ داروں نے اپنا سرمایہ کنسٹریکشن انڈسٹری میں لگایا جس کے ثمرات دنیا نے دیکھے کہ جہاں پوری دنیا کی معیشتیں کمزور ہوئی وہاں پاکستان میں معیشت کا پہیہ چلتا رہا۔سی پیک، موٹر وے ، میٹرو بس جیسے بڑے پروجیکٹس ملکی انفرسٹریکچر کو مضبوط کریں گے۔ حکومت اگرپرائیوٹ سیکٹر کو سہولیات فراہم کرے تو کئی بلند و باغ خوبصورت عمارتیں چند سالوں میں وطن عزیز کی خوبصورتی کو چار چاند لگا دیں گی۔ سنٹارس مال اسی طرز تعمیر کی ایک خوبصورت مثال ہے جو اسلام آباد کی خوبصورتی کی چار چاند لگائے ہوئے ہے۔اس کی ایک اور مثال دبئی ڈاؤن ٹاؤن کی طرزپر اسلام آباد کی نجی سوسائٹی میں واقع ڈاؤن ٹاؤن ہے جہاں کام تیزی سے جاری ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر کے کئی بڑے سرمایہ کار رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں سرمایہ کاری کے خواہشمند ہے۔ لیکن اس سیکٹر میں سرمایہ کاروں کو کافی مشکلات کا سامنا ہے۔ معاملہ کسی ہاوسنگ پروجیکٹ کی این او سی کا ہو یا کسی کمرشل عمارت کا نقشہ منظور کروانا ہو متعلقہ محکمے ناکوں چنے چبواتے ہیں۔ اس سارے عمل کو اتنا پیچیدہ کر دیاگیا ہے کہ اب بہت سے سرمایہ کار رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں انوسٹ کرنے سے اجتناب کرتے ہیں۔ اگر حکومت رئیل اسٹیٹ سیکٹر کی سرپرستی کرے تو اسکی گروتھ سے ملکی معیشت مظبوط ہو گی۔اس حوالے سیرئیل اسٹیٹ سیکٹر کے ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت ایف بی آر کی ویلیوایشن پر نظر ثانی کرے۔ انوسٹرز کو وقت پراور میرٹ پر آسانی کے ساتھ اپرولزدی جائیں۔ لو کاسٹ ہاوسنگ کو پرموٹ کیا جائے ، بنجر زمینیں شراکت داری کی بنیاد پر سرمایہ داروں کو ہاوسنگ پروجیکٹس کے لیے مہیا کی جائیں ، کوالٹی کنسٹریکشن پر توجہ دی جائے۔ چھوٹے بڑے سرمایہ داروں کی سرمایہ داری کو محفوظ بنایا جائے اور بروقت ڈیلیوری کو یقینی بنانے کیلیے اقدامات کیے جائیں، پرائیویٹ ہاوسنگ سوسائٹیز کو پروموٹ کیا جائے۔ لیکن پروجیکٹس کو لیگلائز ہونے سے پہلے سیلز کی اجازت ہر گز نہ دی جائے۔کیونکہ ایک اندازے کے مطابق اسوقت پاکستان میں سیکڑوں غیر قانونی ہاوسنگ سوسائٹیز میں چھوٹے بڑیسرمایہ کاروں کا پیسہ بلاک ہے۔ بر وقت قبضہ دینا تو دور، نہ تو ان ہاوسنگ سکیموں کی اپرول ہوئی اور نہ ہی ان میں ڈویلپمنٹ شروع ہوئی۔یہی وجہ ہے کہ ان سوسائٹیز کی ری سیل نہیں ہے اور ریٹ ڈاؤن ہو چکے ہیں جس کی وجہ سے انوسٹرز کو نقصان کا سامنا کرناپڑا ہے۔ سوال یہ ہے کہ بغیر اپرول کے ان ہاوسنگ سکیموں کے مالکان نے کس طرح عوام الناس کو لوٹا ؟کیا متعلقہ ادارے اس دھوکہ دہی میں ملوث ہیں ؟یا متعلقہ افسران سوسائٹیز سے کروڑوں روپے وصول کرنے کیلئے دانستہ ''خاموشی ''اختیار کرتے ہیں۔ ہمارے خیال میں اس کے ذمہ دار چند پرائیوٹ ہاوسنگ سکیمیں اورکچھ سرکاری ادارے ہیں۔ضرورت واقعی ہے کہ ان سوسائٹیز میں سے جو مطلوبہ قانونی تقاضوں پر پورا اترتی ہیں ان کو فورا این او سی فراہم کر کے کام کرنے کی اجازت دی جائے تاکہ سرمایہ کاروں کی سرمایہ کاری کو محفوظ بنایا جا سکے۔ پرائیوٹ ہاوسنگ پروجیکٹس میں اوور سیل کا فراڈ بھی عام ہے۔ ذیادہ تر لیگل پروجیکٹس نے این او سی سے زائد پلاٹس سیل کیے ہوئے ہیں۔ ان ہاوسنگ سکیموں کی مزید سیل پر پابندی لگائی جائے۔ حکومت اس سارے عمل پر توجہ دے توچھوٹی سطح انویسٹرز کا ڈوبا ہوا سرمایہ نہ صرف محفوظ ہو گا بلکہ آئندہ سال اربوں کی متوقع سرمایہ کاری اس سیکٹر میں آئے گی۔ پاکستان میں سی پیک گیم چینجر ہے۔ پوری دنیا کی نظریں اس وقت سی پیک کی طرف ہیں۔اگر حکومت درپیش مسائل کو حل کر کے انویسٹرز کو سہولیات فراہم کرے تو اربوں ڈالر کی انویسٹمنٹ پاکستان میں آ سکتی ہے جس سے پاکستان کا انفراسٹریکچر اچھا ہو گا۔ رئیل اسٹیٹ سیکٹر اور کنسٹریکشن انڈسٹری کی گروتھ ہو گی، روزگار کے مواقع فراہم ہونگے۔انویسٹرز اور ڈویلپرز کی امیدیں الیکشن کے بعد آنے والی نئی حکومت پر ہیں کہ وہ رئیل اسٹیٹ انڈسٹری کے حوالے سے بہتر اقدامات اٹھائے گی جس سے ملکی معیشت کو فروغ ملے گا۔
رئیل اسٹیٹ انڈسٹری اور سیاحت لازم وملزوم
Jan 08, 2024