عمران خان نے چند دن پہلے کہا کہ تحریک انصاف کی بنیاد مواحد حسین نے رکھی تھی اس بات کا امریکہ کے ساتھ کیا تعلق‘ اب مواحد حسین تحریک انصاف میں نہیں ہے۔ کون پوچھے عمران خان سے کہ اسے پتہ بھی ہے کہ مواحد حسین کہاں ہے؟ مواحد حسین جہاں بھی ہو وہ مسلمانوں کے لئے سوچتا ہے۔ پاکستانیوں کے لئے تڑپتا ہے۔ پاکستان کے نامور کارکن کرنل امجد حسین کا بیٹا ہے وہ مرحوم حمید نظامی کے گہرے دوستوں میں سے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ مجید نظامی نے اپنے بڑے بھائی کے مشن کو اگلی منزلوں تک پہنچا دیا ہے۔ مواحد حسین مشاہد حسین کے بھائی ہیں بلکہ مشاہد حسین مواحد حسین کے بھائی ہیں۔ مواحد نوائے وقت اور دی نیشن میں ہفتہ وار انگریزی میں کالم لکھتے ہیں امریکہ میں رہتے ہیں۔ وہاں بھی چھوٹا سا پاکستان بنایا ہوا ہے۔ اکثر پاکستان بھی آ جاتے ہیں۔ ان سے تحریک انصاف کے حوالے سے بھی بات ہوتی رہتی ہے۔ وہ عمران خان کے حوالے سے بات کرتے ہیں تو ایک افسردگی سی ان کے لہجے میں ہوتی ہے۔ جب تحریک انصاف بنائی گئی تو جتنے لوگ اسے بنانے والے تھے۔ ان میں کوئی ایک بھی اب نظر نہیں آتا۔ نسیم زہرا بھی تب تحریک انصاف میں ساتھ تھی۔ لگتا ہے اسے اس جماعت کے بکھرنے کا غم نہیں ہے۔ وہ عمران خان سے ٹی وی چینل پر بات کرتی ہے تو لگتا ہے کہ وہ عمران خان کے ساتھ ہے۔ ڈاکٹر شیریں مزاری بھی تحریک انصاف کے ساتھ نہیں ہے۔ عمران خان کے ساتھ ہے۔ فوزیہ قصوری نے تحریک انصاف چھوڑ دی ہے مگر اب بھی اس کے آنسو بتاتے ہیں کہ وہ بہت مجبور ہو گئی ہے۔ اس نے عاصمہ چودھری سے بات کرتے ہوئے ٹی وی چینل پر کہا کہ اب شاید عمران خان کو میری ضرورت نہیں رہی۔ کرنل امجد حسین کے گھر پر مواحد حسین سے بات ہو رہی تھی۔ مشاہد حسین بھی موجود تھے۔ کوئی نوجوان ملنے آیا وہ نابینا تھے اس سے گفتگو میں مشاہد حسین پوری طرح حاضر تھے۔ جاتے ہوئے اسے ایک ٹوکری پھلوں کی تحفے میں دے دی۔ وہاں ایک محترم دوست کہنے لگا کہ یہ مہمان نوازی کی ادائے دلبرانہ ہے۔ جو سچے لوگوں کے گھروں کی روایت ہے ہم ایک بار عمران خان سے ملنے گئے وہ ابھی گھر کے اندر تھے۔ پانی کی طلب ہوئی تو ان کا ملازم کہنے لگا صحن میں نلکا لگا ہوا ہے آپ وہاں جا کے پیاس بجھا لیں۔ مواحد نے بات چیت کو بین الاقوامی مسائل کی طرف موڑ دیا اور ہم عمران خان کو بھول گئے۔ مواحد نے ایک زبردست بات کی۔ ”نائن الیون کے بعد امریکہ واحد سپر پاور نہیں رہا۔“ روس اور چین تو اب تک پاور ہیں مگر امریکہ کو چھوٹے چھوٹے ملکوں نے چیلنج کرنا شروع کر دیا ہے۔ مجھے خورشید رضوی کا شعر یاد آ گیا کسی خیال کو عالمی تناظر میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ امریکی تھنک ٹینک مواحد حسین کی بات اور خورشید قصوری کے شعر کے حوالے سے امریکی پالیسی سازوں کو سمجھائیں کہ اب امریکہ خود اپنا دشمن بنتا جا رہا ہے امریکہ کو اس طرح ضائع ہوتے دیکھ کر دکھ ہوتا ہے کہ وہ بڑا ملک ہے۔ اسے زوال تو ہو گا مگر اس طرح کا زوال امریکہ کے دشمنوں کے لئے بھی شرمندگی ہو گی۔
وہ جو مجھ میں ایک اکائی تھی وہ نہ جڑ سکی ۔۔۔ یہ جو چھوٹے چھوٹے سے کام تھے مجھے کھا گئے
امریکہ نے اپنے بڑے دل اور دماغ والے صدر اوباما کو کچھ نہ کرنے دیا۔ وہ امریکہ کو ایک نیا امریکہ ایک عظیم امریکہ بنا سکتا تھا۔ اس طرح بھی سپرپاور بنا جا سکتا ہے کہ چھوٹے ملکوں کو عزت دی جائے۔ اذیت اور ذلت کے مارے لوگوں کا دل جیت لیا جائے ہر جگہ طاقت کا استعمال کرنے والا ظالم ہوتا ہے اور ظالموں کے ساتھ کوئی محبت نہیں کرتا۔ ظلم کے ذریعے اپنی دہشت قائم کرنا سب سے بڑی دہشت گردی ہے۔ اب امریکی عوام بھی اپنے حکمرانوں کے اس رویئے سے بیزار ہیں جب امریکی حکمران اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ انہوں نے غلطی کی تھی تو انہیں معاف کرنے والا کوئی نہ ہو گا شاید وہ خود بھی اپنے آپ کومعاف نہ کر سکیں۔ مواحد حسین نے بہت گہری بات کی کہ باراک اوباما نے حلف لیتے ہوئے کہا تھا کہ میرا پورا نام لیا جائے۔ جب انہیں صرف باراک اوباما کہہ کر پکارا جا رہا تھا۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ حسین کے کردار سے بھی واقف ہے تو پھر وہ کربلا سے بھی باخبر ہو گا۔ وہ یہ بھی سوچتا ہو گا کہ امریکہ نے مظلوم مسلمانوں کے لئے جگہ جگہ کربلائیں قائم کی ہوئی ہیں۔ یہ کربلائیں نامکمل ہیں کہ حسین ابھی کربلا نہیں پہنچا وہ کہیں نہ کہیں ہے اور اب حسین کا کردار اس سے آگے کا ہو گا۔ انقلاب کی بنیاد امام عالی مقام نے رکھی تھی اب انقلاب کی تکمیل بھی کوئی حسین کرے گا۔ مواحد حسین نے کہا کہ میں حسین کا منتظر ہوں اس سے پہلے قافلہ حسین کی تیاری مکمل ہونا چاہئے۔ وہ وقت کچھ اور تھا جب علامہ اقبالؒ نے کہا تھا۔ ....
قافلہ حجاز میں ایک حسین بھی نہیں
مواحد امریکہ میں بھی مسلمانوں کے طرز زندگی سے مایوس ہے کہ مسلمان باہر کے ملکوں میں بھی صرف پیسہ کمانے میں لگے ہوئے ہیں۔ کسی نہ کسی قوم کی کوئی کمزوری ہوتی ہے۔ مسلمانوں پاکستانی مسلمانوں کی کمزوری پیسہ ہے۔ پاکستان میں حکام اور محکوم سب پیسہ بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔ وہ بیرون ملک کسی اور مقصد کے ساتھ نہیں جاتے یہی مقصود ہوتا ہے کہ پیسہ کما کے لانا ہے جب کہ اب اپنے مقصد کا تعین کرنا ہے علم سائنس اور ٹیکنالوجی میں کمال حاصل کرنا بڑا ضروری ہے۔ صدر اوباما کی دوسری جیت امریکہ کے لئے عالم انسانیت اور عالم اسلام کے لئے ایک نئے پیغام کی طرح بن سکتی ہے۔ جس تبدیلی کی آرزو اوباما کے دل میں ہے۔ اسے باہر لے کے آنے کا وقت آ گیا ہے۔ اس سے پہلے ایک بہت بامعنی بات مواحد حسین نے کی کہ اسلامک سمٹ لاہور شاہ فیصل اور بھٹو صاحب کی بہت بڑی معرکہ آرائی تھی۔ اس کا فالو اپ بڑا ضروری تھا بین الاقوامی طاقتیں اس کی راہ میں بڑی رکاوٹیں تھیں۔ صدر اوباما کی راہ میں بھی بڑی رکاوٹیں ہیں۔ بات پھر صدر اوباما کی طرف چلی گئی اب امریکہ بھی اپنے کسی نئے زمانے کا منتظر ہے۔ صدر اوباما کو موقعہ ملنا چاہئے کہ وہ کوئی رول ادا کر سکے۔ مواحد حسین نے ایک حیران کن بات بتائی۔ یہ بات امریکہ کے اخبارات میں شائع ہو چکی ہے۔ صدر اوباما سے پوچھا گیا کہ آپ کو خوبصورت آوازوں میں کون سی آواز اچھی لگتی ہے انہوں نے بے ساختہ کہا کہ مجھے اذان کی آواز پسند ہے۔ وہ تو چاہتا ہے کہ مسلمانوں کو کوئی اجتماعی قومی دکھ نہ ملے مگر مسلمانوں میں شاہ فیصل کے بعد کوئی لیڈر ہی پیدا نہیں ہوا۔ محمد مرسی کا کیا حشر ہوا۔ وہ مسلمانوں کا لیڈر کیسے ہوتا وہ تو مصری مسلمانوں کے لئے کوئی جینوئن حکمت عملی نہیں بنا سکا۔!