کالم نگار دوست نے لکھا ”ایک طرف گڑھی خدا بخش میں اگر جمہوریت دفن ہے“ کاش! ایسا ہوتا، جمہوریت اگر پروان چڑھ سکتی، جمہوریت اگر مضبوط بنیادوں پر استوار ہو گئی ہوتی، اگر طرزِ عمل میں جمہوری اقدار روایات کی چھب نظر آتی، جمہوریت گڑھی خدا بخش میں نہیں بلکہ ایوانِ صدر میں اسی لمحے دفن کر دی گئی تھی جب 1973ءکے آئین کی منظوری کے دو ڈھائی گھنٹے بعد ایک ”بدوح“ جنرل یحییٰ خان کی نافذ کردہ ہنگامی حالت پر آئین کی تخلیق کا فخر رکھنے والے ذوالفقار علی بھٹو نے صدر فضل الٰہی چودھری سے اس ہنگامی حالت کے تسلسل پر دستخط کروا کر آئین میں دی گئیں سیاسی و تحریر و تقریر کی آزادیوں اور انسانی حقوق پر قدغن کی مہر لگوا دی تھی اور پھر اس ملک میں جمہوریت کے نام پر قائم ہونے والے سول اقتدار کے پورے عرصہ میں ملک ہنگامی حالت کے چنگل میں اسیر رہا۔ تب بھی یہ ناچیز قافلہ¿ صحافت کا پانچواں سوار تھا۔ پریس اینڈ پبلی کیشنز آرڈیننس کی ستم رانیوں کے جلوے مشاہدہ کئے، بھگتا، لاہور کے مال روڈ پر اس کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا حصہ بنا آنسو گیس اور لاٹھی چارج کاسامنا کیا۔ اس ”جمہوریت“ میں آزادی رائے اور آزادی تحریر یوں پروان چڑھتی دیکھی، کتنے صحافی گرفتار، کتنے اخبار اور رسالے بند ہوئے یہ تو خیر مخالفین کے ساتھ ”جمہوری حُسنِ سلوک“ تھا خود اپنوں کو اختلاف ر ائے کا حق یوں دیا گیا۔ جے اے رحیم، معراج محمد خان، مختار رانا اور ملک سلیمان کے ساتھ رواءسلوک کا جائزہ لے لیا جائے۔ جناب جاوید حکیم قریشی راولپنڈی سے پیپلزپارٹی کے ایم پی اے تھے اسمبلی سیشن میں شرکت کے لئے لاہور آتے تو میکلوڈ روڈ پر انسپکٹر جنرل پولیس ریلوے کے آفس سے ملحقہ وکٹوریہ ہوٹل میں قیام کرتے میں فیض باغ میں واقع اپنی رہائش گاہ سے ریلوے سٹیشن کا پل عبور کر کے بیڈن روڈ پر واقع روزنامہ مغربی پاکستان کے دفتر جاتے ہوئے ان سے کچھ دیر گپ شپ کرتا ایک روز وہ بے حد پریشان نظر آئے پسینے سے شرابور، بتایا چیئرمین صاحب (بھٹو) ناراض ہو گئے ہیں وجہ یہ کہ گورنر ہا¶س میں ارکان اسمبلی سے خطاب کے دوران نہ جانے کس ترنگ اپنی حکومت کی کارکردگی کا سوال کر دیا۔ جاوید حکیم قریشی نے سب اچھا کی بجائے بعض خامیوں کی نشاندہی کر دی اتنے میں غالباً بہاولپور کی جانب سے حنیف نارو اُٹھ کھڑے ہوئے اور کہا جناب چیئرمین جاوید حکیم قریشی شاید اپوزیشن کے پروپیگنڈہ کا شکار ہو گئے ہیں آپ کی پالیسیوں اور حکومتی کارکردگی کو تو ہر جگہ عوامی سطح پر سراہا جا رہا ہے۔ جناب چیئرمین نے قہر آلود نظروں سے جاوید حکیم قریشی کی جانب دیکھا اور پھر اپنے طرزِ عمل سے ناراضگی کا اظہار کر دیا میں نے ان سے کہا کہ وہ اس سلسلے میں میر صاحب سے رابطہ کریں۔ (راولپنڈی سے قومی اسمبلی کے ممبر خورشید حسن میر) انہوں نے کہا وہ تو میں بہت دیر سے رابطہ کر رہا ہوں وہ گھر پر نہیں ہیں ان دنوں موبائل فون نہیں ہوتے تھے پھر میں نے ان سے کہا کہ آپ واپس راولپنڈی جا کر خود ان سے ملیں انہوں نے کہا میں بھی یہی سوچ رہا ہوں پھر وہ واپس راولپنڈی گئے اور خورشید حسن میر نے چیئرمین صاحب سے ان کی ”گستاخی“ کی معافی دلوائی جاوید حکیم قریشی ایک مدت سے لندن میں مقیم ہیں۔
اس ”جمہوریت“ میں ”آزادی تقریر و تحریر“ کو اس ناچیز نے خود بھگتا ہے۔ روزنامہ جسارت اور بعدازاں ہفتہ روزہ تکبیر کے ایڈیٹر محمد صلاح الدین شہید کو چیئرمین صاحب کی پالیسیوں کے بے لاگ تجزیوں کی پاداش میں حوالہ زندان کئے رکھا گیا۔ جناب الطاف حسن قریشی کے ہفتہ روزہ زندگی، جناب مجیب الرحمن شامی کے ہفتہ روزہ نئی زندگی، ہفتہ روزہ اداکار، ہفتہ روزہ اسلامی جمہوریہ اور پھر ہفتہ روزہ بادبان پر یکے بعد دیگرے پابندی لگتی رہی۔ راولپنڈی میں جناب حبیب الوہاب الخیری کا روزنامہ ندائے حق نہ صرف زیرعتاب رہا بلکہ خود خیری صاحب کو گرفتار کیا گیا اور کوٹ لکھپت جیل میں قید رہے۔ جناب مجید نظامی کی ادارت میں نوائے وقت واحد اخبار تھا جو اپوزیشن کی خبریں چھاپ رہا تھا اس ”جرم“ میں نوائے وقت کے کاغذ کے کوٹے میں رکاوٹ ڈالی گئی اور اشتہارات کی بندش سے مالی دباﺅ کا شکار کرنے کی کوشش کی گئی۔ میں ایک روز ساتھیوں سے ملاقات کے سلسلے میں نوائے وقت کے نیوز روم میں بیٹھا تھا کہ فیصل آباد سے زرینہ رانا کی خبر آئی ”جمہوریت“ کے دور میں پی آئی ڈی، ڈی جی پی آر کی جانب سے زبانی ہدایات اور پریس ایڈوائس (دن میں کئی بار) نے ایک خاص نفسیاتی فضا پیدا کر دی تھی جس میں خوف و خدشات کا عنصر غالب تھا اس کا اثر تھا کہ چیف نیوز ایڈیٹر وحید قیصر تذبذب کا شکار ہو گئے۔ آخروہ خبر جناب نظامی صاحب کو بھیج دی گئی جنہوں نے اسے قابل اشاعت بنا کر نیوز روم میں واپس بھیج دیا۔ زرینہ رانا، مختار رانا کی چھوٹی بہن ہیں ذوالفقار علی بھٹو کی پالیسیوں کے خلاف لب کشائی کی جرات انہیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے لے گئی زرینہ رانا نے بھائی کی رہائی کے لئے مہم چلائی اور بعدازاں وہ سیاسی منظر سے غائب ہو گئیں۔
جمہوریت کی جو تعریف ایک نظام کے طور پر کی گئی ہے جو انسانی حقوق، سیاسی و شخصی آزادیوں، آزادی اظہار اور آزادی تحریر کا ضامن ہے بھٹو دور میں اس تعریف کی حامل جمہوریت کسی اجنبی جزیرے میں گم رہی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو اب ماضی کا حصہ ہیں، بے شک ”زندہ ہے“ کے نعرے لگائے جاتے رہیں اب وہ اپنی تمام اچھائیوں بُرائیوں کے ساتھ اس مقام پر ہیں جہاں اعمال دائمی مقدر کا فیصلہ کریں گے تاہم وہ مجسمہ بُُرائی بھی نہیں تھے۔ ایٹمی پروگرام کی بنیاد اور قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینا دو ایسے کارنامے ہیں جن کی ہر طبقہ نے توصیف کی ہے اسی طرح جنرل ضیاءالحق کی مخالفت بھی ہر کسی کا جمہوری حق ہے لیکن یہ زیادتی ہو گی اگر نئی نسل کو ادھوری تصویر دکھائی جائے بہتر ہوتا اگرگڑھی خدا بخش میں دفن ”جمہوریت“ کا دوسرا چہرہ بھی دکھا دیا جاتا۔