سومناتھ مندر کی حقیقت

Jul 08, 2015

ڈاکٹر انور سدید

تاریخ کی اس حقیقت کو اب کسی ثبوت کی ضرورت نہیں ہے کہ انڈین کانگریس کے لیڈر آزادی کی جدوجہد میں برصغیر کی تقسیم اور پاکستان کی تشکیل کے خلاف تھے اور ’’اکھنڈ بھارت‘‘ کی حیثیت کو قائم رکھنا چاہتے تھے، انکے نزدیک بھارت کی تقسیم ’’گائو ماتا‘‘کی تقسیم تھی، چنانچہ انگریزی حکومت سے آزادی حاصل کرنے کیلئے آل انڈیا کانگریس کے لیڈروں نے متحدہ ہندوستانی قومیت کے تصور کو فروغ دیا جس کی نفی علامہ اقبال نے فکری سطح پر اور قائداعظم محمد علی جناح نے سیاسی سطح پر کی اور پھر حالات کو ایسی کروٹ ملی کہ پاکستان دو قومی نظریے کی اساس پر معرض وجود میں آ گیا اور گزشتہ 68 برس سے اسے ثبات وقیام حاصل ہے درآنحالیکہ اندرا گاندھی اپنی وزارت عظمیٰ کے دور میں اس کا ایک بازو توڑنے میں کامیاب ہو چکی ہیں اور اب وزیراعظم نریندر مودی نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ بنگلہ دیش بنانے میں مکتی باہنی کے باغیوں کے ساتھ تھے۔
بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے بھارت میں موجود مسلم اقلیت اور پاکستان کے خلاف نفرت کے بیج بونے اور انہیں قد آور فصل بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور حد یہ ہے کہ اب نریندرمودی بھارت کی تواریخ کو مسخ کرنے اور اپنی مرضی کی تواریخ لکھوانے کے پراجیکٹ پر بھی کام کررہے ہیں، تاہم غنیمت ہے کہ بھارت میں رومیلا تھاپر جیسی تاریخ دان بھی موجود ہیں جو صداقت کو جرأت مندی سے پیش کرنے سے گریز نہیں کرتیں، واقعہ یہ ہے کہ بھارت کے صوبہ گجرات کے ساحل پر واقع سومناتھ کے مندر پر محمود غزنوی کے حملوں، مندر کی لوٹ مار اور اسکی شکست وریخت اور بت شکنی کے واقعات کو اس طرح پیش کیا گیا کہ ہندو عوام کے دلوں میں مسلمانوں کیخلاف شدید نفرت کی آگ بھڑک اٹھی اور بابری مسجد کے شہادت کا واقعہ اس انتہا پسندی اور نریندر مودی کی سازش کا نتیجہ ہے اور وزیراعظم نریندر مودی کا یہ مقصد ڈھکا چھپا نہیں کہ بھارت کو ایک ایسی ریاست بنانا ہے جس میں صرف ہندو بستے ہوں، غیر ہندوئوں کیلئے ان کا ’’ارشاد‘‘ ہے کہ اپنا مذہب چھوڑ کر ہندو بن جائو یا پھر اس ملک کی بودوباش ترک کردو۔
سومناتھ کے مندر اور محمود غزنوی کے محلوں میں لوٹ مار کے سلسلے میں اتنا جھوٹ بولا گیا کہ اب بھارت کے ہندو اسے تاریخ کا راسخ سچ گردانتے ہیں لیکن رومیلا تھاپر جیسی منصف مزاج تاریخ دان نے ترکی اور ایران کے قدیم مخطوطات کے مطالعے کے بعد اس جھوٹ کی قلعی کھول دی ہے۔ اس بت کو ساتویں صدی عیسوی میں سعودی عرب سے سومناتھ کے مقام پر لایا گیا تھا جو اس وقت چھوٹا سا گائوں تھا لیکن یہ تجارت کا ایک اہم مقام بھی تھا۔ رومیلا تھاپر نے ایک کتبے کے مطالعے کے بعد یہ واقعہ بیان کیا کہ اس علاقے کے برہمنوں نے ایک ایرانی بیوپاری کو سومناتھ کی حدود میں مسجد بنانے کی اجازت دی تھی جو اس بات کا ثبوت ہے کہ سومناتھ کے ہندوئوں اور مسلمانوں میں اختلافات کے برعکس یگانگت تھی، ہندوستان کی قدیم تاریخ میں 1857ء تک سومناتھ پر محمود غزنوی کے حملوں کا کوئی فرقہ وارانہ پہلو اس ملک کے مشترکہ ہندو مسلم سماج میں نہیں ملتا لیکن 1857ء کے بعد انگریزی حکومت کے ایک وائسرائے نے اپنے ایک سرکاری بیان میں کہا کہ محمود غزنوی نے بڑی بے رحمی سے سومناتھ مندر کو تباہ کر کے وہاں موجود بت توڑ ڈالے اور مندر کے قیمتی دروازے غزنی لے گیا۔ اہم بات یہ ہے کہ ہندوستان کے اس وائسرائے کے بیان کو سرکارِ برطانیہ نے درست تسلیم کرلیا اور مندر کے مبینہ زریں دروازوں کو غزنی سے واپس لانے کی کارروائی بھی شروع کردی۔ رومیلا تھاپر، نیل وار بھٹا چاریہ، سورپائی گوپال، اور کے ، این پانیکر جیسے آزاد اور منصف خیال تاریخ دانوں نے اس واقعے کو درست تسلیم نہیں کیا بلکہ سیاسی مقاصد حاصل کرنے کیلئے من گھڑت قراردیا ہے لیکن انگریز حکمرانوں نے اس حقیقت کا ادراک کرلیا تھا کہ ہندوستان پر حکومت کرنے کیلئے ہندوئوں اور مسلمانوں میں نفرت اور نفاق ضروری ہے اور محمودی غزنوی کو ہندو دشمن اور بت شکن قرار دینے سے حکمرانی کے مقاصد حاصل کیے جا سکتے تھے، چنانچہ ایلن بروجیسے حکمرانوں نے اس قصے کو خوب ہوا دی اور اسے تاریخ کی نصابی کتابوں میں شامل کر کے دونوں قوموں کے معصوم بچوں کے اذہان کو تعصب سے آلودہ کردیا۔
اوپر لکھا جا چکا ہے کہ آل انڈیا کانگریس کے سیاسی رہنما بھی تشکیل پاکستان کے سخت مخالف تھے۔ چنانچہ پنڈت نہرو نے ہندوستان کے آخری وائسرائے لارڈ مائونٹ بیٹن سے مل کر جو سازش کی اور لیڈی مائونٹ بیٹن سے تعلقات کی جو نوعیت پیدا کی اس کیلئے تاریخ اپنی شہادت دے چکی ہے، اہم بات یہ ہے کہ محمود غزنوی اور سومناتھ کے مندر کے بارے میں ایلن برو نے اضافہ افسانہ گھڑا تھا اور جس کا پروپیگنڈہ قریباً ایک صدی تک ہوتا رہا اس نے ہندوستانی سیاست کو خوب آلودہ کیا اور بھارت کی فرقہ پرست تنگ نظر جماعتوں نے جن میں بی جے پی شامل ہے، خوب فائدہ اٹھایا، اس ضمن میں ایک انتہائی متعصب سیاستدان کے ایم منشی کا ذکر ضروری ہے جس نے سومناتھ کے مندر کی مبینہ شکستگی اور لوٹ کھسوٹ کو افسانے کے انداز میں فروغ دیا اور سیاسی تعصب کو سومناتھ مندر کے اس من گھڑت واقعے کے ساتھ جوڑ دیا لیکن رومیلا تھاپر جیسی تاریخ دانوں نے سچ کو پردہ پوش رہنے نہیں دیا، رومیلا تھاپر کی کتاب ’’سوم ناتھ‘‘ ان کی تحقیق کا قیمتی ثمر ہے۔ بھارت کے ایک سیمینار میں انہیں اس موضوع پر مقالہ پڑھنے کی دعوت دی گئی تو جو حقائق انکے سامنے آئے وہ حیران کن تھے۔ مثلاً ایک یہ بات ہی دیکھئے کہ ترکی اور فارسی کے تاریخی بیانیوں میں تو سومناتھ کا ذکر کثرت سے ملتا ہے لیکن اسی دور میں ہندوستان میں جو کتابیں اور کتبے سنسکرت میں لکھے گئے ان میں سومناتھ کا ذکر تک معدوم ہے۔ اس واقعے کو بعد میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے گورنر ایلن برو کے ذہن نے اختراع کیا، آزادی کے بعد اسے کے ایم منشی جیسے متعصب سیاستدانوں نے ہوا دی اور اب بی جے پی کے وزیراعظم نریندر مودی اس نوع کے غلط واقعات پر ہندو مسلم نفرت کو پھیلا کر اپنے مقاصد اور مطالب کی فصل کاٹنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن غنیمت ہے کہ بھارت میں ہی رومیلا تھاپر جیسے تاریخ دان موجود ہیں جو تاریخ کے سچ کو جھوٹ کے ٹھیس سے الگ کررہے ہیں اور اس حقیقت کو فروغ دے رہے ہیں کہ تاریخی واقعات کی نوعیت کتنی مختلف ہے اور غلط پروپیگنڈہ اسے کیا سے کیا بنا دیتا ہے۔

مزیدخبریں