اسلام آباد (نمائندہ خصوصی+ نوائے وقت رپورٹ+ نیوز ایجنسیاں) وزیراعظم محمد نواز شریف کی صدارت میں قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں سیاسی اور عسکری قیادت نے قومی سلامتی، خارجہ پالیسی کے امور کا علاقائی اور عالمی تناظر میں جائزہ لیا۔ اجلاس میں جائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے سربراہ جنرل زبیر محمود حیات، بری فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ، دفاع، خزانہ، داخلہ کے وفاقی وزرائ، فضائیہ کے سربراہ ائرچیف مارشل سہیل امان، ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار، قومی سلامتی کے مشیر، بحریہ کے سربراہ اور دوسرے اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔ اجلاس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف عالمی جدوجہد میں فرنٹ لائن ریاست کی حیثیت سے کردار ادا کیا ہے اور اس سلسلہ میں غیرمعمولی قربانیاں دیں اور کامیابیاں حاصل کیں۔ کسی بھی دوسرے ملک نے عالمی تحفظ اور سلامتی کیلئے اتنا کچھ نہیں کیا۔ ریاست نے انسانی اور مادی دونوں لحاظ سے بھاری لاگت برداشت کی۔ اجلاس میں سکیورٹی فورسز، قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی قربانیوں اور دہشت گردی کیخلاف قومی عزم کی تعریف کی۔ اجلاس کے شرکاء نے کہا کہ علاقائی امن اور ترقی براہ راست تمام دیرینہ تنازعات بشمول جموں و کشمیر کے تنازعہ کے حل کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ پاکستان نے علاقائی اور عالمی پارٹنرز کے ساتھ مل کر افغانوں کی قیادت میں امن کے عمل کے ذریعے افغانستان کی ترقی اور امن کیلئے کام کرتا رہیگا، افغانستان میں جتنی جلد ممکن ہو حالات کو معمول پر لانے کیلئے کوشش جاری رکھے گا تاہم اس کیلئے ضروری ہے کہ افغانستان کی حکومت بھی اپنے علاقے میں موثر کنٹرول کو بحال کرے۔ ذرائع کے مطابق قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں ملکی سلامتی، قطر سعودی عرب اور افغانستان، بھارت تعلقات سمیت مودی کے دورہ اسرائیل و امریکہ کے حوالے سے پالیسی پر غور کیا گیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نوازشریف نے افغان صدر اشرف غنی اور سعودی فرمانروا سے ہونے والی ملاقاتوں سمیت عالمی اتحاد کے بارے میں اجلاس کے شرکا کو آگاہ کیا جبکہ آرمی چیف قمر باجوہ نے مشرقی اور مغربی سرحدوں کی صورتحال کے حوالے سے اجلاس کوآگاہ کیا۔ وزیراعظم کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ ملکی سلامتی کے حوالے سے کوئی سودے بازی نہیں کی جائیگی اور قومی سلامتی کو ہر سطح پر مقدم رکھا جائیگا۔ ایک نجی ٹی وی ذرائع کے مطابق اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ افغانستان کے ساتھ عسکری اور سول رابطوں کو موثر بنانے کی حکمت عملی کا جائزہ لیا گیا اور افغانستان کے ساتھ انٹیلی جنس میکنزم مضبوط بنایا جائیگا۔ افغانستان سے دی گئی دہشت گردوں کی فہرستوں پر ایکشن کیلئے رابطے کئے جائیں گے۔ افغانستان کے ساتھ عدم مداخلت کا معاملہ افغان قیادت سے براہ راست اٹھایا جائے گا۔ اس عزم کا بھی اعادہ کیا گیا ہے کہ افغانستان کے ساتھ سرحدی باڑ لگانے کا عمل ہر صورت مکمل کیا جائے گا۔ اجلاس میں بھارت کی مقبوضہ کشمیر میں بربریت پر تشویش کا اظہار کیا گیا اور تمام دوست ممالک کے ساتھ بھارتی مظالم کو اٹھانے اور خاص طور پر بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کی پاکستان میں مداخلت اور کلبھوشن جیسے معاملات کو عالمی سطح پر اور بالخصوص دوست ممالک کے ساتھ اٹھانے کا فیصلہ ہوا ہے۔ سیاسی اور عسکری قیادت کا اجلاس آئندہ ہفتہ دوبارہ بلانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اجلاس کے بعد جاری کیے گئے اعلامیے کے مطابق کمیٹی نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ کسی ملک نے عالمی تحفظ اورسلامتی کیلئے پاکستان کی طرح قربانیاں نہیں دی، پاکستان افغانستان میں پائیدار امن کیلئے کردار ادا کرتا رہیگا، پاکستان علاقائی اورعالمی شراکت داروں سے تعاون اور افغانستان میں معمول کے حالات کی واپسی کیلئے کوششیں جاری رکھے گا لیکن امن کیلئے افغان حکومت کو بھی اپنے علاقے میں موثر کنٹرول قائم کرنا ہوگا۔وزیراعظم محمد نواز شریف سے آرمی چیف کی ’ون آن ون‘ ملاقات بھی ہوئی۔ یہ ملاقات قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے موقع پر ہوئی۔