تشدد سے جذبہ حریت میں کمی کی بجائے تیزی آتی ہےبھارتی سرکار کوکشمیر کی 70سالہ تاریخ سے سبق سیکھنا چاہئے

سجاد اظہر پیرزادہ
sajjadpeerzada1@hotmail.com
مذاکرات سے تمام مسائل کو مل بیٹھ کر حل کیا جاسکتا ہے‘ تشدد سے مگرجذبہ حریت میںکمی کی بجائے تیزی آتی ہے۔انڈیاکی موجودہ انتہاپسندسرکار کو8جولائی 2016ءمیں کشمیرکے اندر اِس قدر مزاحمت کا سامنا نہیں تھا‘جس قدرآج 8جولائی 2017ءمیںآزادی کا حق مانگنے والے برہان وانی کو شہید کروا دینے کے بعد بی جے پی گورنمنٹ بھگتتی نظر آتی ہے۔
ہندوستان کے تمام لبرل طبقے‘خواہ مارکینڈے کاٹجو جیسے نامور جسٹس ہوں،برکھا دَت جیسے ٹی وی اینکر ہوں،ہندوستان ٹائمز کے ایڈیٹر ونندشرما ،ارون دھتی رائے جیسے صحافی ،مصنف ہوں یا شبنم لون جیسے ممتاز وکیل ، سب ہی کشمیریوں کے آزادی اظہار کے حق میںپہلے کی نسبت قدرے زور سے آواز اٹھانے لگے ہیں۔انڈین سپریم کورٹ کے سابق جسٹس کاٹجو نے تو اُس ظالم انڈین فوجی کو ایوارڈ دینے پر بھی اپنی فوج کو آڑے ہاتھوں لیا‘ جنہوںنے کشمیری جوان کو اپنی جیپ کے آگے باندھ کر سڑکوں پر گھسیٹا تھا۔اِن سب تازہ حقائق کا نظارہ دہلی کے جنتر منتر چوک میں اپنی آنکھوں سے بھی ہم نے دہلی کے دورے کے دوران اُس وقت کیا تھاجہاں کئی نامور لبرل شہری، سیاستدان،صحافی،دانشور اکٹھے ہوکر کشمیریوں کو ان کے حقوق دینے کا اظہارکر رہے تھے۔ہندوستانی سرکار کو چاہئے کہ اپنے دانشوروں کی رائے پر چلتے ہوئے ‘ اپنی ساری مکار سیاست اور چالاکی کو چناﺅ تک محدود رکھ کر اپنے پڑوسی ملک پاکستا ن کو نیچا دکھانے کی بجائے سلیقے سے مسئلہ کشمیر حل کر نے کی طرف قدم بڑھائے۔ اب تو 70سال کی یہ نئی تاریخ بھی گواہ ہے کہ بڑی سے بڑی جنگوں کے بعد بھی مسائل صلح و مذاکرات کے بغیر حل نہیں ہوتے !۔ گھمنڈی اور مغرور کسی شخص کی صورت میں ہو یا ایک سر کار کی ‘ سر ہمیشہ ایک دن ایسوں کا نیچا ہوتاہے ۔
پاکستان کی گورنمنٹ جب بھی مقبوضہ کشمیرمیں ہونے والے مظالم پر انڈین سرکار سے احتجاج کرتی ہے تو سشما سوراج کا یہ جملہ پڑھنے کو ملتا ہے کہ کشمیراُن کا اٹوٹ انگ ہے اورپاکستان کو ہمارے داخلی معاملات میں دخل نہیں دینا چاہئے۔ یہ بات درست ہے کہ ہندوستان کو آبادی کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا بڑا اور ایک آزاد ملک ہونے کے واسطے اس بات کا حق ہے کہ وہ اپنے شہریوں پر جس طرح کا چاہے قانون نافذ کر دے ‘ لیکن گستاخی معاف ! ابھی جب مقبوضہ کشمیر کا فیصلہ ہوا ہی نہیں اور اقوام متحدہ کی قرار داد کے مطابق یہ علاقہ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان متنازعہ ہے تو پھر کیسے ہندوستان کی وزیرخارجہ سشما سوراج یہ گستاخی کر سکتی ہےں کہ وہ کشمیریوں سے اُن کی مرضی جانے بغیر اُن پر اور اُن کے کشمیر پر نت نئے کالے قانون کی بھر مار کرنا اپنا اٹوٹ انگ مقصد ہی بنالےں؟۔دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے!۔
ابھی حال ہی میں امریکہ کے دورے پر ہندوستان کے وزیراعظم مسٹر مودی یہ دہرا کر آئے ہیں کہ ہندوستان دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے۔ چلیں مان لیتے ہیں کہ ہندوستان دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے ۔ لیکن آئیے اس سوال کاجواب دیجئے کہ کیا جمہوریت میں فوج کا کام محض سرحدوں کی حفاظت کرنا نہیں ہوتا ؟ اگر جمہوریت میں فوج کا کام سرحدوں کی حفاظت کرنا ہی ہوتا ہے ‘ تو پھر مودی سرکار سے ہندوستان کے لبرل طبقے یہ سوال بھی ضرور پوچھیں کہ فوج سمیت 7لاکھ سکیورٹی فورسز اُس حسین وادی میں کیا کر رہی ہے جس کا نام مقبوضہ کشمیر ہے ؟
آج2017ءکی بی جے پی سرکار کو معلوم ہونا چاہئے کہ کشمیروں کا ہر غم اور ہر خوشی آزادی کے نظریہ کے ساتھ ہی وابستہ ہے۔ اگر کشمیریوں کی موجودہ لڑائی زورو شور پر ہے تو اِس کی وجہ بھی اُن کے اندر غلامی کے ساتھ زندہ رہنے کی عادت کا ذرا برابرموجود نہ ہونا ہے۔ انتہاپسندنظریات کی پروردہ رولنگ پارٹی کواس بات کی بھی خبر ہونی چاہئے کہ کشمیریوں کی حدمیں رہنے کی روش سے ہی ابھی ہندوستان کا سماںرنگین ہے‘کشمیریوںکی حد ِا دب سے ہی ہندوستان کے دارالحکومت دہلی کی سرکار کا جہاں آباد ہے۔جس دن کشمیریوں کی برداشت جواب دے گئی‘اورجس دن وقت کا لکھاسامنے آگیا‘ پھر21ویں صدی والے ہندوستانی سیاستدانوں کے ہوش بھی اُسی طرح ٹھکانے آ ئیں گے ‘ جس طرح اگست 1947ءمیںہندوستان کی تقسیم دیکھ کر20ویں صدی والے گھمنڈیوں کو چھٹی کا دوددھ یاد آیا تھا۔
فیصلہ ہے یہی ، بات ہے یہ اٹل،آزادی اظہار حق اور اپنے حقوق کے لئے جابروں سے ٹکرا جانے والے کشمیریوںکاآج کے زمانے میں کوئی بدل نہیں ہے۔پاکستان میں جعلی پاسپورٹ کے ذریعے داخل ہوکر جاسوسی کا اعتراف کرنےوالے انڈین جاسوس کی رہائی کا معاملہ تو عالمی عدالت انصاف نے پینڈنگ کر لیا ہے‘26جنوری 1950ءکو نافذ ہوئے انڈیا کے آئین میں مقبوضہ کشمیر کی مقبوضہ عوام کے لئے کالے قانون کی موجودگی کیوں آزادی اظہار حق کے چیمئن بننے والوں کو زہر نہیں لگتی؟
بے شک‘ایک طے شدہ فریم ورک کے مطابق مذاکرات سے تمام مسائل کو مل بیٹھ کر حل کیا جاسکتا ہے‘ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان کشمیر کے مسئلے پراقوام متحدہ نے ایک فریم ورک طے کیا ہوا ہے۔ اس فریم ورک کے مطابق کشمیر سے فوج نکال کرکشمیریوںکو حق خودارادیت کا موقع دینا ہے کہ وہ ووٹ کہ ذریعے چناﺅ کریں کہ اُنہوں نے کہاں رہنا ہے۔پاکستان اقوام متحدہ کے اِسی فریم ورک پر عمل کرنے کا وعدہ ہندوستان کو بار بار یاد دلاتا ہے۔ہندوستان کی حکومت مگر1جنوری 1948ء سے جب ہندوستان کے وزیراعظم جواہر لال نہرو خود کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ لے کر گئے تھے، اس طے شدہ فریم ورک پر عمل کرنے سے گریزاں ہے۔ اب وہ کشمیریوں پر تشدد کر کے اُن کے اظہار حق اور حق آزادی کا گلا گھوٹنا چاہتی ہے۔ ہندوستان کی سرکارکو مگر یہ معلوم ہونا چاہئے کہ تشدد سے جذبہ حریت میںکمی کی بجائے تیزی آتی ہے۔8جولائی 2017ءکو آج برہان وانی کی پہلی برسی پر کشمیریوں کے جذبات اس بات کامزید ثبوت ہےں !۔

ای پیپر دی نیشن