”پاکستان کو بُرا مت کہیں“.... (1)

شکر ہے کہ کسی نے تو کسی کو اس بات پر سرزنش کی کہ پاکستان کو بُرا مت کہیں۔ حج کوٹہ کیس کے دوران ایک وکیل نے دلائل کے دوران کہا کہ حج معاملات کے حوالے سے اس ملک میں عرصہ سے یہی کچھ ہوتا آ رہا ہے۔ اس موقع پر جسٹس عارف خلجی نے وکیل کو سختی سے پاکستان کو بُرا بھلا کہنے پر روک دیا۔ ایسے واقعات خال خال ہی ہوتے ہیں چلو کسی کو تو احساس ہوا کہ اس ملک کی عزت اور اس ملک سے محبت اس کے شہریوں کا بھی فرض ہے۔ 64 سالوں میں اس خوبصورت، زرخیز، تروتازہ، محبتوں اور رحمتوں سے لبریز اس مادر گیتی کو جس کا بس چلا اس نے صرف لوٹا کھسوٹا ہے۔ پھر بھی پیارے قائد کی اس دھرتی نے ہر نفرت کے بدلے پیار کے پھول کھلائے۔ اس ملک کے سینے پر انگارے برسائے گئے لیکن وطن عزیز نے پھر بھی راحت اور ٹھنڈک عطا کی۔ اس ملک میں کیسے کیسے طوفان آئے، کیسی کیسی سازشیں برپا ہوئیں اور کس بے رحمی، سفاکی سے اس پاک سرزمین کے ٹکڑے کئے گئے۔ سب تماشائی بنے رہے.... کارگل میں پسپائی دیکھنی پڑی۔ کشمیر کا دُکھ تو پاکستان کی کوکھ میں روز اوّل سے بھر دیا گیا تھا۔ آزادی کے وقت برطانوی ہندوستان میں ریاستوں کی تعداد 560 تھی مگر پاکستان کے حصے میں کتنی آئیں کیونکہ نفاق اور نفسا نفسی تو تحریک پاکستان کے وقت بھی بعض نام نہاد مسلمانوں نے دکھا کر پاکستان کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا تھا۔ انہیں متحدہ ہندوستان عزیز تھا۔ ایک آزاد اسلامی ریاست کے مقابلے میں وہ ہندوستان کے وفادار کہلانا چاہتے تھے۔ مسلم لیگی کی جگہ کانگریسی کا لیبل زیادہ پُر کشش اور طاقتور لگتا تھا لیکن وہ جو اصلی پاکستانی کہلائے۔ انہوں نے پاکستان کے ساتھ کیا کیا۔ جونا گڑھ، حیدر آباد، کشمیر، گورداسپور سے ہاتھ دھونے پڑے۔ اسی طرح مناودر، منگرول کی ریاستوں کا انجام بھی وہی ہوا۔ پختونستان کا شوشہ پاکستان کو کمزور کرنے کے لئے چھوڑا گیا۔ غرضیکہ پاکستان جس کے لئے قائد اعظم نے اپنی جان کی پرواہ نہ کی اور مہاجرین کی ایک بہت بڑی تعداد جنہوںنے اپنے پیارے ہمیشہ کیلئے کھو دیئے۔ اپنی بہن بیوی بیٹیوں کی عصمتوں کو تار تار ہوتے دیکھا۔ خود اپنے جسموں پر کبھی نہ بھرنے والے گھاﺅ کھائے۔ اپنی جائیدادیں اور اپنی جائے پیدائش کو چھوڑا لیکن ان سب کو بدلے میں کیا ملا۔ آج وہ لوگ پسماندگی، غربت اور گمنامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ کوئی ان کا پُرسان حال نہیں۔ ایک نظریہ پاکستان ٹرسٹ ہے جو ہر سال مہاجرین اور تحریک پاکستان کے لئے خدمات اور قربانیوں کے عوض گولڈ میڈل دے دیتا ہے یا پاکستان کی آزادی کے مقاصد کو زندہ رکھتا ہے ورنہ اس اتنے بڑے ملک میں جہاں بے شمار کھرب اور ارب پتی موجود ہیں۔ جنہوں نے پاکستان کی سرزمین سے دولت کے ذخائر اکھٹے کئے ہیں۔ کیا کبھی ان امراءنے ان لوگوں کو پوچھا جنہوں نے اپنی قربانیوں سے یہ ملک بنایا۔ پاکستان بننے کے بعد اشرافیہ کا ایک نیا طبقہ وجود میں آیا جسے عرف عام میں ”نو دولتیے“ کہا جاتا ہے۔ ان لوگوں نے ملک میں حرص و ہوس کو ہوا دی۔ راتوں رات کو امیر ہونے کے نسخے عام کئے۔ جھوٹے کلیموں پر لوگ راج کرنے لگے۔ بڑے بڑے گھر اور جاگیریں الاٹ ہوئیں۔ ہندوﺅں کی چھوڑی ہوئی دولت پر اُن لوگوں نے قبضہ کیا جن کا کوئی حق نہ تھا۔ قائد اعظم اور لیاقت علی خان کی آنکھ بند کرا دی گئی اور ملک کرپٹ عناصر کے ہاتھوں میں آ گیا۔ اس سے بڑا کیا المیہ ہو گا کہ مادر ملت جن کی خدمات کے سامنے پورے پاکستان کا سر جھکتا ہے۔ اس عظیم ہستی، بانی پاکستان کی لاڈلی بہن اور پاکستان کی محسنہ کو انتخابات میں دھاندلی کی ناقابل فراموش مثال کے ساتھ شکست فاش دی گئی۔پاکستان کتنی امنگوں، چاہتوں، خوابوں، خواہشوں، قربانیوں اور تکلیفوں کے ساتھ وجود میں آیا تھا لیکن اس پاک سرزمین پر نفاق کا ایسا بیج بویا گیا۔ بددیانتی، خود غرضی اور بے حسی کی کھاد نے نسلوں کی نسلوں کو لپیٹ میں لے لیا۔ آج یہ تحقیق کرنا تو آسان ہو گا کہ پاکستان میں محب وطنوں کی تعداد کتنی ہے لیکن بے ضمیروں، منافقوں، سازشیوں، بے ایمانوں اور جھوٹے دھوکے بازوں کو شمار کرنا ناممکن ہو چکا ہے۔ اس کا اندازہ اسی خبر کے پہلو میں شائع شدہ خبر سے لگانا آسان ہے۔ اس خبر کے مطابق قانون، انصاف، ایمانداری میں پاکستان 66 ممالک میں سب سے آخری نمبر پر ہے۔ کبھی کسی نے یہ سوچا ہی نہیں کہ پاکستان سے محبت، وفاداری، پاکستان کی خدمت، ملک کے لئے محنت اور وطن عزیز کی عزت و حرمت، حفاظت و سالمیت ہمارا ایمان ہونا چاہیے۔ جس دھرتی کی آغوش میں پلے بڑھے، جس زمین سے ناطہ ہے جس کی مضبوط سرحد سے تحفظ ملا اور جس ملک سے دولت اور عیش و عشرت کے انبار لگائے۔ اسی کا کلیجہ نوچنا، اسی کو کوسنا اور اسی کی جگ ہنسائی کا سبب بننا بھی شاید اسی واحد قوم کا وطیرہ ہے۔ جب پاکستان قائم ہوا تھا تو صرف سولہ خاندان تھے جو امراءکے زمرے میں آتے تھے۔ آج کم و بیش 16 لاکھ خاندان ارب پتی ہیں۔ کروڑ پتی اور لکھ پتی تو کروڑوں کی تعداد میں ہیں۔ اسی ملک میں چند کروڑ غریب اور کئی کروڑ متوسط لوگ بھی ہیں۔ اسی ملک سے سب نے عزت دولت پائی۔ اسی ملک میں خاندان وجود میں آئے اور اسی ملک نے ہر مشکل میں اپنے دامن میں پناہ دی لیکن پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد اتنی ناشکری، بے صبری اور خود غرض ہو گئی کہ اس نے اپنے چھوٹے چھوٹے ذاتی مفادات کیلئے ملک کو بھی داﺅ پر لگانے سے گریز نہ کیا۔ یہ تو سو فیصدی درست ہے کہ پاکستان کے حصے میں جتنے سیاست دان اور حکمران آئے.... سبھی ایک سے بڑھ کر ایک کرپٹ نکلا۔ اگر ایک بھی حکمران محب وطن ہوتا تو آج پاکستان ایک مختلف طرح کا ملک ہوتا۔ (جاری)

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...