پی پی پی اپنی تاریخ کے نازک ترین دور سے گزررہی ہے۔ سینئر کالم نگار اسے ’’مرحومہ اور مغفورہ‘‘ قراردے رہے ہیں۔ ادرایے، تبصرے اور تجزیے لکھے گئے۔ ٹاک شوز ہورہے ہیں جو عملی سیاست کے مکمل عکاس نہیں ہیں۔ بلاشک پی پی پی کی اساس سوشلزم پر رکھی گئی۔ وہ ایشیا سرخ ہے کا زمانہ تھا۔ 1970ء میں پی پی پی (لیفٹ) اور جماعت اسلامی (رائیٹ) کا نظریاتی معرکہ ہوا۔
جماعت اسلامی کے امیر میاں طفیل لاہور میں بابائے سوشلزم شیخ محمد رشید کے ہاتھوں نظریاتی انتخابی معرکہ ہارگئے۔ بھٹو جاگیردار پس منظر کے حامل سیاستدان تھے۔ عوامی طاقت کا درست ادراک نہ کرسکے وہ رفتہ رفتہ اقتدار کی مصلحتوں کے تحت پی پی پی کے اساسی نظریہ سے دور ہٹتے گئے۔ سوشلزم سے اسلامی سوشلزم اور مساوات محمدیﷺ کا نظریاتی سفر طے کرتے ہوئے پی این اے کے دبائو اور حالات کے جبر کے تحت مولانا مودودی کے گھر پہنچ گئے۔ بھٹو کا یہ فیصلہ پاکستان میں نظریاتی سیاست کی موت ثابت ہوا۔ پی پی پی کے نظریاتی لیڈر جے اے رحیم، ڈاکٹر مبشر حسن، معراج محمد خان، حنیف رامے، مختار رانا، خورشید حسن میر اور ہزاروں نظریاتی کارکن بھٹو کی نتائج پسند سیاست (Pragme Tism) کا شکار ہوئے۔ نظریاتی سیاست جس کا آغاز حبیب جالب (ایسے دستور کو صبح بے نور کو) سے شروع ہوا۔
فیض احمد فیض کی نظم (ہم دیکھیں گے 1979) کے بعد ختم ہوگیا۔ البتہ جنرل ضیاء الحق کے ہاتھوں بھٹو کی پھانسی نے پی پی پی کو لازوال کردیا۔ بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو نے مشکل گھڑی میں پی پی پی کی قیادت کی اور جنرل ضیاء الحق کا پی پی پی کے خاتمے کا خواب پورا نہ ہونے دیا۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت نے قیادت کا خلاء پیدا کردیا جسے ابھی تک پر نہیں کیا جاسکا۔ قیادت کے خلاء کے باوجود پی پی پی نے شہیدوں کے خون کی طاقت سے (2008) میں اقتدار حاصل کرلیا جسے مفاداتی اور مفاہمتی سیاست کی بھینٹ چڑھادیا گیا۔ ان دنوں سعودی فرماں روا سے منسوب یہ خبر لیک ہوئی تھی کہ ‘‘سر خراب ہو تو پورا جسم خراب ہوجاتا ہے‘‘۔
پی پی پی 2013ء کے انتخابات بری طرح ہار گئی۔ یہ پارٹی نہیں قیادت کی شکست تھی۔ آصف علی زرداری قائدانہ صلاحیتوں کے مالک نہیں ہیں۔ پی پی پی کا موجودہ بحران دراصل قیادت کا بحران ہے۔ مفاہمت کی سیاست نے پی پی پی کی عوامی شناخت ہی ختم کردی ہے۔
سیاسی جماعتیں قیادت اور کارکنوں سے وجود میں آتی ہیں۔ جماعت کی مقبولیت کا انحصار اہل قیادت پر ہوتا ہے جبکہ کارکن جماعت کے لیے ریڑھ کی ہڈی ہوتے ہیں۔ پی پی پی کے بارے میں تجزیہ کرتے ہوئے قیادت کے فیکٹر کے بارے میں بہت کم لکھا گیا ہے۔ اگر لیڈر ہی متنازعہ ہو اور پارٹی کارکن اس کی قیادت کو دل سے قبول کرنے پر آمادہ نہ ہوں اور لیڈر عوامی سطح پر ناپسندیدہ ہو تو ایسا لیڈر پارٹی کے لیے بھاری بوجھ ثابت ہوتا ہے ۔ جو لیڈر اس نوعیت کے بیانات جاری کرے کہ ’’قدم بڑھائو نواز شریف ہم تمہارے ساتھ ہیں‘‘۔ ’’۔۔۔ اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے‘‘۔ اسے اہلیت اور بصیرت کا حامل لیڈر کیسے قراردیا جاسکتا ہے۔ لیڈر فعال کردار ادا کرتا ہے۔ وہ عوام اور کارکنوں سے رابطہ استوار رکھتا ہے جب یہ رابطہ ٹوٹ جائے تو پارٹی سکڑنے لگتی ہے۔ 2008ء اور 2013ء کے دوران پی پی پی کے دو لیڈروں کو وزیراعظم بننے کا موقع ملا۔ وہ مرکزی قائد بن کر نہ ابھر سکے۔ایک الیکشن نہ لڑسکے دوسرے اپنی انتخابی نشستوں پر ہی ہار گئے۔ پی پی پی کا تجزیہ قیادت کے حوالے سے کیا جانا چاہیئے۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد اگر پی پی پی کو فعال، متحرک اور اہل قیادت میسر ہوتی تو وہ کبھی عمران خان کو سپیس نہ دیتی۔ عمران خان نے بہتر قائدانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کرکے پی پی پی سے سیاسی میدان چھین لیا۔ آصف علی زرداری آغاز سے ہی کرپشن کے الزامات کی زد میں رہے ان کو اگر پی پی پی کا درد ہوتا تو وہ پارٹی کی قیادت مخدوم امین فہیم کو سونپ دیتے۔ وہ خود پس منظر میں رہ کر خاموش کردار ادا کرتے مگر انہوں نے پارٹی کے مفاد کو نظر انداز کرکے حکومت اور پارٹی دونوں پر قبضہ کرلیا۔ آنے والا غیر جانبدار مورخ لکھے گا کہ آصف علی زرداری کبھی عوام میں مقبول نہیں رہے۔ انہوں نے گیارہ سال کی قید سیاسی بنیاد پر نہیں بلکہ کرپشن کے الزامات پر کاٹی۔ وہ طویل قید کاٹنے کے بعد رہا ہوئے اور لاہور میں یوم مئی کے جلوس کی قیادت کی جس میں 250 محنت کش شریک ہوئے جس کا خمیازہ پی پی پی لیبرونگ کے انچارج عبدالقادر شاہین کو بھگتنا پڑا۔ جب لیڈر خود غیر مقبول ہو اس کی قیادت میں پارٹی کیسے مقبول ہوسکتی ہے۔
پاکستان کی سیاسی جماعتیں نمبر گیم کی سیاست کررہی ہیں اور انتخابی گھوڑوں کی تلاش میں رہتی ہیں۔ انتخابات میں حصہ لینے والے ’’سیاسی مسافر‘‘ سیاسی ہوا کا رخ دیکھ کر فیصلے کرتے ہیں اور سیاسی وفاداریاں تبدیل کرتے رہتے ہیں جبکہ وہ ایک جماعت کو چھوڑ کر دوسری جماعت میں شامل ہونے کا سبب ’’نظریاتی اختلاف‘‘ قراردیتے ہیں۔ حالانکہ وہ ہوا کے رخ پر چل رہے ہوتے ہیں اور انہیں نرم الفاظ میں ’’موقع شناس‘‘ ہی کہا جائے گا۔
رخ ہوا کا دیکھ کر چلتی ہے سانس بھی
توہین زندگی ہے یہ کوئی زندگی نہیں
پنجاب میں بلدیاتی انتخابات اور عام انتخابات میں مسلم لیگ(ن) اور تحریک انصاف کے درمیان مقابلہ ہوگا۔ انتخابات میں حصہ لینے والے سیاستدان پی پی پی کو چھوڑ کر تحریک انصاف میں شامل ہورہے ہیں۔ یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ پی پی پی کو چھوڑ کر جانے والے ’’سیاسی مسافر‘‘ 2023ء کے انتخابات سے پہلے واپس آجائیں گے کیونکہ اس وقت ممکنہ طور پر بلاول بھٹو کی قیادت کا سورج چمک رہا ہوگا۔ بشرطیکہ وہ اپنی فعال اور متحرک قیادت کا لوہا منوانے پر کامیاب ہوجائیں۔ بے نظیر بھٹو بھی گیارہ سال کی جدوجہد کے بعد ہی پاکستان کی وزیراعظم بن پائی تھیں۔ اشرف سوہنا اور صمصام بخاری درست کہتے ہیں کہ آصف علی زرداری نے پی پی پی کو مسلم لیگ(ن) کی بی ٹیم بنادیا ہے۔ اگر پی پی پی اپنی شناخت قائم رکھتی تو اسے حالیہ آزمائش کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔
پی پی پی کا المیہ یہ ہے کہ اس کے پاس تجربہ کار کرشماتی لیڈر ہی موجود نہیں ہے۔ بلاول بھٹو کی شخصیت کرشماتی ہے مگر ان کے پاس سیاسی تجربہ نہیں ہے۔ اگر وہ 2013ء کے انتخابات کے بعد پارٹی کی قیادت سنبھال لیتے تو آج پی پی پی بلدیاتی انتخابات کے لیے تیار ہوچکی ہوتی۔ آج کے زمینی حقائق یہ ہیں کہ کوئی ڈھنگ کا اُمیدوار پی پی پی کا ٹکٹ لینے کے لیے تیار نہیں ہوگا۔ پارٹی کے پرانے ناپسندیدہ چہرے تبدیل کرنے کے لیے نئے چہرے دستیاب نہیں ہیں۔ موجودہ حالات میں رکنیت سازی ممکن نہیں ہوگی اس کے لیے جیالوں اور حامیوں کے اعتماد کو بحال کرنا ہوگا۔ اس مقصد کے حصول کے لیے بلاول بھٹو کو سرگرم اور فعال کردار ادا کرنا ہوگا۔ وہ سب سے پہلے پنجاب میں ورکرز کنونشن بلائیں۔ کارکنوں کی شکایات سنیں اور ان کی روشنی میں سیاست کا آغاز کریں تاکہ قیادت اور کارکنوں کے درمیان ٹوٹا ہوا رابطہ اور اعتماد بحال ہوسکے۔
بلاول بھٹو کو اگر فری ہینڈ نہ ملا اور آصف علی زرداری پارٹی پر کنٹرول رکھنے پر بضد رہے تو بلاول بھٹو کی کامیابی کے امکانات مخدوش رہیں گے۔ ان کو عوام کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے 2008ء سے 2015ء تک کی حکومتی اور پارٹی پالیسیوں سے برملا اور دوٹوک اختلاف کرنا پڑے گا۔ بلاول بھٹو اگر انتھک محنت کرکے اگلے انتخاب میں پنجاب سے قابل ذکر نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے تو وہ 2023ء میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوسکتے ہیں البتہ اس کے لیے ان کو بھٹو اور بے نظیر کی طرح پورے جذبے، خلوص، لگن اور عزم کے ساتھ سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینا ہوگا۔ پی پی پی کی اصل قوت غریب عوام ہیں جو ابھی تک کسی اور سیاسی جماعت میں شامل نہیں ہوئے اور شاید کسی بھٹو کی تلاش میں ہیں۔