گذشتہ ہفتے مجھے ایک کانفرنس میں شرکت کرنے کی غرض سے ایران کا سفر کرنا پڑا، یہ کانفرنس اس لحاظ سے اہم تھی کہ اس میں اکثر اسلامی ممالک کے وفود شرکت کررہے تھے۔ میرے لئے ایسے اجتماعات ہمیشہ جاذبیت رکھتے ہیں جہاں منتخب لوگ مختلف ممالک یا مذاہب و ثقافت کی نمائندگی کررہے ہوں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ کو تھوڑے سے وقت میں ان افراد کے ذریعے ان کے ممالک ان کے مسائل اور ان کے احساسات تک رسائی کے لئے حقیقی معلومات مل جاتی ہیں۔ اس عالمی کانفرنس کی دوسری اہمیت یہ تھی یہ اتحاد بین المسلمین کے سلسلے کی ایک کڑی تھی جو کافی حد تک کامیاب رہی۔ سانحہ لاہور کے پریشان کن حالات کے پیش نظر میں نے ایک مرتبہ تو اس میں شمولیت کا ارادہ ترک کرکے میزبان کو اطلاع کردی مگر انہوں نے دوبارہ اصرار کیا اور مجھے رختِ سفر باندھنا پڑا۔ اس کانفرنس کا اہتمام ’’یونین آف ورلڈ اسلامک سٹوڈنٹس‘‘ کے پلیٹ فارم پر کیا گیا جس کے انتظامی سربراہ محترم سید ابراہیم موسوی ہیں۔ موصوف اعلیٰ سرکاری منصب پر فائز ہیں اور ایک شہید جنرل کے بیٹے ہیں مگر ان کے اندر عجزو انکساری کے ساتھ ساتھ عالم اسلام کے اتحاد کے لئے میں نے جس خلوص محبت اور اخلاص کا مشاہدہ کیا وہ مجھے بہت کم لوگوں میں نظر آیا۔ دو سال قبل جب وہ پاکستان کے مختصر دورے پر لاہور آئے تو ان سے محترم کاظم سلیم کی وساطت سے میری ملاقات ہوئی۔ ایک گھنٹے کی مختصر ملاقات ہمارے درمیان اخوت کے گہرے رشتے میں ڈھل گئی۔ ان کے پاس زیادہ وقت نہیں تھا کیونکہ انہوںنے اسی شام کی فلائٹ سے تہران جانا تھا۔ ماڈل ٹائون سے شاہی مسجد اور وہاں سے ایئر پورٹ کے سفر کی گنجائش نہیں تھی مگر وہ بضد تھے کہ میں نے مزار اقبال پر حاضری ضرور دینی ہے۔ چنانچہ میں ان کی اس عقیدت اور محبت کے سامنے مجبور ہوگیا۔ انہیں ساتھ لے کر ہم مزار اقبال پر حاضر ہوئے ابراہیم موسوی تڑپ تڑپ کر دعائیں کررہے تھے۔ ان کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے اور میں ان کی اس بے قراری اخلاص اور اقبال سے فراواں عقیدت کے مظاہر دیکھ کر شرمندہ ہورہا تھا۔ پھر بڑی مشکل سے ہم لاہور کے ہوائی اڈے پر پہنچے اور وہ آخری وقت میں اندر جانے میں کامیاب ہوگئے۔ وہاں جاکر انہوں نے فراموش نہیں کیا بلکہ کئی بار محبت کے پیغامات بھیجتے رہے۔ اس لئے مجھے ان کی اخلاص بھری دعوت کو ٹالتے ہوئے شرمندگی محسوس ہورہی تھی۔
میں اس سے قبل 1992ء میں ایک بڑے وفد کے ہمراہ انقلاب کی ایک سالگرہ میں شرکت کے لئے تہران جاچکا تھا۔ تہران کی اجلی سڑکیں اور چنار کے فلک بوس خوبصورت درختوں سے ڈھکے دیدہ زیب کناروں پر چلنے والے پرجوش مردو زن اسی کیفیت میں مصروف کار نظر آئے۔ کانفرنس میں تقریباً بیس ممالک کے وفود شریک تھے۔ اس دن ’’اسلامی بیداری اور استعمار کے حربے‘‘ زیر بحث رہے۔ مجھے لبنان کے دو نوجوانوں سے مل کر اور ان کے خیالات سن کر بہت خوشی ہوئی جو اسرائیل حزب اللہ کی لڑائی میں نوجوانوں کی قیادت کرچکے تھے اور اب بھی پرعزم اور پرامید تھے۔ ان کا جماعتی نظم، اتحاد اور انسانیت دوستی کے مظاہر دیکھ کر حیرت اور مسرت ہوئی۔ مجھے زیادہ تعجب دس رکنی مصری وفد سے مل کر ہوا جس میں صحافی اور طلباء لیڈر شپ شامل تھی۔ میں نے ان سے پوچھا آپ لوگ اتنی آزادی سے یہاں جمہوریت، اسلامی نظام اور خلیجی ممالک میں انتشارکا باعث بننے والے استعماری کردار پر تنقید کررہے ہیں کیا آپ کو واپسی پر فوجی حکومت کی طرف سے کسی خطرے کا اندیشہ نہیں؟ جامعہ ازہر اور جامعہ قاہرہ کے طلباء نے بڑے بے نیازی سے شانے جھٹک کر جواب دیا اب مصر بدل چکا ہے۔ اب ہمیں کسی چیز کا ڈر اور خوف نہیں رہا۔ میں نے کئی نشستوں میں ان سے حسنی مبارک کے خلاف انقلاب، جمہوری عمل کے نتیجے میں مرسی کے اقتدار میں آنے اور پھر مرسی حکومت کے خاتمے کے بعد اخوان المسلمون کے قتل عام اور جنرل السیسی کے موجودہ اقتدار کے احوال کریدنے کی کوشش کی۔ مجھے حیرت ہوئی کہ سارے نوجوان جنرل السیسی کو سخت ناپسند کرتے تھے اور اسے ناکام استعماری ایجنٹ قرار دے رہے تھے۔ میں نے ان سے کہا آپ لوگوں کے ناپسند کرنے سے اسے کیا اثر پڑتا ہے وہ تو اب انتخابات کے ذریعے اقتدار پر قابض ہوگیا ہے۔ انہوں نے بیک زبان کہا اسے عوام کی اکثریت نے مسترد کردیا ہے صرف 20% ووٹوں سے یہ صدر بن سکا ہے۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ 80% مصری عوام نے اسے مسترد کردیا ہے۔ لہذا جب تک وہ جعلی حکومت پر قابض ہے تب تک ہم سڑکوں پر اس کے خلاف سراپا احتجاج رہیں گے۔ میں نے ان سے مرسی کے متعلق دریافت کیا تو اس پر ان لوگوں کی رائے میں قدرے اختلاف تھا۔ کچھ لوگ ابھی تک مرسی کو ہی قانونی اور دستوری صدر قرار دے رہے تھے اور کچھ لوگ اس کی جلد بازی پر مبنی حکمت عملی پر تنقید کررہے تھے۔ مگر اس بات پر سب متفق تھے کہ اب مصری عوام پر زبردستی کوئی نظام مسلط نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اس نے قربانیاں دے کر استعماری ایجنٹوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنا سیکھ لیا ہے۔
سوڈانی وفد میں بھی کافی پڑھے لکھے نوجوان تھے انہوںنے فصیح عربی میں بڑی خوبصورتی سے سوڈانی حکومت کی اسلام پسند اصلاحات پر روشنی ڈالی۔ کانفرنس میں شام اور عراق سے بھی کچھ لوگ شامل تھے۔ یہ لوگ واضح طور پر پریشان اور فکر مند تھے۔ انہیں حالیہ خانہ جنگی کے محرکات اور اس کے نتائج کا علم تھا۔ ان کے بقول اسلام دشمن قوتیں مسلمانوں کو شیعہ سنی محاذوں میں تقسیم کرکے کمزور کررہی ہیں اور ان کی اجتماعی قوت کو آپس میں لڑا لڑا کر ختم کرنا چاہتی ہیں اور بدقسمتی سے ایسا ہوبھی رہا ہے۔ شام کے بعد عراق کے قصبوں، شہروں اور دیہاتوں میں جس قدر خون خرابہ قتل و غارت گری اور بستیوں کی مسماری ہورہی ہے اس میں کوئی امریکی یورپی اور اسرائیلی فوجی شامل نہیں سب کے سب کلمہ گو ہیں اور اسلامی خلافت کے دعویدار ہیں۔ خبر نہیں یہ کیسی خلافت ہے جس کے لئے اتنی بے دردی سے مسلمان بستیوں کو تہس نہس کیا جارہا ہے؟ انہوں نے بھی اسی خدشے کا اظہار کیا کہ اس خانہ جنگی کے بعد دراصل امریکی سفارتکار عراق کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں۔ تاہم عراق کے شیعہ سنی اس فسادی تحریک کی مزاحمت کررہے ہیں۔کانفرنس کا تیسرا روز ’’اسلامی اقدارکے خلاف میڈیا وار‘‘ کے نقصانات اور تدارک پر غورو فکر کے لئے مختص تھا۔ میں نے اپنی باری پر اسلامی ثقافت کی خصوصیات اور اس کو درپیش چیلنجز پر اظہار خیال کیا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اس وقت امت مسلمہ کو جہاں سیاسی مسائل ہیں، معاشی مشکلات ہیں تعلیمی اور تحقیقی چیلنجز ہیں وہاں تہذیبی اور ثقافتی چیلنجز بھی درپیش ہیں۔ ارکان اسلام اور ارکان ایمان ہمارے تہذیبی اور ثقافتی معیارات ہیں۔ ان میں کوئی مغائرت اور ثنویت نہیں کیونکہ ہماری ثقافتی اقدار کا خالق اللہ تعالیٰ ہے جبکہ مغربی معاشرہ انسان ساختہ ناپختہ اقدار پر جھول رہا ہے۔ مگر المیہ یہ ہے کہ اس قدر مضبوط نظام فکر و عمل رکھنے کے باوجود مسلم امہ بے توقیر اور خود اعتمادی سے محروم ہے۔ آج بھی اکثر ممالک میں بادشاہتیں قائم ہیں اور جمہوریت کے اس دور میں آمریت کے حق میں سرمائے خرچ کئے جاتے ہیں۔ میری گزارشات کا دوسرا حصہ اس نقطہ نظر پر مشتمل تھا کہ دین دشمن قوتیں چونکہ مسلمانوں کو لڑانے کے لئے شیعہ سنی مخالفت کا ہتھیار استعمال کررہی ہیں اس لئے ہمیں چاہئے کہ عالم اسلام میں ایسا مستقل ادارہ قائم ہوجس کے ذمے شیعہ سنی اختلافات کو کم سے کم کرنے اور مشترکہ اعمال و عقائد کو بروئے کار لانے کا مشن ہو۔ ورنہ خلیجی ممالک میں دن بہ دن خون ریزی کے واقعات میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ ثانیاً مسلم حکومتیں ان اختلافی اعتقادات کو پھیلانے استعماری آلہ کار نہ بنیں تو یہ فسادات بڑی حد تک رک سکتے ہیں۔ ورنہ حرم کی پاسبانی کے لئے نیل کے ساحل سے لے کر کاشغر تک مسلمان متحد نہیں ہوسکیں گے۔ اس کے بعد ہم شہر علم قم کے لئے روانہ ہوگئے جس کے دلچسپ احوال آئندہ سپرد قلم کئے جائیں گے۔