رمضان المبارک ، مصر اور ہم

Jul 08, 2014

ڈاکٹر اختر شمار

بہت دنوں بعد، اگلے روز قاہرہ میں اپنے ایک شاگرد سے رابطہ ہوا۔ ہم نے اسے رمضان المبارک کی مبارک دی اور قاہرہ میں گزارے پانچ برسوں کے رمضان المبارک کو یاد کیا۔ قاہرہ میں رمضان المبارک کا سارا مہینہ بہت جوش و خروش سے گزارا جاتا ہے۔ راتیں جاگتی ہیں۔ دکانیں بازار تمام رات کھلے رہتے ہیں۔ رمضان کی آمد سے قبل ہی دکانوں پر رمضانی لوازمات (اشیائے خوردونوش) کثرت سے نظر آتے ہیں۔ ہردکان پر خشک میوہ جات مثلا بادام، اخروٹ، گری، پستہ اور کھجوروں کی کئی اقسام دکھائی دیتی ہیں۔ ان اشیا کے پیکٹ تحائف کی صورت میں بھی دستیاب ہوتے ہیں مختلف دکانوں اور سٹوروں پر کھانے پینے کی سستی اشیا کے تھیلے عام ملتے ہیں لوگ ایک دوسرے کو یہ تحائف بھی پیش کرتے ہیں۔ رمضان میں مصریوں کی سب سے بڑی تفریح ٹیلی ویژن دیکھنا ہے ٹیلی ویژن پر مصر کے پسندیدہ اور مقبول ترین پروگرام (ڈرامے، فلمیں، موسیقی شوز اوراہم فٹ بال میچز وغیرہ) دوبارہ ٹیلی کاسٹ کئے جاتے ہیں۔ نئے پروگرام بھی ہوتے ہیں مگر مصری پرانے پروگراموں کو شوق سے دیکھتے ہیں تفریح کے ساتھ ساتھ عبادات کا سلسلہ بھی جاری و ساری رہتا ہے۔ افطاری کیلئے خصوصی دسترخوان (مائدہ الرحمن یعنی اللہ کا دسترخوان) جگہ جگہ دکھائی دیتے ہیں اور وہاں افطاری کا خصوصی انتظام ہوتاہے۔ نماز تراویح اور سحر و افطار کے اوقات میں لوگ کثرت سے مساجد میں نظر آتے ہیں رات بھر جاگنے والے مصری صبح سحری کھانے کے بعد نماز پڑھ کر سوتے ہیں۔ دن میں رمضان کا مکمل احترام دکھائی دیتا ہے۔ ہمارے ہاںپکوڑے اور سموسوںکا رواج زیادہ ہے وہاں ایسی کوئی چیز نہیں۔ وہاں دودھ میں کھجوریں اور خشک میوہ جات بھگو کررکھ لئے جاتے ہیں۔ جو افطار کے وقت استعمال میںلائے جاتے ہیں۔ عموماً روزہ کھجور اور دودھ کے اسی مشروب خشایف کے ساتھ افطار کیا جاتا ہے۔ افطار کے وقت ہلکا پھلکا کھایا جاتا ہے بیشتر لوگ کنافہ اورقطائف (مٹھائیاں) شوق سے کھاتے ہیں یہ خاص قسم کی مٹھائیاں ہیں جو خشک دودھ، آٹے اور میوہ جات کا مرکب ہوتی ہیں۔ جوس کے علاوہ روسٹ گوشت بھی شوق سے استعمال کیا جاتا ہے رمضان میں ہر مصری کے گھر ان کی پسند ڈش ’’ماشی‘‘ (چاول کی ڈش) ضرور تیار ہوتی ہے۔ ہمیں قاہرہ میں گزارے رمضان المبارک کے ایام یاد آتے ہیں مگر ہمارے دوست نے جب قاہرہ کی امن وامان کی ابتر صورتحال کا ذکر کیا تو بے حد افسوس ہوا۔ ہم حسنی مبارک کے اقتدار میں قاہرہ گئے تھے اور محمد مرسی کے دور میں واپس آئے۔ دونوں
 کے اقتدار دیکھے اوروہاں مصر کا انقلاب اور تحریر چوک کے مثالی احتجاج بھی دیکھے۔ حسنی مبارک کے دور میں چڑیا بھی پر نہیں مارسکتی تھی۔ اخبارات میںکبھی کبھار ہی کوئی قتل کی خبر ملتی، وہ بھی بالکونی سے دھکاوے کریا چھری کے وارسے قتل کئے جانے کی خبر ہواکرتی تھی لیکن ان دنوں وہاں کی صورت حال سنتے ہیں تو بہت حیران ہوتے ہیں۔ بھلے حسنی مبارک کے اقتدار کو ’’پولیس اسٹیٹ‘‘ کہا جاتا تھا مگر کوئی مصری آپس میں دست وگریبان کم ہی دکھائی دیتا تھا مگر انقلاب کے بعد وہاں اسلحہ عام ہوگیا لوٹ کھسوٹ رہزنی اور عصمت دری کو وارداتوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔ اب تو مرسی کی جگہ جنرل عبدالفتح السیسی نے لے لی ہے مگر، مصر میں امن قائم نہیں ہوسکا جنرل السیسی کی حکومت احتجاجی مظاہرین سے آہنی ہاتھوں سے نمٹ رہی ہے۔ اور اب تو کئی جگہوں پر بم دھماکے بھی ہونے لگے ہیں۔ گذشتہ روز مرسی کے اقتدار کے خاتمے کی پہلی برسی تھی اس موقع پر احتجاجی مظاہرین پر آنسو گیس کی شیلنگ کی گئی۔ پانچ سات ہلاکتوں کی خبریں بھی ہیں۔ اخوان المسلمین کے حامیوں پر عرصہ حیات تنگ ہوچکا ہے سینکڑوںافراد کو پھانسی کی سزا دی گئی ہے مگر امن عنقاہو چکا ہے۔ ایسے میںوہاں رمضان المبارک کی رونقیں کیسی ہوں گی سوچ کر دل دہل جاتا ہے سنا ہے وہاں خواتین کا باہرنکلنا دوبھر ہو گیا ہے۔ عصمت دری کی وارداتیں عام ہوگئی ہیں مصری خواتین کی کثیر تعداد ملازمت کرتی ہے ہم حیران ہیں ان کا کیا حال ہوگا قانون کا خوف ختم ہو جائے تو حالات کنٹرول سے باہر ہو جاتے ہیں ہمارے مصری دوست، جن میں پروفیسر، طالب علم اور صحافی شامل ہیں ان دنوں بہت پریشان ہیں۔ فیس بک، اور آن لائن ان سے رابطہ ہوتا ہے تووہ اپنے ملکی حالات پر کڑھتے نظر آتے ہیں بے روزگاری اور مہنگائی نے مصر کے لوگوں کو ہماری طرح بدحال کر رکھا ہے۔ اب تو یہ بھی سنا ہے کہ مصر میں بھی لوڈشیڈنگ ہونے لگی ہے۔ ان حالات کو دیکھ کر ہم سوچتے ہیں کہ خطے کے تمام مسلمانوں کی حالت زار ایسی کیوں ہے؟ اس سوال کا جواب ہمارے پاس نہیں ہے کہ ہم مصریوں سے بہت زیادہ بُرے حال میں ہیں اور ’’تحفظ پاکستان‘‘ بل کے بعد تو کسی کو بھی گولی ماری جاسکتی ہے یااللہ ہمارے حال پر رحم فرما! حالی کا مصرع یاد آتا ہے جو دعا کی صورت ہے۔؎
اے خاصٔہ خاصان رُسل وقت دعا ہے
اُمت پہ تری آکے عجب وقت پڑا ہے

مزیدخبریں