مقبوضہ کشمیر‘ آزاد کشمیر‘ پاکستان اور دنیا میں جہاں جہاں بھی کشمیری موجود ہیں‘ آج برہان مظفروانی شہید کی پہلی برسی منائی جارہی ہے۔ اس موقع پر بھارتی افواج نے مقبوضہ وادی میں اپنے مظالم کا سلسلہ تیز کردیا اور بوکھلاہٹ میں حریت رہنمائوں سید علی گیلانی‘ میرواعظ عمر فاروق کو گھر میں نظربند جبکہ یٰسین ملک کو گرفتار کرکے جیل میں قید کردیا۔ دیگر رہنمائوں کیخلاف بھی کریک ڈائون جاری ہے۔ کشمیریوں کے ممکنہ احتجاج اور مظاہروں کے پیش نظر مقبوضہ کشمیر میں موبائل سروس‘ انٹرنیٹ سروسز اور سوشل ویب سائٹس ایک بار پھر غیرمعینہ مدت کیلئے بند کردی گئی ہیں۔
برہان وانی شہیدکے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بھارتی فوجیوں کے مظالم کی داستانیں سن کر کم عمربرہان بے چین ہو جایا کرتاتھا۔وہ بھارتی فورسزکے مظالم کے کئی واقعات اپنی آنکھوں سے بھی دیکھ چکا تھا لہٰذا درندہ صفت فوجیوں کیخلاف اسکے دل میں نفرت کالاواپک رہا تھا۔ بڑے بھائی خالد کی بھارتی فوج کے ہاتھوں شہادت کے بعد وہ بہت بے چین رہنے لگا تھا۔ پھر ایک دن موسم سرما کی صبح وہ اچانک گھر سے غائب ہو گیا۔ یہ 16اکتوبر کا دن تھا اور صرف دس دن بعد اس کا دسویں کلاس کا سالانہ امتحان تھا۔ نویں جماعت میں اس نے پورے کشمیرمیں اوّل پوزیشن حاصل کی تھی۔وہ ایک خاموش طبع،حساس،دیندار اور ہونہار طالب علم اور ایک اچھا کرکٹر تھا۔کچھ عرصے بعد اسکے گھر والوں کواطلاع ملی کہ وہ حزب المجاہدین میں شامل ہو چکا ہے۔ جلد حزب المجاہدین نے اسکی صلاحیتیں دیکھ کر باقاعدہ اپنا کمانڈر ڈکلیئر کر دیا۔اگلے پانچ برس تک برہان سکیورٹی فورسزکو تگنی کا ناچ نچاتا رہا۔اس دوران وہ مقبوضہ وادی کا سب سے مقبول جہادی کمانڈربن چکا تھا۔ اسکی حیثیت ایک افسانوی کردار جیسی تھی۔نوجوان کشمیری نسل نے اسے اپنا رول ماڈل قرار دیا اور پورے کشمیر میں بچے بچے کی زبان پراس کا نام تھا۔ نو عمر برہان آبادی کے اعتبار سے دنیا کے دوسرے بڑے ملک بھارت کے حکمرانوں اور جرنیلوں کیلئے چیلنج بن چکا تھا اس کا ذکر نام نہاد کشمیر اسمبلی میں بھی ہوتا، بعض ارکان اسمبلی یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ حکومت مظفروانی سے مذاکرات کرے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ ظلم،جبر، تشدد اورخونِ ناحق ہمیشہ ردعمل کو جنم دیتا ہے۔بھارتی حکمران سمجھتے ہیں کہ وہ ظلم کے ہتھکنڈوں سے آزادی کے بھڑکتے شعلوں کو ٹھنڈا کر رہے ہیں، لیکن بھارتی فوج کا ظلم آزادی کے شعلوں کو مزید تیز ترکر رہا ہے۔ یہی معاملہ برہان وانی شہیدکا تھا۔ بھارتی فوج کے مظالم نے اسے آتش فشاں بنا دیا۔پانچ برس کے دوران برہان وانی شہید نے قابض بھارتی فوجیوں کیخلاف کئی خطرناک،کامیاب آپریشن کئے اور معرکے لڑے،جن میں بیسیوں فوجیوں کے علاوہ اعلیٰ عہدوں کے حامل بہت سے افسر مارے گئے۔ 2013ء میں جن تین بھارتی فوجیوں نے کشمیری مسلمان بچیوں کی عصمت دری کی،انکے بھیانک انجام کی ویڈیوبنا کر فلم سوشل میڈیا پر جاری کر دی تھی۔وانی اور انکے ساتھیوں نے سوشل میڈیا کو تحریک آزادی کیلئے بڑی مہارت سے استعمال کیا اور عالمی توجہ بھی حاصل کی۔ بھارتی حکومت نے برہان وانی شہید کے سرکی قیمت دس لاکھ مقرر کر دی۔ برہان نے اپنی قوم کے جوانوں میں جذبہ جہاد بیدار کرنے کیلئے بندوق کے ساتھ ساتھ انٹرنیٹ اور فیس بک کو بھی خوب استعمال کیا۔وہ جہادی زندگی ،بھارتی فوج کے کشمیریوں پر مظالم اور مجاہدین کی بھارتی فوج کے ساتھ معرکہ آرائیوں کی ویڈیو اَپ لوڈ کرتا۔ بھارتی اخبار ’’دی ہندو‘‘ کے مطابق جس چیز نے برہان کو بھارتی حکومت کیلئے مطلوب ترین بنایا وہ اسکی کشمیری نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی مقبولیت تھی، جس میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا تھا، جبکہ بھارتی اداروں کے مطابق سوشل میڈیا پر جاری برہان کے ویڈیو پیغامات سے متاثر ہو کر ہر ماہ بیسیوں کشمیری نوجوان حریت پسندی کا راستہ اختیار کر رہے تھے۔
8جولائی کو برہان وانی ککر ناگ میں اپنے دیگر دو جہادی ساتھیوں کے ہمراہ ایک مقامی دوست فاروق احمدکے گھر میں موجود تھا کہ بھارتی افواج نے فاروق احمد کے گھر کا محاصرہ کرلیا۔ برہان اور اسکے ساتھیوں نے بھی جان ہتھیلی پر رکھ کر مقابلہ شروع کر دیا۔ سہ پہرساڑھے چار بجے شروع ہونیوالا مقابلہ پونے چھ بجے تک جاری رہا۔اس مقابلہ میں برہان نے اپنے دو ساتھیوں سمیت جام شہادت نوش کیا۔ 21سالہ برہان وانی کی شہادت پر بھارتی حکومت کو جس شدید ترین ردعمل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اسکی مثال مقبوضہ جموں کشمیر کی گزشتہ تاریخ میں نہیں ملتی۔
مقبوضہ کشمیر میں انتفاضہ کا آغاز 1989ء میں ہوا‘ مقبوضہ وادی میں انتفاضہ فلسطینیوں سے متاثر ہو کر شروع کی گئی۔ نہتے فلسطینی ظالم اور جابر جدید اسلحہ سے لیس اسرائیلی فوج کو سنگ باری اور غلیلوں کے ذریعے زچ کرکے رکھ دیتے تھے۔ یہی کچھ مقبوضہ وادی میں نہتے کشمیری کرتے رہے اور اس انتفاضہ کو برہان مظفروانی کی شہادت نے نیا رخ دیا کہ آج بھارتی افواج کشمیری بچوں کے سامنے بے بس نظر آتی ہیں۔ جہاں مظفر وانی کی شہادت سے تحریک آزادی کو نئی مہمیز ملی‘ وہیں بھارتی بربریت اور سفاکیت میں بھی اضافہ ہوا۔ مہلک اور ممنوعہ اسلحہ کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔ اسرائیل سے پیلٹ گنیں درآمد کرکے سینکڑوں کشمیریوں کو شہید کیا‘ اسرائیل نے گوبعد میں فلسطینیوں کیخلاف اس کا استعمال روک دیا مگر بھارت نے سفاکیت کی انتہاء اور انسانیت کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے اس کا بے رحمانہ استعمال کرکے دس ہزار سے زائد بچوں‘ بچیوں اور نوجوانوں کو معذور کردیا‘ ان میں سے اکثر کی بینائی جاتی رہی اور چہروں کے خدوخال بدل گئے۔
بھارت نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ مقبوضہ وادی میں کیمیائی اسلحہ کا بھی استعمال کیا جارہا ہے۔ پاکستان نے عالمی برادری سے مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی طرف سے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی تحقیقات کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ بھارتی سکیورٹی فورسز کشمیری نوجوانوں کو شہید کرنے اور املاک کو تباہ کرنے کیلئے ایسا گولہ بارود استعمال کر رہی ہیں جن میں مختلف کیمیائی مواد استعمال کئے جا رہے ہیں۔ بھارتی فورسز کی طرف سے تباہ کئے گئے گھروں سے ملنے والی کشمیری نوجوانوں کی نعشیں اتنی بری طرح جلی ہوئی تھیں انکی شناخت ممکن نہیں رہی تھی۔
مظفر وانی کی شہادت کے بعد سے کشمیری نوجوان بھارت کیخلاف سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کررہے جو مقبوضہ وادی کے اندر تو ممنوع قرار دیدیا گیا مگر مقبوضہ کشمیر کے باہر کشمیری اور پاکستانی نوجوان بھارتی بربریت کو ممکنہ حد تک بے نقاب کررہے ہیں۔ کشمیریوں نے کشمیر ایشو کو بڑے جاندار طریقے سے عالمی برادری کے سامنے رکھا۔ پاکستان نے بھی اپنا فرض ادا کیا۔ یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ‘ یورپی یونین اور ایمنسٹی انٹرنیشنل جیسی تنظیمیں بھی بھارت پر انسانی حقوق کے حوالے سے دبائو ڈال رہی ہیں۔ بھارت نے ان تنظیموں کے وفود کو مقبوضہ کشمیر میں آنے سے روک رکھا ہے۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں اپنے مظالم چھپانے کیلئے اقوام متحدہ کے مبصرین کا نئی دہلی میں دفتر بھی بند کر رکھا ہے جبکہ پاکستان میں یہ مصبرین موجود ہیں اور شیڈول کے تحت ایل او سی کا دورہ کرتے ہیں۔ بھارت کے عالمی اداروں کی تضحیک کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ وہ نہ صرف عالمی اداروں کی انسانی حقوق سے متعلق تنظیموں کو مقبوضہ کشمیر کے دورے کی اجازت نہیں دیتا بلکہ اس نے پاکستان میں موجود اقوام متحدہ کے مبصروں کی جیپ پر ایل او سی کے دورے کے موقع پر حملہ بھی کردیا تھا۔
پاکستان کی برسر اقتدار جماعت پر بھارت کیلئے نرم رویے کا الزام لگتا رہا ہے۔ مگر وزیراعظم نوازشریف نے گزشتہ ستمبر میں اقوام متحدہ کے اجلاس کے دوران کشمیر پر جرأت مندانہ موقف اختیار کرکے ثابت کردیا کہ کشمیر ایشو حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے۔ وزیراعظم کی تقریر کا 80 فیصد فوکس کشمیر پر رہا اور انہوں نے تمام مصلحتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بھارت کو مظفروانی کی شہادت کا ذمہ دار قرار دیا۔ کشمیر ایشو پر سیاسی اور عسکری قیادت ایک پیج پر ہے۔ پہلے جنرل راحیل شریف اور بعدازاں جنرل قمرجاوید باجوہ نے مودی حکومت کو باور کرایا کہ ایل او سی پر بھارتی مداخلت کا سلسلہ بند نہ ہوا تو پاکستان کسی بھی قسم کی صورتحال سے نمٹنے کیلئے تیار ہے۔
پاکستان اور بھارت کے مابین مسئلہ کشمیر پر تین جنگیں ہوچکی ہیں جو اس مسئلہ کی شدت اور سنگینی کو ظاہر کرتی ہیں۔ مگر پاکستان میں قومی اسمبلی کی کشمیر کمیٹی کی ہیئت پر غیرسنجیدگی کا اظہار ہوتا رہا ہے۔ مولانا فضل الرحمان تقریباً ایک دہائی سے کشمیر کمیٹی کے چیئرمین ہیں مگر کشمیرکاز کیلئے انکی سربراہی میں کشمیر کمیٹی عضو معطل بن چکی ہے۔ معروضی حالات اسکی فعالیت کے متقاضی ہیں۔ خواہ اسکی قیادت میں تبدیلی کرنا پڑے۔
مظفر وانی کی شہادت کے موقع پر جہاں پاکستان میں احتجاج اور مظاہرے ہوئے وہیں حکومت سفارتی میدان میں بھی بڑی متحرک نظر آئی۔ پارلیمنٹیرین کے وفود دوسرے ممالک بھجوائے گئے۔ پاکستان میں موجود غیرملکی سفیروں کو خصوصی طور پر بریف کیا گیا‘ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں قراردادیں منظور کی گئیں۔ وانی کی شہادت کے بعد تحریک آزادی کو بلاشبہ نئی مہمیز ملی اور شروع میں جو ٹمپو بن گیا تھا‘ وہ ایک سال سے برقرار ہے۔ آئندہ بھی کشمیریوں‘ پاکستانیوں اور حکومت پاکستان و حکومت آزاد کشمیر کو چاہیے کہ اس ٹمپو میں کمی نہ آنے دیں۔انشاء اللہ اس سے کشمیریوں کی آزادی کی منزل قریب آتی جائیگی۔ بھارت کو بالآخر کشمیریوں کے جذبہ شہادت کے آگے سرنگوں ہونا پڑیگا اور انہیں اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیر کو آزادی دینا ہی پڑیگی۔