وطن عزیز کا موسم اور سیاسی حالات جس تیزی کے ساتھ تبدیل ہو رہے ہیں ان پر آنکھیں بند کرکے تبصرہ کر لینا دانشمندی نہیں کہلائے گی۔ صبح کے وقت رم جھم دوپہر کو آگ برساتا ہوا سورج شام کو جان لیوا حبس اور رات کو گھٹائیں اور رم جھم بالکل اسی طرح جیسے نثار علی خاں ایک روز قبل اپنے بڑوں اور دوستوں سے ناراض ہوں اور اگلے ہی دن خوشی خوشی امور وزارت داخلہ چلانے لگیں اور ایک بار پھر خواجہ آصف وغیرہ کے ساتھ شیر و شکر ہو جائیں۔ یہ صورتحال پاکستان کے صحافتی پنڈتوں اور تجزیہ نگاروں کے لئے تکلیف کا باعث بنی ہوئی ہے۔ لکھیں تو کیا لکھیں بولیں تو کیا بولیں۔ کسی بات کسی واقعے اور کسی چیز کو حتمی قرار نہیں دیا جا سکتا کون کہہ سکتا ہے کہ نثار علی خاں کل کو عمران خان کی گود میں بیٹھے ہوئے نظر آئیں گے۔ کون دعویٰ کر سکتا ہے کہ 14 اگست کو اسلام آباد میں دیا جانے والا دھرنا ہو کر رہے گا۔ کوئی بڑے سے بڑا جوتشی بھی یہ اندازہ نہیں لگا سکتا کہ طاہر القادری رمضان المبارک اور عید کے بعد کیا لائحہ عمل اختیار کریں گے۔ ان کا انقلاب کدھر سے طلوع ہو گا اور کس جانب غروب ہو گا۔ کوئی ہے جو یہ بات دعویٰ کے ساتھ بیان کر سکے کہ ”تینوں رب دیاں رکھاں“ والا رانا ثناءاللہ باعزت طور پر بچ جائے گا کوئی بھی تو نہیں۔ کون ہے جو شیخ رشید احمد کے عنقریب لئے جانے والے یو ٹرن کی پیش گوئی کر سکے۔ یہ سب کیا دھرا بے وفا موسم کی طرح ناقابل اعتبار سیاست کا ہے۔ جس طرح موسم کا اعتبار نہیں کیا جا سکتا بالکل ویسے ہی سیاسی کرداروں کے بارے میں کوئی حتمی رائے قائم نہیں کی جا سکتی۔کل تک خواجہ سعد رفیق ٹائپ سیاستدان عمران خان اور طاہرالقادری کے لتے لیتے ہوئے تھکتے نہیں تھے آج وہی لوگ مفاہمت اور مذاکرات کی باتیں کرنے لگے ہیں۔ کل تک خواجہ آصف ایسے لیڈر پاک فوج کے بخئے ادھیڑتے رہے اور آج پاک فوج زندہ باد کہتے ہوئے نہیں تھکتے۔دوستو، یہ ہے سیاست اور اس کا دوسرا نام جھوٹ اور منافقت ہے۔ مقام حیرت ہے کہ جب لال مسجد میں انسانی خون بہایا جا رہا تھا تو آج شہباز شریف سے استعفیٰ کا مطالبہ کرنے والے لوگ پرویز مشرف کے سپاہی بنے ہوئے تھے۔ انہوں نے پرویز مشرف سے استعفیٰ کیوں نہ مانگا اور خود مستعفی ہو کر گھر کیوں نہ چلے گئے۔ میں اپنے اس کالم کے ذریعے محکمہ موسمیات والا رول ادا کرنا چاہ رہا ہوں اور چند باتیں سیاسی موسم کے حوالے سے بیان کر رہا ہوں انہیں امکانی پیش گوئیوں کا نام بھی دیا جا سکتا ہے۔آثار بتا رہے ہیں کہ 14 اگست آنے سے پہلے ہی کوئی کٹی کٹا نکل آئے گا۔ زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ حکومت چند سیاسی بکروں کی قربانی دینے کو تیارہو جائے گی اور اندرونی خبریں اسی بات کی چغلی کھا رہی ہیں کہ حکومت اسی ایشو پر دن رات ایک کئے ہوئے ہے اور نہایت سنجیدگی سے بکروں کا انتخاب کیا جا رہا ہے تاکہ علامہ اور خان کو رام کیا جا سکے۔ مجھے اجازت دیں تو یہاں تک بیان کرنے کو تیار ہوں کہ مرکزی اور صوبائی بکروں کا انتخاب کر بھی لیا گیا ہوا ہے بس سمت مخالف سے OK کی آواز آنے کی دیر ہے کہ لیور کھینچ دیا جائے گا اور ابک نہیں نصف درجن بکرے قربان کر دئیے جائیں گے۔ پیر پگاڑا نمبر 2 شیخ رشید احمد بھی شاید انہی قربانیوں کا تذکرہ کرتے رہتے ہیں کہ عید قربان سے پہلے قربانی ہو گی اور نظر بھی یہی آ رہا ہے کہ ملک کو افراتفری سے بچانے کے لئے حکومت کو چند مقتدر بکروں کی قربانی دینی پڑے گی۔ چند مقتدر افراد کی قربانی اسی صورت دی جائے گی اگر ایسا کرنے سے مخالف فریق مطمئن ہونے کا وعدہ کرے گا تو....!
اس حقیقت میں رتی برابر شک کی گنجائش نہیں کہ ن لیگ کی حکومت اندرونی طور پر کافی ڈسبرب ہو چکی ہوئی ہے بلکہ کسی حد تک ڈانواں ڈول بھی ہے لیکن اگر کوئی یہ سمجھے کہ حکومت کو ایک ہی جھٹکے سے گرایا جا سکتا ہے تو ایسا سوچنے والے کی خام خیالی ہے کیونکہ حکومت موم کی گڑیا نہیں کہ جب چاہا توڑ مروڑ دیا۔ اس بات سے کون انکار کر سکتا ہے کہ ن لیگ ایک عوامی طاقت کا نام نہیں ہے اس لئے تو محب وطن طبقہ اس بات کے لئے دعا گو ہے کہ حکومت اور مخالفین کے مابین تمام معاملات خوش اسلوبی ہی سے طے ہو جائیں۔ علاوہ ازیں اس موسم میں ڈینگی کی ہلاکت خیزیوں کے پیش نظر اس بات کی ضرورت شدت سے محسوس کی جانے لگی ہے کہ گھروں کے باہر پانی کھڑا رکھنے والے افراد کے چالان کئے جائیں اور جرمانے کئے جائیں اور گلی گلی محلے محلے سپرے کرایا جائے اور وہ بھی ایک نمبر ورنہ ڈینگی کا خطرہ پھر سروں پر منڈلانے لگا ہے۔