نئی دہلی (این این آئی) بھارت کی سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ شرعی عدالتو ں کی کوئی آئینی اور قانونی حیثیت نہیں ہے اور وہ ایسے فتوے جاری کرنے کی مجاز نہیں ہیں جن سے فرد کے آئینی حقوق کی پامالی ہوتی ہو۔ بھارتی میڈیاکے مطابق دارالقضا اور دارالافتا جیسے اداروں کی متوازی شرعی عدالتوں پر پابندی لگانے سے انکار کرتے ہوئے بھارتی عدالت عظمیٰ نے یہ واضح طور پر کہا کہ فتووں کو معصوم لوگوں کو سزا دینے کے لئے استعمال نہیں کیا جا سکتا، عدالت نے کہاکہ اسلام سمیت کوئی بھی مذہب ایسے ضابطوں سے معصوم افراد کو سزا دینے کی اجازت نہیں دیتا جنہیں قانونی طور پر منظوری حاصل نہ ہو۔ایک وکیل نے مفاد عامہ کی ایک عذر داری میں عدالت عظمیٰ سے درخواست کی تھی کہ شرعی عدالتیں عوام کے حقوق کی خلاف ورزی کر رہی ہیں اس لئے ان پر پابندی لگائی جائے۔عدالت نے کہا کہ عوام ان اداروں کے فیصلوں اور فتووں کو ماننے کی پابند نہیں ہے اور یہ ادارے اور افتا صرف اسی صورت میں فتوے دینے کے مجاز ہونگے جب ان سے متاثرہ افراد رجوع کریں گے۔ عدالت عظمیٰ کی ایک بنچ نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے اتر پردیش کی ایک خاتون عمرانہ کے کیس کا حوالہ دیا جس کا اس کے سسر نے ریپ کیا تھا۔ ایک مفتی نے ریپ کے بعد عمرانہ کو اپنے شوہر سے طلاق لینے اور اپنے سسر سے نکاح پڑھانے کا فتویٰ دیا تھا۔عدالت عظمیٰ نے کہا کہ اس کیس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ متاثرہ فرد سے بات کئے بغیر یہ فتوی دیاگیا اور ایک معصوم شخص کے حقوق کی خلاف ورزی کی گئی۔ بھارتی اخبار ٹائمز آف انڈیا کے مطابق سپریم کورٹ کے فیصلے پر ردعمل میں مسلم پرسنل لاء بورڈ کے رکن زریاب جیلانی نے کہا کہ ہم عدالتی نظام کے متوازی کچھ نہیں کر رہے، ہمارا مقصد دو افراد کے درمیان مسئلے کو شریعت کے مطابق انکی منشا سے حل کرنا ہے۔ مسلمان عالم خالد رشید نے کہا کہ بھارتی آئین کے تحت مسلمانوں کو مسلم پرسنل لاء کے تحت عمل کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ مولانا سجاد رشید نے کہا کہ مذہبی معاملے کو عدالت میں لیجانا ہی غلط ہے۔ جو مسلمان شریعت پر عمل نہیں کرتا وہ سچا مسلمان نہیں ہے۔
بھارتی سپریم کورٹ