موجودہ و سابقہ سربراہانِ مملکت کو سب سے زےادہ شکاےات پٹواری اور پولےس کے خلاف رہی ہےں۔ اسی طرح خادمِ اعلیٰ پنجاب نے بھی پٹواری ختم کرنے کواوّلےت بخشی ہے لےکن وہ کچہرےوں کوبھول گئے ہےں۔شاےد اسکی وجہ ےہ ہے کہ انہی دنوںمےں چےف جسٹس صاحب نے فرماےا ہے کہ ہماری جوڈےشری‘ آرمی کی طرح عام طور پر کرپشن سے پاک ہے۔ لےکن ان کامطلب ہائی کورٹ کے جج صاحبان ہےں‘ ورنہ کچہری کے منشی عوام کی نظروں مےںپولےس کے بعد تےسرے نمبر پرآتے ہےں۔ اور ےہ بات دلچسپی سے خالی نہ ہوگی کہ حال ہی مےں بھارتی وزےراعظم کے اےک حقےقت افروز بےان مےں بتاےاگےاہے کہ بھارت مےں عدالتےں عوام کااعتماد کھوچکی ہےں کےونکہ ےہ لوگ انصاف دےنے مےں ناکام ہوگئے ہےں۔ واضح رہے کہ بھارت اور پاکستان دونوں نے انگرےزوں سے رومن جوڈےشری سسٹم ورثہ مےں پاےا ہے اور اسی لئے مرحوم جسٹس کےانی صاحب اس سسٹم کو عدالت کی بجائے کچہری کانام دےتے تھے۔ فی الحال ہم خادمِ اعلیٰ کے اعلان پٹواری نظام کے خاتمے کی طرف واپس آتے ہےں۔
بہر حال راقم پولےس کے بارہ مےں بہت کم جانتا ہے۔ البتہ پاکستان کے عام دےہاتی زندگی مےں ہر آدمی کو پٹواری سے ضرور واسطہ پڑتا رہتا ہے ۔ہر شعبہ مےں اچھے لوگ بھی ضرور ہوتے ہےں‘ لےکن ےہ کم ہوتے ہےں اور شاےد نظر بھی نہےں آتے۔ ےہاں پر اکثرےت کا ذکر ہے۔ تقرےبا1973ءمےں مجھے فرد ملکےت کی ضرورت پڑی لےکن ےہاں سےٹلائٹ ٹاﺅن مےں متعےن پٹواری امتےاز قرےشی نے نصف درجن چکر لگوانے کے باوجود مےرے ملازم کونقل نہ دی ۔ مجبورا مجھے خود پٹواری کی خدمت مےں حاضری دےنی پڑی۔ اس نے بڑی گر مجوشی سے پذےرائی کی۔ کرسی پےش کی‘ سپےشل دودھ پتی منگوائی اور فوراً فرد کی نقل بنادی۔ فرد کے اوپر لکھاتھا دوروپے فےس وصول کرکے نقل بنا کردی گئی چنانچہ دوروپے کی رقم حقےر سمجھ کردس روپے کانوٹ ےہ سوچ کر پےش کےا کہ اگر پٹواری صاحب نے بقےہ رقم واپس کردی توخےر اور اگر نوٹ رکھ لےا تو فبھا ۔ لےکن پٹواری صاحب نے فرماےا نقل آپ کی نذرہے اور ےہ دس روپے دےکر مےری ہتک مت کرےں ےہ کسی زےارت پر چڑھاوا بھجوادےں ۔ اسی دوران دوچار سائلوں کوپٹواری نے اےک سو روپےہ کے حساب سے فرد دئےے تھے۔ مےں نے بے تکلف ہوتے ہوئے پوچھا کہ دوروپےہ فےس کی بجائے اےک سو روپےہ جو لےتے ہےں‘وہ ذرا زےادہ نہےں؟ واضح رہے کہ پٹواری سطح کے گورنمنٹ فنکشزی چھوٹے موٹے کام کے لئے آنے والے کوسائل کہتے ہےںاورموٹی رشوت دےنے اور کار پر آنے والے کو سامی(آسامی) کہتے ہےں۔ بہرحال پٹواری صاحب نے جواب دےا”صاحب جی‘ 300روزانہ تو مےری رسوئی کاخرچ ہے اور پھر اس مےں توحصہ بہت اوپر تک بھی جاتاہے “۔مےں نے کہا ”پھر تو100روپے کی فےس مناسب بنتی ہے کےونکہ حکومت تو(1973مےں ) صدر پاکستان کوبھی غالباً۔ 9000ماہوار کچن کاخرچ نہےں دےتی ۔“ بعد مےں ےہ اختےار قرےشی صاحب ‘ضےاءالحق مارشل لاءمےں رشوت لےتے ہوئے پکڑے گئے اور انہےں 7سال قےد کی سزا ہوگئی ۔
نواب کالاباغ نے جو غالباً دوسرے زمینداروں کی طرح خود بھی پٹواری گزیدہ تھے حکم جاری کردیا کہ آئندہ پٹوار خانہ میں صرف انگریزی ہند سے لکھے جائیں گے لیکن پرانا ریکارڈ اب بھی کنفیوژن پھیلا نے کے لئے کافی ہے۔ آج کل کے میٹرک دور میں پیمائش میٹر کی بجائے کرم‘ جریب‘ مرلہ اور کنال میں کی جاتی ہے۔ پیمائش کے لئے 5سو سال قبل شیر شاہ سوری کی بنائی ہوئی دس کرم لمبی آہنی جریب استعمال کی جاتی ہے۔ جس کی 100کڑیوںمیں اگر صرف ایک سوتر کا تناﺅ یعنی 1/8ً تناﺅ کم رکھا جائے تو ایک جریب کی پیمائش میں تقریباً ایک فٹ کا فرق پڑ جاتا ہے راقم کئی برسوں سے متواتر لکھتا رہاہے کہ دیہاتی زندگی کو اس پٹوار خانہ کے عذاب سے نجات دلانے کے لئے اراضی کے سارے ریکارڈ کو زمانہ کے مطابق کمپیوٹر وغیرہ کے حوالے کیاجائے۔آج کل کمپیوٹر کا دور ہے تو ضرورت اس بات کی ہے کہ سارے ریکارڈ کو کمپیوٹرائز کر کے پٹواری کو فارغ کردیا جائے۔ اس سلسلے میں ہم گزارش کریں گے کہ گورنر پنجاب محکمہ ریونیو کے کسی سینئر ریٹائرڈ افسر کی نگرانی میں کمشن قائم کریں‘ جس کے اراکین میں زمینداروں ‘ کاشتکاروں اور محکمہ مال کے نمائندے شامل ہوں اور یہ کمیشن جلد سے جلد پٹواری کو فارغ کر کے ریونیو سسٹم کے لئے پلان تیار کردے اور اس طرح ہم ریونیو سسٹم کو اکیسویں صدی کے شایان شان بنا دیں۔“
خادم اعلیٰ پنجاب کوپٹواری نظام کے خاتمہ کے ساتھ ساتھ قبضہ گروپ کی وبا پر قابو پانے اور ناجائز قابضین کے خلاف دہشت گردی کے قانون کے تحت فوری کارروائی کرنی چاہئے۔ واضح رہے کہ عام تاثر یہ ہے کہ اراضی کی حد تک قبضہ گروپ کی کار روائی میں پٹواری کی اعانت بھی شامل ہوتی ہے۔ اس لئے ہر ناجائز قابض کا علم پٹواری کو لازمی ہوتا ہے‘ اسی لئے ایک زرخیز دماغ فوجی افسر نے تجویز دی کہ اگر متعلقہ پٹواری ناجائز قبضے کی بروقت تحریری اطلاع اپنے محکمے کو نہیں دیتا تو ناجائز قابضین اور متعلقہ پٹواری دونوں کے خلاف دہشت گردی قانون کے تحت کار روائی کی جائے۔
اب پاکستان میںوزیر اعظم میاں محمد نواز شریف صاحب اور خادمِ اعلیٰ پنجاب موجودہ غیر ہمدرد کرپٹ اور غیر فعا ل انتظامیہ سے نجات حاصل کرنے کے لئے ظاہری لیپاپوتی کی بجائے اسے نئے سرے سے تنظیم نو کرناپڑے گی۔ پٹواری جو ملک کی 80فیصد آبادی کی گردن پر بیٹھا ہے‘ اسے ختم کرنا ہوگا۔ عوام کو پولیس کے ظلم اورزیادتی سے نجات دلانی ہوگی۔ موجودہ کمشنر‘ ڈی سی اور اے سی سسٹم کو ختم کرکے انتظامیہ کو تعمیر و ترقی کے شعبوں سے الگ کر کے انتظامیہ کو ہر سطح پر منتخب نمائندوں کے حوالے کرنا ہوگا اور تعمیر و ترقی کے شعبے‘ ملک کے ہمدرد ٹیکنوکریٹ افراد کے حوالے کرنے ہوں گے اور یہ کام آسان نہیں۔ اس کےلئے حکومت کو حجاج بن یوسف بننا پڑے گا۔